انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حدیث غسل ام المؤمنین پرایک اعتراض فہم حدیث میں کسی جگہ کے عرف، محاورے اور استعمال کوبھی سامنے رکھنا ہوتا ہے، مثلاً دوشخصوں میں دیانت داری سے اس موضو ع پرنزاع ہوگیا کہ نہانے کے لیے کم از کم پانی کتنا ہونا چاہیے، ایک نے کہا میں دوسیر پانی سے نہاسکتا ہوں، دوسرے نے کہا ایسا نہیں ہوسکتا تم نہاکردکھاؤ، وہ دوسیر پانی لےکر خلوت میں چلاگیا،نہاکرآیا اور کہا میں نے دوسیر پانی سے پورا غسل کرلیا ہے، ایک دوسرے کی دیانت پرانہیں پورا اعتماد تھا __________ اب پہلا شخص اگریہ کہتا ہے کہ آدمی دوسیرپانی سے نہاسکتا ہے اور یہ بھی کہتا ہے کہ فلاں شخص میرے سامنے دوسیر پانی سے نہایا توایسے موقعوں پرگفتگو کا یہ انداز غلط نہیں ہوگا، نہ اس کے پیشِ نظر یہ بات غلط ہوگی، سامنے نہانے سے یہاں اس طرح نہاکر دکھانا مراد ہے نہ یہ کہ وہ دوسرا پہلے کے سامنے برہنہ ہوا تھا اور بالکل اس کے سامنے ہی نہایا تھا، حدیث میں ایسا کوئی واقعہ آجائے تومنکرینِ حدیث اسے نہایت چھوٹی سوچ سے سوچتے ہیں اور نہیں جانتے کہ دنیا میں تجربے اور مافی الضمیر کے اظہار کے لیے عرف اور ماحول کے کتنے پیمانے استعمال ہوتے ہیں، کیا مندرجہ ذیل حدیث کو سامنے کے اس عرفی پیمانے میں نہیں سمجھا جاسکتا؟۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کے بھانجے ابوسلمہؓ اور آپ کے بھائی (رضاعی) عبداللہ بن یزید آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے، بھائی نے حضرت ام المؤمنین سے پوچھا حضورﷺ کتنے پانی سے غسل فرمالیتے تھے، آپ نے پانی منگایا جوایک صاع (ایک پیمانہ) کے مطابق ہوگا اور غسل فرمایا او راپنے اوپر سر سے پانی بہایا۔ صحیح بخاری میں یہاں صراحت سے منقول ہے کہ حضرت ام المؤمنینؓ اور ان کے بھائی اور بھانجے کے مابین پردہ تھا، اس تصریح سے بات وہیں آتی ہے جوہم کہہ چکے ہیں؛ مگرمنکرینِ حدیث ہیں کہ اس حدیث کو (اس پردے کی بحث سے یکسر جدا کرکے) نہایت تمسخر سے نہ صرف پیش کرتے ہیں؛ بلکہ اس کے حوالے سے اپنے منکرینِ حدیث ہونے پرناز کرتے ہیں: "فَسَأَلَهَا أَخُوهَا عَنْ غُسْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَعَتْ بِإِنَاءٍ نَحْوًا مِنْ صَاعٍ فَاغْتَسَلَتْ وَأَفَاضَتْ عَلَى رَأْسِهَا وَبَيْنَنَا وَبَيْنَهَا حِجَابٌ"۔ (بخاری، كِتَاب الْغُسْلِ،بَاب الْغُسْلِ بِالصَّاعِ وَنَحْوِهِ،حدیث نمبر:