انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت ابو العاصؓ نام ونسب ابو العاص کے نام میں بڑا اختلاف ہے،بعض لقیط،بعض مہثم اور بعض ہشیم بتاتے ہیں،ابو العاص کنیت ہے، نسب نامہ یہ ہے،ابو العاص بن ربیع بن عبدالعزی بن عبد شمس بن عبد مناف ابن قصی قرشی ابو العاص حضرت خدیجہؓ کے بھانجے تھے،وہ انہیں بہت محبوب رکھتی تھیں اوراپنا لڑکا تصور کرتی تھیں وہ نہایت متمول آدمی تھےزمانہ جاہلیت میں ان کا نہایت وسیع تجارتی کاروبار تھا ان کی دیانت اورامانت بھی بہت مشہور تھی، ان اوصاف کی وجہ سے حضرت خدیجہؓ نے آنحضرتﷺ سے خواہش کی کہ حضرت فاطمہؓ زہرا کی بڑی بہن حضرت زینبؓ کو ان کے ساتھ بیاہ دیا جائے،آپ نزولِ وحی سے پہلے کسی معاملہ میں حضرت خدیجہؓ کی مخالفت نہ کرتے تھے،اس لیے ان کی خواہش کے مطابق زینبؓ کی شادی ابو العاص کے ساتھ کردی۔ آنحضرتﷺ کے دعوی نبوت کی سب سے اول حضرت خدیجہؓ نے تصدیق کی آپ کے ساتھ آپ کی تمام صاحبزادیاں جن میں حضرت زینبؓ بھی شامل تھیں، نور اسلام سے مستنیر ہوئیں، لیکن زینب ؓ کے شوہر ابوالعاص اپنے آبائی دین پر قائم رہے،اسی لیے جب ہجرت کا حکم ملا تو وہ ہجرت نہ کرسکیں۔ غزوۂ بدر میں ابوالعاص مشرکین مکہ کے ساتھ تھے اورمشرکین کے شکست کھانے کے بعد وہ بھی دوسرے قیدیوں کے ساتھ گرفتار ہوئے،جن جن لوگوں کے اعزہ گرفتار ہوئے تھے وہ سب فدیہ لیکر انہیں چھڑانے کے لیے آئے، گو حضرت زینبؓ مسلمان ہوچکی تھیں اور ابو العاص مشرک تھے،تاہم وہ اب تک شوہر کے ساتھ تھیں اور ان کا دل ان کی محبت سے معمور تھا،شوہر کو قید و بند کی حالت میں نہ دیکھ سکیں،آنحضرتﷺ عام قانون سے انہیں مستثنیٰ نہیں کرسکتے تھے،اس لیے حضرت زینبؓ نے کچھ نقد ی اورایک ہار جو انہیں مرحوم ماں نے جہیز میں دیا تھا، شوہر کے فدیہ میں بھیجا، آنحضرت ﷺ کے سامنے یہ ہار پیش ہوا، تو آپ نے پہچان لیا، اورحضرت خدیجہؓ کی یاد میں بے اختیار آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے تو آپ نے مسلمانوں سے فرمایا، اگر تم لوگ بغیر اس ہار کو لیے ہوئے ابو العاص کو چھوڑ سکتے ہو، تو چھوڑدو اور ہار واپس کردو، مسلمانوں نے نہایت خوشی کے ساتھ منظور کرلیا اور ابو العاص رہا کردیئے گئے،مگر یہ وعدہ لے لیا گیا کہ وہ زینبؓ کو جو اب تک مکہ میں تھیں، مدینہ پہنچادیں اورآنحضرتﷺ نے حضرت زید بن حارثہؓ کو چند انصاری بزرگوں کے ساتھ زینبؓ کو لانے کے لیے بھیجا۔ (مستدرک حاکم :۳/۲۳۶،زینبؓ کے بھیجے جانے کی شرط کا ذکر ابو داؤد کتاب الجہاد باب فداء الاسیر بالمال میں ہے) جب یہ لوگ زینبؓ کو ساتھ لیکر چلنے لگے،تو قریش میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں،انہوں نے زینبؓ کا مدینہ سے چلا جانا اپنی سبکی تصور کیا اورچند آدمیوں نے جن میں ہبار بن اسود بہت پیش پیش تھا روکنا چاہا، اورحضرت زینبؓ کو نیزہ دکھا کر دھمکایا،اس کی اس گستاخی پر ابو العاص کےبھائی کنانہ کو جو حضرت زینبؓ کے ساتھ تھے ،غصہ آگیا انہوں نے تیر نکال کر کہا خدا کی قسم جس نے آگے قدم بڑھا یا وہ اس کا نشانہ بنے گا، یہ شور و غل سن کر ابو سفیان پہنچ گیا اور کنانہ سے کہا تم نے بھی تو کمال کیا، محمد ﷺ کی وجہ سے ہم لوگوں کو جو ذلتیں اٹھانی پڑی ہیں وہ تم کو معلوم ہیں،اس کے باوجود تم ان کی لڑکی کو علانیہ ہمارے یہاں سے لے جارہے ہو، خواہ مخواہ لوگ اپنی ذلت محسوس کریں گے، اگر تم کو لیجانا تھا تو خفیہ لیجاتے ہم کو روکنے کی ضرورت نہیں تھی،ابھی لوگ برہم ہیں اس لیے کچھ توقف کرو جب لوگوں کا غصہ ٹھنڈا ہوجائے گا، تو چپکے سے لیکر چلے جانا، ابو سفیان کی اس سنجیدہ رائے پر دو تین دن کے لیے حضرت زینبؓ کا سفر ملتوی ہوگیا، جب لوگوں کا جوش فرو ہوگیا تو ایک دن شب کو خفیہ مکہ سے لیکر نکل آئے اور بچھڑی ہوئی لختِ جگر آغوشِ پدر میں پہنچ گئی۔ (سیرۃ ابن ہشام:۲/۳۷۸) قریش کے پرجوش شرارت پسند اشخاص ابو سفیان کے سمجھانے بجھانے سے رک تو گئے تھے اورحضرت زینبؓ کے لیجانے میں مزاحم نہیں ہوئے، لیکن اس واقعہ پر سخت پیچ و تاب کھارہے تھے ،بدر کے بعد آنحضرتﷺ کے مقابلہ میں گویا یہ دوسری شکست تھی،اس لیے اس کے انتقام میں حضرت زینبؓ کی روانگی کے بعد ابو العاص کے پاس قریش کا ایک وفد پہنچا اوران سے کہا تم اپنی بیوی کو چھوڑ دو، اس کے بدلہ میں قریش کی جس عورت کو پسند کرو، اس کے ساتھ تمہاری شادی کردیجائے گی،ابو العاص گو اپنے مذہب پر قائم تھے، لیکن ان کا دل بیوی کی محبت سے معمور تھا،اس لیے انہوں نے جواب دیا، خدا کی قسم میں ہر گز اپنی بیوی کو نہیں چھوڑ سکتا قریش کی کوئی عورت ان کا بدل نہیں ہوسکتی، اس کا یہ صاف جواب سن کر قریش لوٹ گئے۔ ابو العاص رہائی کے بعد پھر اپنے تجارتی مشاغل میں مصروف ہوگئے تھے،فتح مکہ سے کچھ دنوں پیشتر قریش کا سامانِ تجارت لے کر شام گئے، وہاں سے واپسی میں راستہ میں مسلمانوں نے روک کر ان کا کل مال و متاع چھین لیا، جب مسلمان لوٹ گئے،تو ابو العاص اپنا مال حاصل کرنے کے لیے خفیہ حضرت زینبؓ کے پاس پہنچے، حضرت زینبؓ کو اب تک ان سے وہی محبت تھی،انہوں نے ان کو اپنے دامنِ حمایت میں لے لیا اورصبح کو جب مسلمان نماز پڑھنے کے لیے گئے، تو زینبؓ نے باآواز بلند اعلان کیا کہ مسلمانو! میں نے ابو العاص کو پناہ دیدی ہے،آنحضرتﷺ نے سلام پھیرنے کے بعد فرمایا لوگو تم نے کچھ سنا ،سب نے عرض کیا ہاں،آپ نے ان کی بد گمانی دور کرنے کے لیے فرمایا، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمدﷺ کی جان ہے، اس سے پہلے مجھے اس واقعہ کا کوئی علم نہ تھا، ابو العاص مسلمانوں سے پناہ کا خواہاں ہے،اس کے بعد آپ کا شانۂ اقدس پر تشریف لائے اورحضرت زینبؓ سے فرمایا، جانِ پدر اپنے شوہر کی خاطر ومدارات میں کوئی کمی نہ کرو، مگر تم قانون اسلام کی رو سے ان پر حرام ہو، حضرت زینبؓ کو یہ ہدایت کرکہ پھر باہر تشریف لائے اورمسلمانوں سے فرمایا کہ تم لوگ میری اور ابو العاص کی قرابت سے واقف ہو ان کا جو مال