انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** پیغمبرﷺ کی مرکزی حیثیت یہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس ہے جو مسلمانوں کو خواہ وہ کسی ملک کے ہوں، کسی دور کے ہوں، کسی نسل کے ہوں، کسی رنگ کے ہوں اور کسی طبقے کے ہوں ایک لڑی میں پروتی ہے،یہ حدیث کا فیضان ہے کہ ہندوستان، انڈونیشیا، ترکی، مصر، شام، انگلستان، افغانستان، جرمنی اورامریکہ کے رہنے والے سب مسلمان ایک طرح نماز پڑھتے ہیں، ایک طرح روزے رکھتے ہیں،سب ایک نصاب سے زکوٰۃ دیتے ہیں، نکاح و طلاق اورپیدائش واموات میں سب ایک ہی راہ پر چلتے ہیں، مادیت کے اس دور میں یہ تو ہو رہا ہے کہ کئی لوگ عملاً مذہب سے دور چلے گئے؛ لیکن اگر کوئی دین کی طرف رجوع کرے اوراس پر عمل کرنا چاہے تو راہ وہی ملے گی جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے صحابہؓ نے قائم کی اوراس راہ کے چراغ وہی ہوں گے،جو حضور اکرمﷺ نے روشن کئے، تاریخ میں نہیں ملتا کہ ان نجوم ہدایت کے بغیر کسی طبقے یا فردنے اسلام کی کوئی راہ عمل طے کی ہو۔ جو لوگ قرآن پاک کے ساتھ مرکز ملت کے فیصلوں کو جزو لازم ٹھہراتے ہیں اور وہ اس طرح قرآنی مجملات کی تشکیل چاہتے ہیں، ان کی یہ رائے محض ایک نظری درجے میں ہے جس نے اسلام کی پوری تاریخ میں کبھی حقیقت واقعہ کا لباس نہیں پہنا اور نہ تاریخ کے کسی دور میں کبھی اس طرح قرآنی معاشرے کی تشکیل ہوئی ہے، اس کی تائید مزید اس سے بھی ہوتی ہے کہ اس تجویز کےحامیوں نے اسے اشاعت اسلام کے عنوان سے نہیں، ہمیشہ طلوع اسلام کے نام سے پیش کیا ہے،جو اسلام آج سے چودہ سو سال پہلے طلوع ہوا تھا، اس میں قرآن کریم کے ساتھ جزو لازم حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت اورصحابہ کرام کی عملی راہیں تھیں اور اب اسلام کے نئے طلوع میں یہ تجویز ہے، کہ قرآن کریم کے ساتھ مرکز ملت کو جزولازم ٹھہرایا جائے اور حدیث سے جان چھڑا لی جائے۔ یہ نئی تجویز محض نظری بات ہے، اس نئے تخیل سے اسلام کی چودہ سو سالہ عملی تاریخ کو چھوڑا نہیں جاسکتا، جب اسلام کے سنہری زمانے Golden Age (خلافت راشدہ) میں بھی حدیث ہی قرآن کے ساتھ جزو لازم تھی تو آج کے بے عمل دور میں وہ کون سانیا چراغ ہوگا جو قوم میں زندگی کی حرارت پیدا کرسکے گا۔