انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** تین علمی مراکز (۱)حجاز (۲)عراق (۳)شام حجاز: مرکز اسلام مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ اسی سر زمین میں ہیں، آیات الہٰی اور فرامین نبوی سب سے پہلے اسی سر زمین میں اترے، مدینہ منورہ کی سب سے بڑی درسگاہ حضرت امام مالک کا حلقہ درس تھا، مکہ مکرمہ میں بھی بڑے علمی حلقے تھے۔ عراق:حضرت عمرؓ کے وقت میں کوفہ اسلامی چھاؤنی بنا، بڑے بڑے فضلاء صحابہ وہاں آباد ہوئے،امام ابو حنیفہؒ (۱۵۰ھ) اورامام سفیان ثوری(۱۶۱ھ)کی درسگاہیں اسی سر زمین میں تھیں،امام نووی کوفہ کے بارے میں لکھتے ہیں: "دارالفضل ومحل الفضلاء"۔ (شرح صحیح مسلم:۱/۱۸۵) شام: یہ سر زمین جلیل القدر صحابی حضرت ابو درداء(۳۲ھ)کا مرکز درس تھی، بلند پایہ فقیہ حضرت امیر معاویہؓ کا مرکز حکومت بھی یہی علاقہ تھا،امام اوزاعی (۱۵۷ھ)اس علاقہ کے بڑے مجتہد تھے برسوں ان دیار میں ان کی تقلید جاری رہی۔ پہلی قوموں کو پہلے انبیاء سے علم کتاب اور علم اٰثار دو ماخذ نہ ملے ہوتے تو حضورخاتم النبیینﷺ ان قوموں کی گمراہی ان لفظوں میں بیان نہ کرتے: " إِنَّهُمْ كَذَبُوا عَلَى أَنْبِيَائِهِمْ كَمَا حَرَّفُوا كِتَابَهُمْ"۔ (مسند احمد،حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَىؓ:۱۸۵۹۱،شاملہ،موقع الاسلام) ترجمہ:انہوں نے جیسا کہ اپنی الہامی کتابوں کو بدلااپنے انبیاء پر بھی وہ باتیں لگائیں جو انہوں نے نہ کہی تھیں۔ اس حدیث میں پہلے انہیں اللہ کی کتاب بدلنے کا مجرم بتلایا ہے؛ پھر انہیں احادیث بدلنے اور موضوع روایات کو پیغمبروں کے نام سے بیان کرنے کا قصور وار ٹھہرایا،یہ تب ہی ہوسکتا ہے کہ پہلے پیغمبروں کی صحیح احادیث ان قوموں کے لیے حجت ہوں اور ان نفوس قدسیہ کے نام سے غلط باتیں وضع کرنا حرام ہو،محدثین اسی لیے احادیث کی چھان بین کرتے ہیں تاکہ پیغمبروں کے نام سے کوئی غلط بات راہ نہ پائے، حضور خاتم النبیینﷺ کے دورمیں بھی صراط مستقیم کی تشخیص یہی رہی کہ اس کی اساس اللہ کی آیات اور پیغمبروں کی ذات پر ہو،پیغمبر کی ذات کو نکال دینے سے وہ صراط مستقیم ہی کیا رہے گا۔ "وَكَيْفَ تَكْفُرُونَ وَأَنْتُمْ تُتْلَى عَلَيْكُمْ آيَاتُ اللَّهِ وَفِيكُمْ رَسُولُهُ وَمَنْ يَعْتَصِمْ بِاللَّهِ فَقَدْ هُدِيَ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيم"۔ (اٰل عمران:۱۰۱) ترجمہ:اور تم کس طرح کفر کرسکتے ہو جب کہ تم میں اللہ کی آیات بھی تلاوت کی جارہی ہیں اور تم میں اللہ کے رسول بھی موجود ہیں اور جو اللہ تعالی کا سہارا لے گا وہ صراط مستقیم پاگیا۔ آنحضرتﷺ کے بعد آپ کی تعلیمات کا بنی نوع انسان کی راہنمائی کے لیےموجود ہونا حضورﷺ کے وجود باوجود کا ہی فیض ہے،جب تک اللہ کی کتاب سے تمسک رہے اور حضورﷺ کی تعلیمات پر عمل ہو انسان کبھی کفر کی سرحد پر نہیں آتا، وہ کتاب وسنت سے صراط مستقیم کی دولت پاچکا ہوتا ہے۔