انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** انسانوں کے حقوق لوگو ! اللہ تعالیٰ نے میراث کا قانون نافد کر کے ہر حق دار کو اس کا حق دے دیا ہے ، اس لئے اب کسی وارث کے حق میں کوئی وصیت جائز و نافذ نہیں، لڑکا اس کا ہے جس کے بستر پر پیدا ہوا ہو، زنا کار کے لئے پتھر ہے اور ان کا حساب اللہ کے ذمہ ہے ، قرض ادا کیا جانا چاہئے ، عاریت واپس ہونی چاہئے ، عطیہ کا بدلہ دیا جانا چاہئے ، ضامن تاوان کا ذمہ دار ہوگا ،(سیرت طیبہ ) خبر دار: جرم کرنے والا خود اپنے جرم کا ذمہ دار ہے ، باپ کے جرم کا ذمہ دار بیٹا نہیں اور بیٹے کے جرم کا باپ نہیں، خبر دار : میر ے بعدگمراہ نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو،جس شخص کے پاس کسی کی امانت ہو اس پر لازم ہے کہ وہ امانت والے کو ٹھیک ٹھیک طریقے سے لوٹا دے، اگر کوئی نکٹا اور سیاہ فام حبشی غلام بھی تمہارا امیر بنا دیا جائے اور وہ کتاب اللہ ( قرآن مجید) کے مطابق تمہاری قیادت کرے تو تم پر اس کی اطاعت لازم ہے، ائے لوگو : مذہب میں غلو اور مبالغہ سے بچو کیونکہ تم سے پہلے بہت سی قومیں مذہب میں غلو کے سبب برباد ہو گئیں، ائے لوگو ! اب شیطان اس بات سے مایوس ہو چکا ہے کہ اس سرزمین پر اس کی پرستش کی جائے گی لیکن طہارت کے سوا دوسرے معاملات میں اپنے پست افعال کے ذریعہ اس کی فرمانبرداری کی گئی تو وہ اس پر بھی راضی رہے گا، تم اپنے دین کو اس کے شر سے بچا کر رکھنا،خبر دار ! اپنے رب کی عبادت کرتے رہو، پنچ وقتہ نمازوں کی پابندی کرو، رمضان کے روزے رکھو، اپنے اموال کی خوش دلی کے ساتھ زکوٰۃ ادا کرتے رہو، اپنے رب کے گھر ( بیت اللہ) کا طواف کرو، اپنے امراء کے حکم کی پیروی کرو، اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جاؤ گے، ائے لوگو : نسی کفر کی زیادتی کا سبب ہے، اس کے ذریعہ کفار گمراہ ہوتے ہیں، وہ ایک سال حرام مہینوں کو حلال کرلیتے اور دوسرے سال انہی کو حرام قرار دے لیتے تھے تا کہ اس طرح حرام مہینوں کی گنتی پوری کریں لیکن اب زمانہ اپنی اس ابتدائی حالت پر لوٹ آیا ہے جس دن اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا فرمایا تھا، اللہ کے نزدیک سال کے بارہ مہینے ہوتے ہیں جن میں چار مہینے حرمت والے ہیں، تین مہینے مسلسل ہیں( ذی قعدہ ، ذی الحجہ، محرم )اور ایک ماہ رجب ہے جو جمادی الثانی اور شعبان کے درمیان واقع ہے ، خطبہ ختم ہوا ، آپﷺ نے حضرت بلالؓ کو حکم دیا کہ اذان دیں، اقامت کے بعد دو رکعت نماز ظہر ادا فرمائی، قرأت آہستہ پڑھی حالانکہ وہ جمعہ کا دن تھا، مسافر ہونے کی وجہ سے جمعہ نہیں پڑھا ، دوسری اقامت پر عصر بھی قصر کر کے پڑھی، یہ جمع " تقدیم " کہلاتی ہے، پھر آپﷺ نے " ائے معاشر المسلمین" کہہ کر فرمایا کہ تین باتیں سینہ کو پاک رکھتی ہیں ، ایک اعمال میں اخلاص ، دوسرے مسلمان بھائیوں کی خیر خواہی اور تیسری بات جماعت المسلمین کا اتحاد ، کچھ لوگ لبیک اور کچھ اللہ اکبر کہتے رہے، عرفہ کا دن تکبیراور تلبیہ پر ختم ہوا، (سیرت احمد مجتبیٰ) آنحضرت ﷺ ے فرمایا : لوگو ! اللہ نے تم پر حج فرض کیا ہے لہٰذا حج کرو ، کسی نے پوچھا، کیا ہر سال حج کریں؟ آپﷺ نے خاموشی اختیار کی، اس شخص نے تین بار یہی سوال دُہرایا، کچھ دیر توقف کر کے فرمایا : اگر میں ہاں کہدیتا تو حج ہر سال فرض ہو جاتا اور تم ادا نہ کر پاتے، میں جب تمہیں چھوڑے رکھوں تو تم بھی مجھے چھوڑ دیا کرو ، تم سے پہلے والے اسی لئے ہلاک ہو گئے کہ انھوں نے انبیاء سے بہ کثرت سوال کئے اور پھر ان سے اختلاف کیا،ایک شخص نے پوچھا … مَحرم کونسے کپڑے پہنے ، فرمایا : محرم قمیص پہنے نہ عمامہ باندھے، ٹوپی پہنے نہ موزے ، جوتیاں میسر نہ ہوں تو موزے کاٹ کر ٹخنوں کے نیچے کر لے، تہہ بند نہ ہو تو پائجامہ پہن سکتا ہے، زعفران یا ورس سے رنگا کر کپڑا نہ پہنے، قبیلہ جہینیہ کی ایک عورت نے پوچھا … میری ماں نے حج کرنے کی نذر مانی تھی لیکن فوت ہو گئی، کیا میں اس کی طرف سے حج کر سکتی ہوں ؟ فرمایا : ہاں ، اگر اس پرقرض ہوتا تو کیا تم ادا نہ کرتیں؟ اللہ اپنے حق کی ادائیگی کا زیادہ حق دار ہے، حضرت میمونہؓ اور اُم الفضل ؓ نے دودھ کا ایک پیالہ بھیجا ، آپﷺ نے اونٹ پر بیٹھے بیٹھے پی لیا تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ روزے سے نہیں ہیں، فرمایا : میں نے یہاں وقوف کیا ہے لیکن عرفات سارا جائے وقوف ہے سوائے بطن عرفہ کے، عرفات میں ایک شخص اونٹ سے گرا اور اونٹ نے کچل کر ہلاک کر دیا، آپﷺ نے فرمایا: اسے بیری کے پتوں میں ابلے پانی سے غسل دو، احرام ہی کا کفن دو ، نہ خوشبو لگاؤ نہ سر ڈھانپو ، بے شک اللہ اس کو قیامت کے دن لبیک کہتا ہوا اٹھائے گا، آنحضرت ﷺ قصویٰ پر سوار ہو کر عرفات تشریف لے گئے ، اونٹنی کا پیٹ صخرات ( چٹانوں) کی طرف کیا، پیدل چلنے والوں کا راستہ اپنے سامنے رکھا ، جبل المشاۃ کے سامنے قبلہ رو ہو کر کھڑے ہوئے ، عرفہ کے دن زیادہ سے زیادہ دعائیں مانگیں، امت کی مغفرت کی دعا کے جو اب میں فرمایا گیا کہ سوائے ظالم کے جس سے مظلوم کا انتقام لیا جائے گا ، عرض کیا ! ائے اللہ ! تو مالک ہے ، تو چاہے تو مظلوم کا جنت میں درجہ بلند کر دے او ر ظالم کو معاف فرما دے، یہ دعا اس وقت قبول نہیں ہوئی یہاں تک کہ آفتاب غروب ہو گیا، نجد والوں کے استفسار