انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** عبدالملک بن مروان عبدالملک بن مروان بن حکم بن ابوالعاص بن اُمیہ بن عبدشمس بن عبدمناف بن قصی بن کلاب، ماہِ رمضان سنہ۲۳ھ میں پیدا ہوا، ا کی کنیت اوبالولید تھی اور عبدالملوک کے نام سے بھی مشہور ہے؛ کیونکہ اس کے کئی بیٹے یکے بعد دیگرے تختِ سلطنت پربیٹھے، یحییٰ غسانی کہتے ہیں کہ عبدالملک اکثراُم الدرداء صحابیہ رضی اللہ عنہا کے پاس بیٹھا کرتا تھا، ایک مرتبہ انھوں نے پوچھا کہ میں نے سنا ہے کہ توعبادت گذار ہونے کے بعد شراب خور ہوگیا ہے، عبدالملک نے کہا کہ میں توخونخوار بھی ہوگیا ہوں، نافع کہتے ہیں کہ مدینہ میں کوئی جوان عبدالملک کی مانند چست وچالاک اور قرآن وحدیث کا واقف اور عابد زاہد نہ تھا، ابوالزناد کہتے ہیں کہ سعید بن المسیب، عبدالملک بن مروان، عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اور قبیصہ بن زویب فقہائے مدینہ ہیں، عبادہ بن مثنیٰ نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھاکہ آپ لوگوں کے بعد ہم مسائل کس سے دریافت کریں؛ انہوں نے فرمایا کہ مروان کا بیٹا فقیہ ہے اس سے دریافت کرنا۔ ایک روز عبدالملک حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا توانہوں نے فرمایا کہ یہ شخص ایک دن عرب کا بادشاہ بن جائے گا، اُم الدردا رضی اللہ عنہا نے بعد از خلافت ایک روز عبدالملک سے کہا کہ میں پہلے ہی سمجھتی تھی کہ توایک روز بادشاہ ہوجائے گا، عبدالملک نے پوچھا کہ کسی طرح؟ انہوں نے فرمایا:مہ میں نے تجھ سے بہتر نہ کوئی بات کرنیوالا دیکھا، نہ بات سننے والا، شعبی کہتے ہیں کہ میں جس شخص کی صحبت میں بیٹھا وہ میرے علم کا قائل ہوگیا؛ مگرعبدالملک کے علم وفضل کا قائل ہوں، میں نے اس سے جب کبھی کوئی حدیث بیان کی تواس نے اس میں کچھ نہ کچھ ایزاد کردیا اور جب کبھی کوئی شعر پڑھا تواس نے بھی اس کے ہم مضمون بہت سے اشعار پڑھ دیئے، ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ عبدالملک نے عثمان، ابوہریرہ، ابوسعید، اُم سلمہ، بریرہ، ابن عمر اور معاویہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے حدیث سنی اور اس سے عروہ بن خالد بن سعدان، رجابن جیوۃ زہری یونس بن میسرہ، ربیعہ بن یزید، اسماعیل بن عبیداللہ جریر بن عثمان وغیرہ نے روایت کی ، یحییٰ غسانی کہتے ہیں کہ جب مسلم بن عقبہ مدینہ میں پہنچا تومیں مسجد نبوی گیا اور عبدالملک کے پاس جابیٹھا، اس نے مجھ سے پوچھا کہ کیا توبھی اسی فوج میں ہے، میں نے کہا ہاں! عبدالملک نے کہا کہ تونے ایسے شخص کے خلاف ہتھیار اُٹھائے ہیں جوظہورِ اسلام کے بعد سب سے پہلے پیدا ہوا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی اور ذات النطاقین کی اولاد ہے، جس کوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تحنیک کی اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ میں جب کبھی اس سے دن میں ملا ہوں تواس کوروزہ دار پایا ہے اور جب رات کواُسے دیکھا تونماز ہی پڑھتے ہوئے دیکھا ہے، یادرکھو! جو اس سے مخالف ہوکر لڑے گا، حدائے تعالیٰ اس کواوندھے منہ دوزخ میں گرائے گا؛ لیکن جب عبدالملک تخت پربیٹھا تواس نے حجاج کوعبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے لڑنے کوبھیجا اور اس نے اُن کوقتل کرڈالا۔ جریج کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد عبدالملک نے خطبہ پڑھا اس میں حمدوثنا کے بعد کہا کہ: میں نہ خلیفہ ضعیف یعنی عثمان ہوں نہ خلیفہ سست یعنی معاویہ ہوں، نہ خلیفہ ضعیف الرائے یعنی یزید ہوں، مجھ سے سواتلوار کے اس کاعلاج اور کچھ نہ ہوگا، چاہئے کہ تمہارے نیزے میری مدد کے لیے بلند ہوجائیں، تم مہاجرین کے اعمال سے ہمیں تومکلف کرتے ہو اور خود ان کی مانند عمل نہیں کرتے، یاد رکھو! میں تمھیں سخت عذاب سے ہلاک کروں گا اور تلوار ہمارے تمہارے درمیان فیصلہ کرے گی، تم ذرا دیکھتے جاؤ میری تلواریں کیا حال کرتی ہیں، میں تمہاری تمام باتوں کوگوارا کرلوں گا؛ مگرحاکم سے جنگ کرنا برداشت نہیں کرسکتا، میں ان کے تمام افعال ان کی گردنوں میں ڈال دوں گا؛ پھرچاہے کوئی خوفِ خدا سے ڈرایا کرے۔ سب سے پہلے عبدالملک ہی نے کعبہ پردیباج کے پردے ڈالے، عبدالملک سے کسی نے کہا کہ امیرالمؤمنین آپ پربڑھاپا بہت ہی جلد آگیا تواس نے کہا کیسے نہ آتا میں ہرجمعہ کواپنی بہترین عقل لوگوں پرخرچ کرتا ہوں، عبدالملک سے کسی نے پوچھا کہ آدمیوں میں سب سے بہتر کون ہے؟ اُس نے کہا کہ جس شخص نے بلند رتبہ ہوکر تواضع کی اور بحالتِ اختیار زہد کوترجیح دی اور بحالتِ قوّت عدل وانصاف سے کام لیا، جب عبدالملک کے پاس باہر سے کوئی شخص آتا تووہ اس سے کہا کرتا کہ دیکھو چار باتوں کا لحاظ کرنا، ایک توجھوٹ نہ بولنا؛ کیونکہ مجھ کوجھوٹ سے سخت نفرت ہے، دوسرے جوکچھ میں پوچھوں اسی کا جواب دینا، تیسرے میری مدح نہ کرنا؛ کیونکہ میں اپنا حال میں خود ہی خوب جانتا ہوں، چوتھے مجھ کومیری رعیت پربرانگیختہ ومشتعل نہ کرنا؛ کیونکہ ان کومیری عنایات کی زیادہ صرورت ہے۔ مدائنی کہتے ہیں کہ جب عبدالملک کواپنے مرنے کا یقین ہوگیا تواس نے کہا کہ جب سے میں پیدا ہوا ہوں اس وقت سے لےکر اب تک مجھے یہ آرزو رہی کہ کاش میں حمال ہوتا؛ پھراپنے بیٹے ولید کوبلایا اور خوفِ خدا کی وصیت کی، آپس کی مخالفت سے منع کیا اور کہا کہ: لڑائی میں نہایت سرگرمی دکھانا، نیک کاموں میں ضرب المثل بننے کی کوشش کرنا؛ کیونکہ لڑائی قبل ازوقت موت کونہیں بلاتی، نیک کام کا اجرملتا ہے اور مصیبت میں خدا مددگار ہوتا ہے، سختی میں نرمی اختیار کرنی چاہیے؛ آپس میں رنجشیں نہ بڑھانا کیونکہ ایک تیر کوجوچاہے توڑسکتا ہے اور جب بہت سے تیر جمع ہوجائیں توکوئی نہیں توڑسکتا، اے ولید! میں جس معاملہ میں تجھے خلیفہ کرتا ہوں اس میں خوفِ خدا کرنا، حجاج کا خیال رکھنا، اس نے گویا تجھ کوخلافت تک پہنچایا ہے، ا سکواپنا داہنا بازو اور اپنی تلوار سمجھنا، وہ تجھ کوتیرے دشمنوں میں پناہ میں رکھے گا، اس کے حق میں کسی کا قول نہ سننا اور یاد رکھنا کہ تجھ کوحجاج کی زیادہ ضرورت ہے، حجاج کوتیری اتنی ضرورت نہیں، جب میں مرجاؤں تولوگوں سے اپنی بیعت لے اور جوشخص انکار کرے اس کی گردن اُڑادے۔ نزع کے وقت ولید اس کے پاس آیا اور رونے لگاعبدالملک نے کہا کہ لڑکیوں کی طرح رونے سے کیا فائدہ ہے، میرے مرنے کے بعد تیار ہوکر اور جرأت کوکام میں لاکر اپنی تلوار کندھے پررکھ اور جوشخص ذرابھی سراُٹھائے اس کا سرکاٹ لے جوچپ رہے اسے چھوڑ دے کہ وہ اپنے مرض میں آپ ہی مرجائے گا۔ عبدالملک ماہِ شوال سنہ۸۶ھ میں ۶۳/سال کی عمر میں فوت ہوا، ثعلبی کا قول ہے کہ عبدالملک کہا کرتا تھا کہ میں رمضان میں پیدا ہوا، رمضان ہی میں میرا دودھ چھڑایا گیا، رمضان ہی میں میں نے قرآن ختم کیا، رمضان ہی میں بالغ ہوا، رمضان ہی میں ولی عہد ہوا، رمضان ہی میں خلیفہ بنا، مجھے خوف ہے کہ میں رمضان ہی میں مروں گا؛ لیکن جب رمضان گذرگیا اور عبدالملک کواطمینان ہوگیا تووہ ماہِ شوال میں فوت ہوگیا۔ ایک روز عبدالملک کے پاس ایک عورت آئی اور کہا کہ میرا بھائی چھ سودینار چھوڑ کرمرا ہے، تقسیم میراث میں مجھ کوصرف ایک دینار دیا جاتا اور کہا جاتا ہے کہ تجھے اسی قدر حق پہنچتا ہے، عبدالملک نے اسی وقت شعبی کوبلایا اور دریافت کیا؛ انھوں نے کہا کہ یہ تقسیم بالکل درست ہے، متوفی دوبیٹیاں چھو ڑکرمرا، ان دونوں کودوتہائی یعنی چار سودینار ملیں گے اور ماں کا چھٹا حصہ یعنی ایک سودنیار، بیوی کوآٹھواں حصہ یعنی پچھتر دینار اور بارہ بھائیوں کوچوبیس دینار پس اس حساب سے اس کے حصہ میں ایک ہی دینار آئے گا۔