انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** یزید بن عبدالملک ابوخالد یزید بن عبدالملک بن مروان اپنے بھائی سلیمان بن عبدالملک کی وصیت کے موافق حضرت عمر بن عبدالعزیم کے بعد تختِ خلافت پربیٹھا، تخت نشین ہونے کے بعد اس نے کہا کہ جتنا میں خدائے تعالیٰ کا محتاج ہوں، اس قدر حضرت عمربن عبدالعزیز بھی نہ تھے؛ چنانچہ چالیس روز تک وہ حضرت عمر بن عبدالعزیز ہی کے نقشِ قدم پرچلا، بنواُمیہ نے جب دیکھا کہ عمر بن عبدالعزیز کے بعد بھی کشود کار کی کوئی صورت پید انہ ہوئی توانھوں نے یزید بن عبدالملک کواپنی منشا کے موافقط طرزِ عمل اختیا رکنے کی ترغیب دینے کی کوشش کی، اس قسم کی تمام کوششیں عمر بن عبدالعزیز کے سامنے توبے کار ثابت ہوتی رہی تھیں؛ لیکن یزید بن عبدالملک، عمر بن عبدالعزیز نہ تھا، وہ ایک ہی ذراسی کوشش کے مقابلہ میں بہ گیا، تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ چالیس سفید ریش لوگوں نے حاضر ہوکر اس بات کی شہادت دی کہ خلیفہ وقت جوکچھ کرے اس کا حساب اس سے نہ لیا جائے گا اور نہ اس پرعذاب ہوگا، ایسی تدبیروں کا خاطر خواہ نتیجہ برآمد ہوا اور یزید بن عبدالملک کی جہالت نے اس کوبتدریج یزید اوّل کی طرح فسق وفجور کی طرف بھی مائل کردیا؛ حتی کہ وہ شراب اور مسکرات بھی استعمال کرنے لگا اور یہی سب سے پہلا خلیفہ تھا جس نے علانیہ شراب استعمال کی اور گانے بجانے میں بھی اپنا وقت ضائع کرنے لگا اس کے بعد بنواُمیہ کوکافی موقع مل گیا؛ انھوں نے دربارِ خلافت پرمستولی ہوکر حضرت عمر بن عبدالعزیم کے زمانے کی تمام اصلاحات کومنسوخ کرادیا اور خلافتِ بنواُمیہ اسی طرح غاصبانہ طور پراملاک وجاگیرات پرقابض ومتصرف ہوگئے اور اس بے انصافی میں پہلے سے زیادہ ترقی کرگئے، حضرت عمر بن عبدالعزیز کے بعد ہی سے خلافت بنواُمیہ کے زوال کا زمانہ سمجھنا چاہیے؛ اسی زمانے میں بنوعباس اور ہاشمیوں کوبنواُمیہ کے خلاف کوششیں اور تدبیریں عمل میں لانے کا موقع مل گیا۔ محمد بن یوسف برادر حجاج بن یوسف ثقفی نے اپنے عہد امارت میں اہلِ یمن پرایک جدید ٹیکس لگادیا تھا جس کوحضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں معاف کرکے عشر (دسواں حصہ) قائم کیا اور فرمایا کہ مجھے اس جدید خراج کے قائم کرنے سے یہ پسند ہے کہ یمن سے ایک ذرہ برابر خراج بھی نہ آئے، جب یزید بن عبدالملک خلیفہ ہوا تواس نے گورنریمن کولکھ بھیجا کہ اس ٹیکس کواہلِ یمن سے ضرور وصول کرو، چاہے وہ کتنے ہی ناراض کیوں نہ ہوں، یزید بن عبدالملک کا چچا محمد بن مروان جوجزیرہ وآذربائیجان کا گورنر تھا انھیں دنوں میں فوت ہوا یزید نے اس کی جگہ اپنے دوسرے چچا مسلمہ بن عبدالملک کوجزیرہ وآذربائیجان کا گورنربناکر بھیج دیا۔ اوپر ذکر ہوچکا ہے کہ یزید بن مہلب کوحضرت عمر بن عبدالعزیم رضی اللہ عنہ نے خراج جرجان کے ادا نہ کرنے کی وجہ سے قید کردیا تھا، وہ اب تک قید میں تھا، جب اس نے سنا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کوبنواُمیہ نے زہر دے دیا ہے اور وہ شاید جاں بزنہ ہوسکیں تووہ قید خانے سے فرار ہوکر بصرہ کی طرف چل دیا، یزید بن مہلب اور یزید بن عبدالملک کے درمیان سلیمان بن عبدالملک کے زمانے سے شکررنجی اور ناراضی چلی جاتی تھی، جب یزید بن مہلب کویہ معلوم ہوا کہ عمربن عبدالعزیز کی زندگی معرضِ خطر میں ہے اور ان کے بعد یزید بن عبدالملک تخت نشین ہونے والا ہے، تووہ قید خانے کے محافظین کوبھاری رشوت دے کرفرار ہوگیا کہ یزید بن عبدالملک اس پردسترس نہ پاسکے، جاتے ہوئے ایک عریضہ حضرت عمربن عبدالعزیز کے نام لکھ کران کے پاس بھجواتا گیا، اس میں لکھا تھا کہ اگرمجھے آپ کی زندگی کا یقین ہوجاتا تومیں ہرگزآپ کے قید خانے سے نہ بھاگتا؛ مگراس اندیشے سے کہ آپ کے بعد یزید بن عبدالملک مجھے قتل کرڈالے گا اور بری طرح قتل کرڈالے گا میں یہاں سے فرار ہورہا ہوں یہ تحریر حضرت عمر کے پاس اس وقت پہنچی جب اُن کا آخری وقت آپہنچا تھا، آپ نے اس کوپڑھ کرفرمایا کہ الہٰی اگریزید بن مہلب مسلمانوں کے ساتھ برائی کرنے کوبھاگا ہے توتواس کوسزادے؛ کیونکہ اس نے مجھے دھوکہ دیا ہے، یزید بن عبدالملک نے خلیفہ ہوکر عدی بن ارملاۃ والی بصرہ کویزید کے بھاگ جانے کا حال لکھ کرلکھا کہ یزید بن مہلب کے اہلوعیال کوگرفتار کرلو؛ چنانچہ عدی نے مفضل ومروان، پسران مہلب کوگرفتار کرکے قید کردیا؛ اسی اثنا میں یزید بن مہلب بصرہ میں پہنچ گیا، اہلِ بصرہ نے یزید بن مہلب کی طرف داری کی اور عدی بن ارطاۃ کوبصرہ سے بھاگنا پڑا، یزید بن مہلب نے بصرہ پر قابض ہوکر اہواز تک اپنا قبضہ جمالیا او راپنی ایک الگ حکومت قائم کرکے ایک زبردست فوج تیار کی اور اہلِ عراق کوترغیب دی کہ ترک ودیم کے جہاد سے اہلِ شام پرجہاد کرنا افضل ہے، امام حسن بصری نے اس کی مخالفت کی مگرلوگوں نے ان کواس خیال سے خاموش رہنے پر مجبور کیا کہ یزید بن مہلب سن کرکہیں ان کوقتل نہ کردے، یزید اس فوج کولے کرکوفہ کی طرف روانہ ہوا بڑی خوں ریز لڑائی ہوئی طرفین سے خوب خوب دادا شجاعت دی گئی؛ بالآخر میادن جنگ میں یزید اور اس کا بھائی حبیب دونوں مارے گئے اور مسلمہ بن عبدالملک کوفتح حاصل ہوئی، بقیہ آل مہلب کوجب یزید وحبیب کے مارے جانے اور فوج کے شکست کھانے کا حال معلوم ہوا تووہ بصرہ سے فرار ہوئے اور مشرق کی طرف کشتیوں میں بیٹھ کرروانہ ہوگئے ان کے تعاقب میں ایک دستہ فوج روانہ کیا گیا، مقام قندابیل میں اس دستے فوج سے مقابلہ ہوا بجز دوبچوں ابوعتبہ بن مہلب اور عثمان بن مفضل بن مہلب کے خاندان مہلب سے کوئی متنفس باقی نہیں بچا سب کے سب قتل کردیے گئے۔ اس فتح کے بعد یزید بن عبدالملک نے مسلمہ بن عبدالملک کوعراق کا گورنربنادیا؛ پھرعمروبن ہبیرہ کومسلمہ کی جگہ حاکم عراق مقرر کیا، اہل صغد اور اہل سمرقند نے بغاوت کی توعمروبن ہبیرہ نے سعید حرشی کوخراسان کا امیر مقرر کرکے معہ فوج خراسان کی طرف روانہ کیا اس نے وہاں پہنچ کراہل صغد اور اہل سمرقند کوقرار واقعی سزاد ے کرروایت کیا بلادخزروآرمینا میں بغاوت ہوئی اور وہاں کے لوگوں نے اہلِ قبچاق سے مدد لے کرمسلمانوں پرحملہ کیا اور وہاں کی اسلامی فوج کے اکثر حصے کوقتل کرڈالا، ہزیمت خوردہ اور بقیۃ السیف بھاگ کردمشق میں یزید بن عبدالملک کے پاس آئے، یزید نے جراح بن عبداللہ حکمی کوفوج دے کراس طرف روانہ کیا، جراح نے وہاں پہنچ کرلڑائی چھیڑ دی، اہلِ خزرنے مقابلہ کیا مگرسخت لڑائی کے بعد مسلمانوں سے شکست کھائی اس کے بعد جراح نے اپنی پیش قدمی کوجاری رکھا اور دور تک علاقہ فتح کرتا ہوا چلا گیا، وہاں کے پادشاہ اور امراء نے اطاعت اختیار کی اور تمام علاقہ پرمسلمانوں کا قبضہ ہوگیا۔ عبدالرحمن بن ضحاک حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کے زمانے سے حجاز کی گورنری پرمامور تھے، وہ تین برس تک اس عہدے پرمامور رہا، اس کے بعد اس کے دل میں یہ شوق پیدا ہوا کہ میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی پوتی سے شادی کروں؛ چنانچہ اس نے فاطمہ بنت الحسین یعنی لڑکی کی ماں کے پاس پیغام بھیجا؛ انھوں نے انکار کردیا، عبدالرحمن بن ضحاک نے دھمکی دی کہ میں تمہارے لڑکے کوشراب خوری کے جرم میں متہم کرکے دُرے لگواؤں گا، فاطمہ بنت الحسین نے یزید بن عبدالملک کے پاس شکایت کہلا کربھجوائی، یزید سن کرسخت برافروختہ ہوا اور عبدالواحد بن عبداللہ قسری کواپنے ہاتھ سے خط لکھا کہ میں نے تجھ کومدینہ کی گورنری پرمامور کیا؛ تواس خط کودیکھتے ہی ضحاک کے پاس جا اور اس کومعزول کردے اور اس سے چالیس ہزار دینار جرمانہ وصول کر اور اس کو اس قدر اذیت دے کہ اس کی آواز مجھے سنائی دے؛ درآں حالیکہ میں اپنے بستراستراحت پرہوں، قاصد نے یہ خط لے جاکر عبدالواحد کودیا، عبدالواحد نے مدینہ کی گورنری کا چارج لے کرابن ضحاک کوطرح طرح کی تکلیفیں دیں، لوگ ابن ضحاک سے کچھ خوش نہ تھے، اس لی اب اس کے معزول ہونے کے بعد اس کی ہجومیں قصیدے لکھے گئے، عبدالواحد کا برتاؤ انصار مدینہ کے ساتھ بہت اچھا تھا، سب اس سے خوش رہے اور قاسم وسالم پسران عبداللہ بن عمر ہرکام میں ان کے مشیر تھے، ابن ضحاک کی معزولی اور عبدالواحد کی تقرری ماہ شوال سنہ۱۰۴ھ میں وقوع پذیر ہوئی تھی۔ سعید حریشی خراسان کا عامل تھا جیسا کہ اوپر لکھا جاچکا ہے، چند روز کے بعد ابن ہبیرہ نے حریشی کومعزول کرکے اس کی جگہ مسلم بن سعید بن اسلم بن زرعہ کلابی کوخراسان کی حکومت سپرد کی، ابن ہبیرہ یزید بن عبدالملک کے آخرعہد خلافت تک عراق کا گورنررہا، یزید بن عبدالملک نے اپنے بعد اپنے بھائی ہشام بن عبدالملک اور اس کے بعد اپنے بیٹے ولید بن یزید کوولی عہد بنایا تھا، چار سال ایک ماہ خلیفہ رہ کر ۲۴/شعبان سنہ۱۰۵ھ کوبمقام بلقاء بعمر ۳۸/سال یزید بن عبدالملک فوت ہوا اور اس کی وصیت کے موافق ہشام بن عبدالملک تختِ خلافت پربیٹھا۔