پر منادی کرائی گئی کہ حج عرفات کے قیام کا نام ہے ، جو شخص طلوع فجر سے قبل مزدلفہ پہنچ گیا وہ حج پا گیا، حضرت اسامہؓ بن زید کو اپنے پیچھے سوار کر لیا اور مزدلفہ کی طرف چل پڑے، دائیں ہاتھ سے لوگوں کو اشارہ فرماتے کہ آرام اور سکون سے چلو، آپﷺ ناقہ کی زمام کھینچے ہوئے تھے یہاں تک کہ اس کی گردن کجاوے میں آ کر لگتی تھی، اثنائے راہ میں ایک جگہ اتر کر طہارت سے فارغ ہوئے پھر وضوکئے، حضرت اسامہؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ :نماز کا وقت تنگ ہو رہا ہے، فرمایا : آگے جا کر پڑھیں گے، مزدلفہ پہنچ کر پھر وضو کیا اور ایک اذان اور دو اقامتوں کے ساتھ مغرب اور عشاء کی نمازجمع کر کے عشاء کے وقت ادا فرمائی، یہ " جمع تاخیر" کہلاتی ہے، دونوں کے درمیان کوئی نماز نہیں پڑھی گئی البتہ برابر لبیک کہتے رہے، نماز سے فارغ ہو کر آپﷺ لیٹ گئے اور صبح تک آرام فرمایا، بیچ میں روزانہ دستور کے مطابق تہجد کے لئے بھی بیدار نہیں ہوئے ، محدثین نے لکھا ہے کہ یہی ایک شب ہے جس میں آپﷺ نے نماز تہجد ادا نہیں فرمائی ، سویرے اٹھ کر با جماعت نماز پڑھی ، فرمایا : پورا مزدلفہ وقوف کا مقام ہے سوائے بطن محسر کے ،۱۰ ذی الحجہ کی رات مزدلفہ میں گزاری، صبح کی نماز کے بعد مظلوم و ظالم کے بارے میں اپنی دعاء دُہرائی، کچھ دیر بعدچہرے پر تبسّم کے آثار نمودار ہوئے، حضرت ابو بکرؓ و عمرؓ نے پوچھا … یا رسول ا للہ : اللہ آپﷺ کو ہمیشہ مسکراتا رکھے ، اس تبسّم کا سبب کیا ہے؟ فرمایا ! ابلیس کو اب یہ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے میری دعا قبول فرمائی ہے تو وہ روتے ہوئے اپنے سر پر مٹی ڈالنے لگا، اس کی یہ کیفیت دیکھ کر مجھے ہنسی آئی، حضرت سودہؓ اور اہل بیت کے کمزور افراد کو رات ہی میں منیٰ جانے کی اجازت دے دی، ان میں حضرت عبداللہؓ بن عباس بھی تھے،قریش مزدلفہ سے اس وقت کوچ کرتے تھے جب آفتاب پورا نکل آتا تھا اور آس پاس کے پہاڑیوں کی چوٹیوں پر دھوپ چمکنے لگتی تھی، اس وقت بہ آواز بلند کہتے تھے، " کوہ شبیر ! دھوپ سے چمک جاؤ" آنحضرت ﷺ نے اس رسم کے ابطال کے لئے سورج نکلنے سے پہلے یہاں سے کوچ فرمایا، یہ ذی الحجہ کی دسویں تاریخ اور سنیچر کا دن تھا ، ( سیرت النبی جلد اول )آپ قصویٰ پر سوار ہوکر مشعر حرام آئے جو مزدلفہ میں ایک ٹیلہ ہے، یہاں خو ب روشنی پھیلنے تک قبلہ رو ہو کر تسبیح ، تہلیل ، تکبیر اور دعاؤں میں مشغول رہے، طلوع آفتاب کے بعد مزدلفہ سے منیٰ روانہ ہوئے، حضرت عائشہؓ ساتھ تھیں ، آپ ﷺ کے برادر عم زاد حضرت فضلؓ بن عباس ناقہ پر سوار تھے، لوگ داہنے بائیں حج کے مسائل دریافت کرنے