انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** قرآن کریم کی جامعیت کا دعویٰ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ہدایت انسانی کے پورے نقشے پھیلادیئے ہیں، یہ کتاب خداکی آخری کتاب ہے اوراس میں ہر انسانی ضرورت کا حل موجود ہے۔ "وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ"۔ (النحل:۸۹) ترجمہ: اور ہم نے آپ پر ایسی کتاب اتاری جو ہر چیز کا کھلا بیان ہے ہدایت اوررحمت ہے اورماننے والوں کے لیے خوشخبری ہے۔ ہر چیز کے کھلے بیان کا مطلب یہ ہے کہ اس میں تمام علوم ہدایت، اصول دین اور فلاح دارین سے متعلق ضروری امور کا نہایت مکمل اورواضح بیان ہے،یہاں کتاب اللہ، اسوۂ رسول اور اطاعت رسول کی راہ سے تمام ہدایات نبویہ کو بھی شامل ہے اوراس عموم سے احادیث میں کتاب اللہ کی مرکزی حیثیت اسی طرح مذکور ہے: حضرت جابر بن عبداللہ الانصاری(۷۴ھ) کہتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: "وَقَدْ تَرَكْتُ فِيكُمْ مَا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ إِنْ اعْتَصَمْتُمْ بِهِ كِتَابُ اللَّهِ"۔ (مسلم، بَاب حَجَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حدیث نمبر:۲۱۳۷، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ: اور میں تم میں وہ چیز چھوڑے جارہا ہوں کہ اگر تم نے اسے تھام لیا تو تم کبھی گمراہ نہ ہوگے وہ چیز کتاب اللہ ہے۔ حضرت علیؓ بھی کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "كِتَابُ اللَّهِ فِيهِ نَبَأُ مَا كَانَ قَبْلَكُمْ وَخَبَرُ مَا بَعْدَكُمْ وَحُكْمُ مَا بَيْنَكُمْ وَهُوَ الْفَصْلُ لَيْسَ بِالْهَزْلِ مَنْ تَرَكَهُ مِنْ جَبَّارٍ قَصَمَهُ اللَّهُ وَمَنْ ابْتَغَى الْهُدَى فِي غَيْرِهِ أَضَلَّهُ اللَّهُ وَهُوَ حَبْلُ اللَّهِ الْمَتِينُ وَهُوَالذِّكْرُ الْحَكِيمُ وَهُوَ الصِّرَاطُ الْمُسْتَقِيمُ هُوَ الَّذِي لَا تَزِيغُ بِهِ الْأَهْوَاءُ وَلَا تَلْتَبِسُ بِهِ الْأَلْسِنَةُ وَلَايَشْبَعُ مِنْهُ الْعُلَمَاءُ وَلَا يَخْلَقُ عَلَى كَثْرَةِ الرَّدِّ وَلَا تَنْقَضِي عَجَائِبُهُ"۔ (ترمذی، بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الْقُرْآنِ،حدیث نمبر:۲۸۳۱،شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ: قرآن کریم میں پہلی داستانیں بھی ہیں اور آئندہ کی خبریں بھی ہیں اور حال کے احکام بھی ہیں، یہ فیصلہ کن چیز ہے، مذاق کی چیزنہیں،جو متکبر اسے ترک کرے گا اللہ اسے توڑے گا اورجو اس کے سوا کسی اورچیز میں ہدایت ڈھونڈے اللہ اسے راہ سے بھٹکادیں گے،قرآن اللہ کی مضبوط رسی ہے؛ یہی ذکر حکیم اور یہی صراط مستقیم ہے، اس کے ساتھ طبائع کجروی میں نہیں جاتیں اور زبانیں ملتبس نہیں ہوتیں، علماء کواس سے سیری نہیں ہوتی اور بار بار مراجعت سے یہ پرانا نہیں ہوتا اوراس کے عجائب کبھی ختم نہ ہوں گے۔ حضرت زید بن ارقم(۶۷ھ) بھی روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "إني تارك فيكم كتاب الله هو حبل الله من اتبعه كان على الهدى ومن تركه كان على الضلالة"۔ (صحیح ابن حبان،باب ذكر إثبات الهدى لمن اتبع،حدیث نمبر۱۲۳،شاملہ) ترجمہ: میں تم میں کتاب اللہ چھوڑے جارہاہوں، وہ اللہ کی رسی ہے جو اس کی پیروی کرے گا ہدایت پر ہوگا اورجو اسے چھوڑے گا گمراہی پر رہے گا۔ قرآن کریم کی مذکورہ بالاآیت اور یہ روایات بتارہی ہیں کہ قرآن کریم نہایت جامع اور مکمل کتاب ہے اور اس میں ہر انسانی ضرورت کا پورا پورا حل موجود ہے،قرآن کریم کی جامعیت کا یہ دعویٰ کہاں تک حالات سے ہم آہنگ ہے؟اورزندگی کے تمام مسائل کیا اپنی پوری تفصیل کے ساتھ ہمیں اس میں ملتے ہیں یا نہیں؟ اس پر ذرا اور غور کیجئے، یہ حقیقت ہے اور اس کے تسلیم کرنے سے چارہ نہیں کہ بہت سے قرآنی احکام ایسے مجمل ہیں کہ جب تک اور کوئی ماخذ علم ان کی تفصیل نہ کرے ان کی عملی تشکیل نہیں ہوسکتی اور زندگی کے لا تعداد مسائل ایسے بھی ہیں جن کے متعلق واضح جزئی ہمیں قرآن کریم میں نہیں ملتی،پس قرآن کریم کی جامعیت کی تشریح ایسی ہونی چاہئے جس سے یہ دعویٰ واقعات سے ہم آہنگ بھی ہوسکے۔