تمہارے قبضہ میں ہے،اگر اس کو احسان کر کے واپس کردو تو زیادہ بہتر ہے،اوراگر نہ واپس کرو تو وہ خدا کا عطیہ اور تمہارا حق ہے، مجھ کو کوئی اعتراض واصرار نہیں ہے،اس کے جواب میں سب نے ایک زبان ہوکر عرض کیا یا رسول اللہ ہم سب واپس کرنے کو تیار ہیں ؛چنانچہ ابو العاص کو ان کا کل مال بجنسہ واپس مل گیا اور اس میں کوئی معمولی چیز بھی باقی نہ رہی، وہ یہ مال لیکر مکہ گئے اورجن جن لوگوں کا جو جو سامان تھا، سب کو پہنچادیا، اورحساب و کتاب چکا نے کے بعد پوچھا ،اب تو کسی کا مال باقی نہیں ہے،سب نے کہا نہیں خدا تم کو جزائے خیر دے ہم نے تم کو وعدہ وفا کرنے والا اور کریم پایا۔ اسلام سب کو مطئن کرنے کے بعد کلمۂ شہادت پڑھ کر ببانگ دہل اپنے اسلام کا اعلان کیا، اورکہا میں مدینہ ہی میں مسلمان ہوگیا ہوتا، لیکن محض اس خیال سے کہ تم لوگوں کو یہ بد گمانی نہ ہو کہ میں نے تمہارا مال ہضم کرنے کے لیے اسلام قبول کیا ہے اب تک رکا رہا،اب جبکہ خدا نے مجھ کو تمہارے حساب و کتاب اورتمہارے بار سے سبکدوش کردیااس وقت میں نے اسلام ظاہرکیا۔ مکہ میں اسلام کا اعلان کرکے مدینہ واپس آئے اوریہاں باقاعدہ مشرف باسلام ہوئے،ان کے قبول اسلام کے بعد آنحضرتﷺ نے حضرت زینبؓ کے ساتھ ان کے نکاح کی تجدید نہیں کی بلکہ گذشتہ نکاح برقرار رکھا،لیکن بعض روایتوں کی رو سے تجدید فرمائی تھی۔ (تمام تفصیلات مستدرک حاکم :۳/۲۲۶،۲۲۷) مکہ کی واپسی اور غزوات ابو العاصؓ کا تجارتی کاروبار مکہ میں تھا، اس لیے وہ مدینہ میں قیام نہ کرسکتے تھے؛چنانچہ قبول اسلام کے بعد وہ آنحضرتﷺ سے اجازت لے کر پھرمکہ لوٹ آئے مکہ کے قیام کی وجہ سے انہیں غزوات میں شرکت کا موقع نہ مل سکا، صرف ایک سریہ میں جو ۱۰ھ میں حضرت علیؓ کی سرکردگی میں بھیجا گیا تھا، شریک ہوسکے (اصابہ:۷/۱۱۹) حضرت علیؓ نے یمن سے واپسی میں انہیں یمن کا عامل بنایا تھا۔ وفات حضرت زینبؓ کا انتقال آنحضرتﷺ کی حیات ہی میں ہوچکا تھا،ابو العاصؓ بھی ان کے بعد زیادہ دنوں تک زندہ نہ رہے، اورذلحجہ ۱۳ھ میں انتقال کرگئے۔ (بخاری کتاب الصلوٰۃ) اولاد حضرت زینبؓ کے بطن سے ابو العاص کے دو اولادیں ہوئیں،علی اورامامہ علی کا انتقال صغر سنی میں ہوگیا تھا، امامہ زندہ رہیں، مرحومہ بیٹی کی اس یادگار سے آنحضرتﷺ کو والہانہ محبت تھی،اس کو آپ جان سے زیادہ عزیز رکھتے تھے،ہر وقت پاس رکھتے تھے نماز کی حالت میں بھی جدانہ کرتے تھے، رکوع کرتے وقت بٹھا دیتے تھے اورکھڑے ہوتے وقت پھر اٹھا لیتے تھے،(بخاری کتاب الصلوٰۃ) حضرت فاطمہؓ کے انتقال کے بعد حضرت علیؓ نے اس سے شادی کرلی تھی۔ (استیعاب:۲/۶۹۲) عام حالات ابو العاصؓ گو ظہور اسلام کے بعد بہت دنوں تک شرک کی تاریکی میں مبتلا رہے، لیکن ان کو اسلام اورمسلمانوں سے کوئی عنادنہ تھا اور رسول اللہ کو ہر حالت میں ان سے یکساں محبت رہی ؛چنانچہ اس زمانہ میں بھی جبکہ ابو العاصؓ اسلام نہیں لائے تھے،آپ ان کا تذکرہ بھلائی ہی کے ساتھ کرتے تھے۔