انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** غزوہ دومۃ الجندل(ربیع الاول۵ہجری) دومتہ الجندل(موجودہ مقام جوف) کا قصبہ مدینہ سے پانچ سو میل شمال میں اس تجارتی شاہراہ کے قریب واقع تھا جو یمن سے شام جاتی تھی، وہاں کے قبائل مدینہ کے تجارتی قافلوں کے لئے خطرہ بن گئے تھے اور دومتہ الجندل کا نصرانی حاکم اکیدر بن عبدالملک(جو قیصر روم کے زیر اثر تھا) مسلمانوں کے تجارتی قافلوں کو متواتر پریشان کررہا تھا ، ان عیسائیوں کو بھڑکانے میں مدینہ سے نکالے ہوئے یہودیوں کی ریشہ دوانیاں کام کر رہی تھیں، چنانچہ ان کی سرکوبی کے لئے حضوراکرمﷺ ۲۴ یا ۲۵ ربیع الاول ۵ ہجری کو ایک ہزار صحابہ کے ساتھ دومتہ الجندل کے لئے نکلے، بنی عذرہ کا ایک شخص " مزکور نامی بحیثیت رہبر ساتھ تھا، اس غزوہ میں آپﷺ کا معمول تھا کہ آپﷺ رات میں سفر فرماتے اور دن میں چھپے رہتے تھے تاکہ دشمن پر اچانک اور بے خبری میں ٹوٹ پڑیں، مسعودی کے مطابق رومیوں کے خلاف یہ پہلا غزوہ تھا، ابن سعد کے مطابق آپﷺ نے مدینہ میں حضرت سباع ؓ بن عرفطہ اور مسعودی کے مطابق حضرت عبداللہؓ بن اُم مکتوم کو اپنا نائب مقرر فرمایا، دشمن کے علاقہ میں پہنچے تو معلوم ہوا کہ وہ لوگ باہر نکل گئے ہیں اور کوئی مقابلہ پر نہ آیا ، چند اونٹ ہاتھ لگے ، چند روز قیام کے بعد ۳۰ ر بیع الاول کو مدینہ واپس لوٹ آئے، اس غزوہ میں عینیہ بن حصین سے اس بات پر صلح ہوئی کہ وہ تغلمین اور اس کے قرب و جوار سے المراض تک اپنے جانور چرائے، وہ مقام سرسبز تھا اور عینیہ کا شہر خشک تھا، تغلمین المراض سے دو میل پر ہے اور المراض ، الزبدہ کے راستہ پر مدینہ سے ۳۶ میل کے فاصلہ پرہے،ان اچانک اور فیصلہ کن اقدامات اورپر تدبر منصوبوں کے ذریعہ حضورﷺ نے مملکت اسلامیہ میں امن و امان بحال کرنے اور صورت حال پر قابو پانے میں کامیابی حاصل کی،یہود کا ایک قبیلہ جلا وطن کردیاگیااور منافقین خاموش اور مایوس ہوکر بیٹھ گئے، دوسرے قبائل جن سے آپ کے معاہدات ہوئے تھے وہ اپنے معاہدوں پر کاربند رہے، نتیجتاً قریش پست ہمت ہوگئے اور اﷲ تعالیٰ نے اسلام کو پھیلانے کے مواقع عطا فرمائے۔