انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** جنوبی وشمالی اندلس کے عیسائیو ں کا نیا فتنہ تاہم جنوبی اندلس میں شمالی اندلس کے فدائی عیسائی آآکر منتشر ہوگئے،انھوں نے یہ وطیرہ احتیار کیاکہ علانیہ بازاروں اور مجمعوں میں آنحضرتﷺ کوگالیاں دیتے،قرآن مجید کی بےحرمتی کرتے اور مسلمانوں کوجوش دلاتے تھے،ان عیسائی بدزبانوں کو اول اول گرفتار کرکےقاضی عدالت میں پیش کیاگیا وہاں بھی انہوں نے بدزبانی کا اعادہ کیا قاضی نے قتل کا حکم دیا جب اس طرح ایک شخص کاقتل ہوا تودوسرے نے خود قاضی کےدربار میں پہنچ کرعلانیہ آنحضرتﷺ کوگالیاں دیں،قاضی نے اس کوبھی قتل کرادیا ان عیسائیوں نے جواپنے آپ کو قتل ہی کرانے کےلیے مستعد ہوکر آئے تھے یکے بعد دیگرے اپنے آپ کو مستحق قتل قراردینا اور قتل ہونا شروع کیا توقاضی اور سلطان کی طرف سےدرگزر اور چشم پوشی کا برتاؤ شروع ہوا ،عام عیسائیوں میں یہ خیال بڑی آسانی سے یہ لوگ پھیلاسکے کہ جولوگ اس طرح مقتول ہوتے ہیں وہ ولی کامل اور شاہ ولایت بن جاتے ہیں،چنانچہ ان مقتولوں کی قبروں کو زیارت گاہ بنایاگیا اور قرطبہ اور دوسرے مقامات کے جاہل عیسائیوں کی ایک تعداد ان قتل ہونے اولے عیسائیوں کی قبروں کو عزت وتکریم کی نگاہوں سے دیکھنے اور ان کی زیارت کرنے کو ثواب سمجھنے لگی،شمالی ریاستوں کے عیسائی ان شہیدوں کےمزاروں کی زیارت کوآتے اور خود بھی اس نامعقول حرکت کا ارتکاب کرکے گرفتار ہوجاتے جب ان شریروں کو مقتل میں لےجایاجاتاتو ہزارہا آدمی ان کوولی کامل سمجھ کر ان کا آخری دیدار دیکھنے کو جمع ہوجاتے اس طرح یہ سلسلہ کئی برس تک جاری رہا اور سلطان سخت شش وپنج میں مبتلا رہا کہ اس طوفان بدتمیزی کو کس طرح فروکیاجائے آخر قرطبہ اوراشبیلیہ وغیرہ کےبڑے بڑے سنجیدہ پادریوں اوراسقفوں نے ایک عطیم الشان مذہبی مجلس منعقد کی اورملک اندلس کے تمام بڑے بڑے پادریوں کو اس میں بلاکر یہ مسئلہ پیش کیا کہ آیا مذہب عیسوی کی روسے مسلمانوں کے پیغمبر اوران کی مذہبی کتاب قرآن مجید کوگالیاں دینا ثواب کاکام ہے یا نہیں؟اور جولوگ اس طرح مقتول ہورہے ہیں وہ شہید یاشاہ ولایت کہلانے کے مستحق ہیں یا نہیں ؟اس پر پادریوں نے خوب تقریریں کیں اور اس اوراس حرکت کو مذہبی عیسوی کے بالکل خلاف قراردےکر انلوگوں کو جو اس طرح اپنے آپ کو خطرہ میں ڈالتے اورمقتول ہوتے تھے گناہ کامرتکب قرار دیا اور یہ عجیب فیصلہ کیا کہ جولوگ اب تک مقتول ہوچکے ہیں وہ تو شہید اور شاہ ولایت سمجھے جائیں گے لیکنجو عیسائی اس کے بعد اس حرکت ناشائستہ کا مرتکب ہوگا وہ بدمعاش سمجھاجائےگا اور گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوگا پادریوں کی کونسل کے اس فیصلے نے اندلسی عیسائیوں کو متاثر کیا لیکن شمالی ریاستوں ک پادری جو اسی غرض کے لیے اپنے آپ کو ایک ولی کامل کی حیثیت سے پیش کرتے تھے اپنی ان حرکات سے باز نہ آئے ایک طرف مسلمانوں کی شکایت تھی کہ سلطان عیسائی بدزبانوں کوسزا دینے میں لیت ولعل اور غفلت کرتا ہے اسی لیے ان کے حوصلے بڑھتے جاتے ہیں ،دوسری طرف عیسائیوں کا جاہل طبقہ اپنے ان پادریوں کو برا کہنےلگا جنہوں نے ان مذہبی شہیدوں کوبدمعاش قراردیاتھا ،عیسائیوں اورمسلمانوں کے جوخوش گوار تعلقات ملک میں قائم تھے اور ان میں کوئی مذہبی منافرت نہیں پائی جاتی تھی وہ کمزور ہونے لگے اور عیسائی مسلم نااتفاقی پیدا ہونے لگی۔ عیسائیوں کے اس فتنے نے سلطان عبدالرحمن کو اس کی عمر کے آخری پانچ چھ سال میں بہت پریشان اور غمگین رکھا اور اس کی زندگی میں اس عجیب وغریب قسم کے فتنے کا پوری طرح سد باب نہ ہوسکا بلکہ اس کا کم وبیش سلسلہ جاری رہا۔