انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** جہنم کے طبقات جہنم کے درجات اللہ تعالی کا فرمان ہے إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ (النساء:۱۴۵) (ترجمہ)بلاشبہ منافقین جہنم کے سب سے نچلے طبقہ میں جائیں گے۔ (فائدہ)اس آیت میں جودرک کا لفظ آیا ہے مفسرین فرماتے ہیں پستی کی صورت میں درک بولتے ہیں اورترقی کے موقعہ پردرج بولتے ہیں اسی لئے علماء فرماتے ہیں جنات کے درجات ہیں اورجہنم کے درکات ہیں لیکن جہنم کے درکات پر درجات کا اطلاق بھی ہوتا ہے جیسا کہ اہل جنت اوراہل جہنم کے ذکر میں قرآن کریم فرماتا ہے۔ وَلِكُلٍّ دَرَجَاتٌ مِمَّا عَمِلُوا (الانعام:۱۳۲) وقال أَفَمَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَ اللَّهِ کَمَنْ بَاءَ بِسَخَطٍ مِنَ اللَّهِ وَمَأْوَاهُ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ ، هُمْ دَرَجَاتٌ عِنْدَ اللَّهِ (آل عمران:۱۶۲،۱۶۳،) (ترجمہ)ہر ایک کے لئے(جن وانس صالح وطالح میں سے جزا وسزا کے ویسے ہی) درجے ملیں گے ان کے اعمال کے سبب اور فرمایا سوایسا شخص جو رضائے حق کا تابع ہو(جیسے نبی)کیا وہ اس شخص کے مثل ہوجائے گا جو کہ غضب الہی کا مستحق ہو اوراس کا ٹھکانہ دوزخ ہو(جیسے خائن) اوروہ جانے کی بری جگہ ہے(ہرگز دونوں برابر نہیں ہوں گے بلکہ)یہ مذکور ین (یعنی متبعین رضائے حق اور مغضوبین)درجات میں مختلف ہوں گے۔ حضرت عبدالرحمان بن زید بن اسلم فرماتے ہیں،جنت کے درجات نیچے سے اوپر کو جاتے ہیں اورجہنم کے درجات اوپر سے نیچے کو آتے ہیں۔ لَهَا سَبْعَةُ أَبْوَابٍ (الحجر:۴۴) کی تفسیر میں حضرت عکرمہؒ فرماتے ہیں کہ اس کے ساتھ طبقات ہوں گے۔ لِكُلِّ بَابٍ مِنْهُمْ جُزْءٌ مَقْسُومٌ (الحجر:۴۴) کے متعلق حضرت قتادہ فرماتے ہیں قسم بخدا! یہ اعمال کے مطابق دوزخیوں کے منازل ہیں۔ حضرت یزید بن ابی مالک ہمدانی فرماتے ہیں جہنم کی سات آگیں ہیں ان میں سے ہر اوپر کی آگ نیچے کی آگ کو اس خوف سے دیکھتی ہے کہ یہ مجھے کھانہ جائے۔ دوزخ کے درجات کے نام لَهَا سَبْعَةُ أَبْوَابٍ کی تفسیر میں حضرت ابن جریج فرماتے ہیں پہلا باب جہنم ہے،دوسرا لظی، تیسرا حطمہ،چوتھا سعیر،پانچواں سقر،چھٹا حجیم اور ساتواں(سب سے نچلا)حاویہ ہے ابو جہل اسی میں ہے۔ دوزخ کا کون سا درجہ کس کے لئے ہے؟ حضرت ضحاک فرماتے ہیں جہنم کے سات دروازے ہیں وہی اس کی سات منازل ہیں سب سے اوپر والی منزل میں اہل توحید کو ان کے(بُرے) اعمال اوردنیا میں ان کی عمروں کی بقدر عذاب دیا جائے گا پھر ان کو وہاں سے نکال لیا جائے گا دوسرے طبقہ میں یہودی،تیسرے میں عیسائی ،چوتھے میں صابی،پانچویں میں مجوسی،چھٹے میں مشرکین عرب اورساتویں میں منافقین کو داخل کیا جائے گا اوریہی تفسیر ہے اللہ تعالی کے اس فرمان کی کہ منافق جہنم کے سب سے نچلے طبقہ میں داخل کئے جائیں گے(فیہ سلام المدائنی وھو ضعیف) منافقین دوزخ کے خطرناک طبقہ میں ہوں گے حضرت ابن مسعودؓ نے اہل مجلس سے پوچھا کہ جہنم میں سب سے زیادہ عذاب میں کون لوگ ہوں گےتو انہوں نے عرض کیا یہودی،عیسائی اور مجوسی ،تو انہوں نے فرمایا نہیں ؛بلکہ منافقین یہ جہنم کے سب سے نچلے طبقہ میں آگ کے بند تابوتوں میں(قید)ہوں گے جن کے دروازے (بھی)نہیں ہوں گے۔ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ (النساء:۱۴۵) کی تفسیر میں حضرت ابو ہریرہؓ نے فرمایا یہ نچلا طبقہ ان کے ایسے گھر ہوں گے جن کے دروازے بند کردیئے جائیں گے ان کے اوپر نیچے سے آگ کو تیز کیا جائے گا،یہی معنی ہے اللہ تعالی کے فرمان لَهُمْ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ وَمِنْ تَحْتِهِمْ ظُلَلٌ (الزمر:۱۶) (ترجمہ)ان کے لئے ان کے اوپر سے بھی آگ کے(محیط)بادل ہوں گے اور ان کے نیچے سے بھی آگ کے بادل ہوں گے۔ دوزخ کے ستر زاویوں میں سے ہر زاویہ کا منفرد عذاب ابو یسار نے فرمایا جہنم کے ایک بادل کے ستر زاویے(کونے) ہوں گے اور ہر زاویہ میں ایسی قسم کا عذاب ہوگا جو دوسرے میں نہیں ہوگا۔ فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَکی تفسیر حضرت کعبؒ فرماتے ہیں قرآن پاک میں گھاٹی کے پھلانگنے کا جو ذکر ہے اس گھاٹی کے ستر طبقات ہیں (جس کو کافر بار بار عبور کرتے ہوں گے) ابورجاء فرماتے ہیں مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ جس عقبہ کا ذکر اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں فرمایا اس کی بلندی بھی ستر ہزار سال ہے اورپستی بھی ستر ہزار سال ہے۔ عقبہ دوزخ کا پہاڑ ہے حضرت ابن عمرؓ فرماتے ہیںعقبہجہنم میں ایک پہاڑ ہے،کیا میں کوئی گردن آزاد کرکے اس سے نجات نہ حاصل کروں۔ حضرت مقاتل بن حیان فرماتے ہیں یہ جہنم کی ایک گھاٹی ہے کسی نے کہا اسے کسی طرح سر کیا جاسکتا ہے؟ فرمایا گردن آزاد کرکے۔ حضرت ابن عمرؓفرماتے ہیں میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے پاس دو فرشتے آئے ہر ایک کے ہاتھ میں لوہے کا ایک ایک (گرز)تھا پھر مجھے ایک اورفرشتہ ملا اس کے ہاتھ میں بھی لوہے کا ایک گرز تھا انہوں نے مجھے کہا ڈرو مت تم تو نیک آدمی ہو کاش کہ رات کو نماز (یعنی نوافل)کی کثرت کرو پھر یہ مجھے لے کر چلے پڑے یہاں تک کہ مجھے جہنم کے کنارہ پر جاکھڑا کیا تو وہ اس کنویں کی طرح لپٹی ہوئی تھی جیسے کنواں اوپر سے کسی چیز سے لپٹا ہوتا ہے رسیوں کے درمیان ایک فرشتہ نے لوہے کا ایک گرز اٹھایا ہوا تھا،پس میں نے دیکھا کہ اس (کنویں) میں آدمی ہیں جو زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں ان کے سرالٹے ہیں اورمیں نے قریش کے بہت سے (کفار)کو پہچانا پھر انہوں نے مجھے دائیں طرف چھوڑدیا۔ یہ خواب میں نے(اپنی بہن، نبیﷺ کی اہلیہ) حضرت حفصہ کو سنایا انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو سنایا تو آپ ﷺ نے فرمایا بلاشبہ عبداللہ نیک مرد ہے (اس کو کفار کا انجام اوردوزخ کا منظر دکھایا گیا ہے)۔ (بخاری،مسلم) ساتواں باب دوزخ کی گہرائی اورکشادگی حضرت خالد بن عمیر کہتے ہیں کہ ہمیں حضرت عتبہ بن غزوانؓ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا(کہ نبی کریم ﷺ نے ہم سے ذکر کیا کہ) فَإِنَّهُ قَدْ ذُكِرَ لَنَا أَنَّ الْحَجَرَ يُلْقَى مِنْ شَفَةِ جَهَنَّمَ فَيَهْوِي فِيهَا سَبْعِينَ عَامًا لَا يُدْرِكُ لَهَا قَعْرًا وَ وَاللَّهِ لَتُمْلَأَنَّ أَفَعَجِبْتُمْ (مسلم،حدیث نمبر:۵۲۶۸) (ترجمہ)ایک پتھر کو جہنم کے کنارے سے پھینکا گیا جو ستر سال تک اس میں گرتا رہا مگر اس کی گہرائی کو نہیں پہنچ سکا قسم بخدا! ہم اسے(جنات اورانسانوں سے)ضرور بھردیں گے کیا تم تعجب کرتے ہو؟ حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں حضرت عتبہ بن غزوان نے ہمیں اس بصرہ کے ممبر پر خطبہ میں فرمایا کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا۔ إِنَّ الصَّخْرَةَ الْعَظِيمَةَ لَتُلْقَى مِنْ شَفِيرِ جَهَنَّمَ فَتَهْوِي فِيهَا سَبْعِينَ عَامًا وَمَا تُفْضِي إِلَى قَرَارِهَا (ترمذی،باب ماجاء فی صفۃ قعرجہنم،حدیث نمبر:۲۴۹۸) (ترجمہ)بلاشبہ جہنم کے کنارہ سے ایک عظیم چٹان کو پھینکا جائے جو اس میں ستر سال تک گرتی رہے تو اس کی گہرائی تک نہ پہنچ سکے۔ (فائدہ)امام ترمذیؒ فرماتے ہیں کہ حضرت عمرؓ فرمایا کرتے تھے جہنم کو بہت یاد کیا کرو کیونکہ اس کی گرمی بہت تیز ہے، اس کی گہرائی بہت دور ہے اوراس کے گرز لوہے کے ہیں۔ حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں ہم نبی ﷺ کے ہاں بیٹھے ہوئے تھے کہ ہم نے ایک دھماکے کی آواز سنی تو نبی اکرمﷺ نے فرمایا: تَدْرُونَ مَا هَذَا قَالَ قُلْنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ هَذَا حَجَرٌ رُمِيَ بِهِ فِي النَّارِ مُنْذُ سَبْعِينَ خَرِيفًا فَهُوَ يَهْوِي فِي النَّارِ الْآنَ حَتَّى انْتَهَى إِلَى قَعْرِهَا (صحیح مسلم، باب فی شدۃ حر نار جہنم وبعد قعرھا،حدیث نمبر:۵۰۷۸) (ترجمہ)تم جانتے ہو یہ کیا آواز تھی؟ ہم نے عرض کیا اللہ اوراس کے رسول زیادہ جانتے ہیں فرمایا یہ پتھر(کا دھماکہ) تھا جسے اللہ تعالی نے جہنم میں ستر سال قبل لڑھکایا تھا وہ اب جاکر اس کی انتہاء کو پہنچا ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے قبضہ میں ابوہریرہؓ کی جان ہے جہنم کی گہرائی ستر سال (کی مسافت) ہے (مسلم شریف) (فائدہ)یہ آخرت کے ستر سال مراد ہوں گے دنیا کے نہیں جیسا کہ اس پر بہت سے دلائل دلالت کرتے ہیں۔ دوزخ کی گہرائی کو ایک مثال سے سمجھیں (حدیث)حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا: لواخذسبع خلفات بشحو مھن والقین من شفیر جھنم ماانتھین الی آخر ھاسبعیں عاما (حاکم) (ترجمہ)اگر سات گابھن اونٹنیاں (موٹی تازی) اپنی چربیوں سمیت لی جائیں اورانہیں جہنم کے کنارہ سے پھینکا جائے تو اس کی انتہاء کو ستر سال تک نہیں پہنچ پائیں گی۔ (حدیث) حضرت بریدہؓ فرماتے ہیں کہ حضورﷺنے فرمایا: إن الحجر ليزن سبع خلفات يرمى به في جهنم فيهوى سبعين خريفا ما يبلغ قعرها (بزار،طبرانی) (ترجمہ)بلاشبہ سات گابھن اونٹنیوں کے وزن کے برابر وزن کرکے چٹان کو جہنم میں پھینکا جائے اوروہ ستر سال تک گرتی رہے تب بھی اس کی گہرائی کو نہیں پہنچ پائے گی۔ (حدیث)حضرت معاذ بن جبلؓ حضورﷺ سے بیان فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: والذي نفس محمد بيده ، إن ما بين شفة النار ، وقعرها كصخرة زنة ، سبع خلفات ، شحومهن ، ولحومهن وأولادهن ، تهوي من شفة النار قبل أن تبلغ قعرها سبعين خريفا (ترجمہ)قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے جہنم کے کنارے سے گہرائی تک کا فاصلہ اتنا ہے کہ جیسے ایک پتھر کو جس کا وزن سات گابھن اونٹنیوں کی چربی،گوشت اوران کی اولاد کے برابر ہواسے جہنم کے کنارہ سے گرایا جائے تو اسے جہنم کی گہرائی تک پہنچتے ستر سال لگ جائیں۔ وادی غی اوراثام (حدیث) حضرت ابو امام فرماتے ہیں إن ما بين شفير جهنم ، مسيرة سبعين خريفا من حجر يهوي أو صخرة تهوي ، عظمها كعشر عشراوات عظام سمان فقال له رجل هل تحت ذلك من شيء يا أبا أمامة ؟ قال : نعیم ، غي وأثام (ابن المبارک) (ترجمہ)جہنم کے کنارہ سے (اس کی گہرائی تک کا)فاصلہ ستر سال کا ہے اس پتھر کے لئے جسے اس میں پھینکا جائے جس کا جسم دس ماہ کی گابھن دس بڑی موٹی اونٹنیون کے برابر ہو ایک آدمی نے کہا اے ابو امامہ اس کے نیچے بھی کچھ ہے؟ فرمایا ہاں( جہنم کی وادی)غی اوپروادی اثام ہے ایک ضعیف روایت میں یہ اضافہ ہے کہ حضرت ابو امامہ سے پوچھا گیاکہ غی اوراثام کیا ہے؟ تو فرمایا یہ دو کنویں ہیں جن میں دوزخیوں کی پیپ جمع ہوگی، ان کا ذکر اللہ تعالی نے قرآن میں فرمایا ہے: فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا (مریم:۵۹) يَلْقَ أَثَامًا (الفرقان:۶۸) (ترجمہ)عنقریب کافروں کو وادیٔ غی میں ڈالا جائے گا ،کافر آدمی وادی اثام میں داخل ہوگا۔ بدکار حکمران کی سزاء (حدیث)حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا: مَا مِنْ حَکَمٍ يَحْكُمُ بَيْنَ النَّاسِ إِلَّا حُبِسَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَمَلَكٌ آخِذٌ بِقَفَاهُ حَتَّى يَقِفَهُ عَلَى جَهَنَّمَ ثُمَّ يَرْفَعَ رَأْسَهُ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فَإِنْ قَالَ الْخَطَأَ أَلْقَاهُ فِي جَهَنَّمَ يَهْوِي أَرْبَعِينَ خَرِيفًا (مسند احمد،باب مسند عبداللہ بن مسعودؓ،حدیث نمبر:۳۸۸۹) (ترجمہ)جو حاکم اورجج لوگوں میں فیصلے کرتا ہے قیامت کے روز اسے قید کیا جائے گا اورایک فرشتے نے اسے گدی سے پکڑا ہوگا یہاں تک کہ اسے جہنم پر لاکھڑا کرے گا پھر وہ (فرشتہ)اللہ عزوجل کے سامنے اپنا سراٹھائے گا تو اگر اسے حکم ہوگا کہ اس کو (دوزخ میں) پھینک دے تو اسے ایسی جگہ پھینک دے گا جس کی گہرائی چالیس سال کی (مسافت) ہوگی۔ (حدیث)حضرت ابوذر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: يجاء بالوالي يوم القيامة فينبذ على جسر جهنم فيرتج على ذلك الجسر به ارتجاجة لا يبقى منه مفصل إلا زال عن مكانه فإن كان مطيعا لله في عمله مضوا به و إن كان عاصيا لله في عمله انخرق فيه الجسر فيهوي في جهنم مقدار خمسين عاما (التخویف من النار،باب السابع،فی ذکر قعر جھنم:۱/۷۸) (ترجمہ)روز قیامت حکمران کو لایا جائے گا اورجہنم کے پل پر روکا جائے گا پس اس حاکم کی وجہ سے یہ پل اس طرح گرجے گا کہ حاکم کا جوڑ جوڑ ہل جائے گا پس اگر وہ اعمال میں خدا کا فرمانبردار تھا تو اسے فرشتے جہنم سے پار پہنچادیں گے اوراگر اعمال کے اعتبار سے نافرمان تھا تو وہ پل ٹوٹ جائے گا اوروہ پچاس سال کی مسافت میں جہنم میں گرے گا۔ (فائدہ)اوپر کی حدیث میں چالیس سال کی مسافت کا ذکر ہے اوراس میں پچاس سال کی مسافت کا اس میں مطابقت یہ ہے کہ یہ حکمرانوں کے اختلاف اعمال پر محمول ہوگا۔ ایک کلمۂ بد کی سزا (حدیث) حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: إِنَّ الْعَبْدَ لَيَتَکَلَّمُ بِالْکَلِمَةِ مَا يَتَبَيَّنُ فِيهَا يَزِلُّ بِهَا فِي النَّارِ أَبْعَدَ مِمَّا بَيْنَ الْمَشْرِقِ والمغرب (بخاری ومسلم) (ترجمہ)انسان ایک ایسا کلمہ بولتا ہے جس کا مطلب نہیں سمجھتا اس کی وجہ سے مشرق اورمغرب کے درمیانی فاصلہ سے بھی زیادہ دور جہنم میں جاگرتا ہے۔ (حدیث)حضرت ابوہریرہؓ حضورﷺ سے نقل فرماتے ہیں: إِنَّ الرَّجُلَ لَيَتَکَلَّمُ بِالْکَلِمَةِ لَا يَرَى بِهَا بَأْسًا يَهْوِي بِهَا سَبْعِينَ خَرِيفًا فِي النَّارِ (مسند احمد،باب مسند ابی ھریرۃ ؓ،حدیث نمبر:۶۹۱۷) (ترجہ)آدمی کوئی ایسا بول بولتا ہے جس میں کوئی حرج نہیں سمجھتا اس کی وجہ سے جہنم میں ستر سال کی مسافت دور جاگرتا ہے۔ یہودیوں کے خیال کارد وَقَالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّامًا مَعْدُودَةً (البقرۃ:۸۰) (ترجمہ)اوریہودیوں نے کہا ہمیں دوزخ کی آگ نہیں چھوئے گی مگر گنے چنے چند دن حضرت عبداللہ بن عباسؓ مذکورہ بالا آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ یہودیوں نے تورات میں یہ لکھا ہوا دیکھا تھا کہ جہنم کے دونوں جانب کی مسافت چالیس سال ہے اس کے بعد وہ زقوم کے درخت تک پہنچ جائیں گے جو حجیم کی جڑ میں واقع ہے اوریہ حجیم(دوزخ کا وہ طبقہ ہے) جس میں زقوم کا درخت موجود ہے ان دشمنان خدا کا خیال ہے کہ جب چالیس سال کی مدت گذرے گی تو ان سے عذاب ہٹالیا جائے گا اور جہنم فنا کردی جائے گی،اللہ تعالی نے اس آیت میں ان کی بات کا رد فرمایا ہے،حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں حالانکہ جب ان یہودیوں کو جہنم میں داخل کیا جائے گا اورعذاب میں مبتلا ہوں گے اوردرخت تک پہنچیں گے تو ان کو چالیس سال لگ جائیں گے پھر جب زقوم کے درخت سے کھائیں گے اوراپنے پیٹ بھریں گے تو یہ ان کا گنا ہوا آخری دن ہوگا پھر ان کو جہنم کے فرشتے فرمائیں گے تم نے یہ گمان کیا تھا کہ تمہیں آگ نہیں چھوئے گی مگر گنے چنے چند دن اب دنوں کی وہ تعداد پوری ہوچکی ہے اب تم ہمیشہ ہمیشہ کے لئے یہاں رہو گے اور ان کو صود پہاڑ پر چڑھنے کا عذاب دیا جائے گا (تفسیر ابن جریر طبری) اس روایت میں حضرت ابن عباسؓ سےمروی ہے کہ دوزخ کی گہرائی اوراس کی مسافت چالیس سال ہے اورجو تورات میں ہے اس کا یہی معنی ہے ،لیکن یہودیوں نے اس میں تحریف کرکے اس کے کناروں کے درمیان کی مسافت مراد لے لی اور انہوں نے گمان کرلیا کہ جب یہ مدت پوری ہوجائے گی تو دوزخ کو نیست و نابود کردیا جائے گا حالانکہ یہ ان کا اللہ تعالی پر بہتان ہے اور تورات میں تحریف ہے۔