کے لئے آرہے تھے، آپﷺ جواب دیتے تھے اور زور زور سے مناسک حج کی تعلیم دیتے جاتے تھے، ( صحیح بخاری بحوالہ سیرت النبی جلد اول) اس قدر ہجوم تھاکہ حضرت عائشہؓ نے کہا:کاش حضرت سودہؓ کی طرح میں بھی اجازت لے کر منیٰ چلی جاتی، حضور ﷺ لوگوں کو تلقین فرما رہے تھے کہ سکون سے چلو، کبھی کوڑے سے اشارہ فرماتے ہوئے کہتے ، ائے لوگو ! اطمینان اختیار کرو ، اونٹوں کو دوڑانا کوئی اچھی بات نہیں، قبیلہ غثم کی ایک خوبصورت نے قریب آکر پوچھا کہ حج ایسے موقع پر فرض ہوا ہے کہ میرا باپ ضعیف ہے، کیا میں ان کی طرف سے حج کر سکتی ہوں ؟ فرمایا: ہاں ، حضرت فضلؓ بن عباس اس عورت کو اور وہ انہیں دیکھنے لگے، حضور ﷺ نے فضلؓ کا منہ دوسری طرف پھیر دیا، حضرت اسامہؓ کہتے ہیں کہ میں عرفہ سے مزدلفہ تک اور فضلؓ بن عباس مزدلفہ سے منیٰ تک حضور ﷺ کے پیچھے اونٹنی پر بیٹھے رہے، وادیٔ محسّر میں آئے تو رمی جمار کے لئے چنے سے بڑے اور چھوٹے بیرسے کم کسی قدر کم کنکریاں جمع کرنے کا حکم ہوا، لوگوں نے تعمیل کی، وادیٔ محسّر میں جو اصحاب فیل پر اللہ کے غضب کی جگہ ہے اونٹنی کو تیزی سے دوڑایا ، حضرت عبداللہ ؓ بن عباس نے آپ ﷺ کے لئے بھی کنکریاں چنیں ، پھر آپﷺاونٹنی کو دوڑاتے درمیانی راستہ سے جمرۂ کبریٰ کی طرف چلے اسے جمرۂ عقبہ اور جمرۂ اولیٰ بھی کہتے ہیں، نزدیک جا کر ایک درخت کے نیچے رک گئے، اس وقت آپﷺ وادی کے نشیب میں تھے، آپﷺ کی بائیں جانب منیٰ داہنی طرف مکہ تھا، آپﷺ نے قصویٰ ہی پر سے ہر بار اللہ اکبر کہہ کر کنکریاں جمرۂ کبریٰ پر ماریں ، یہ رمی جمار آپﷺ نے آفتاب طلوع ہونے کے بعد فرمایا اور تلبیہ موقوف کیا، چاشت کا وقت تھا ، اونٹنی پر بیٹھ کر فرمایا : مجھ سے مناسک حج سیکھ لو ، مجھے معلوم نہیں کہ اس حج کے بعد دوسرا حج کر سکوں گا کہ نہیں، یہاں سے منیٰ کے لئے روانہ ہوئے ، حضرت اسامہؓ ساتھ بیٹھے دھوپ سے بچنے کے لئے چادر تانے ہوئے تھے، حضر ت بلالؓ قصویٰ کی مہار تھامے ہوئے تھے، داہنے بائیں‘ آگے پیچھے تقریباً ایک لاکھ مسلمانوں کا مجمع تھا، مہاجرین قبلہ کے داہنے ‘ انصار بائیں اور بیچ میں عام مسلمانوں کی صفیں تھیں، آپﷺ نے نظر اٹھا کر اس عظیم الشان مجمع کی طرف دیکھاتوفرائض نبوت کے (۲۳) سالہ نتائج نگاہوں کے سامنے تھے، زمین سے آسمان تک قبول و اعتراف حق کا نور ضو فشاں تھا، دیوان قضا میں انبیاء سابق کے فرائض تبلیغ کے کارناموں پر ختم رسالت کی مہر ثبت ہو رہی تھی اوردنیا اپنی تخلیق کے لاکھوں برس بعد دین فطرت کی تکمیل کا مژدہ کائنات کے ذرہ ذرہ کی زبان سے سن رہی تھی، اسی عالم میں قصویٰ پر سوار ہو کر افصح العرب و العجم نے خطبہ دیا :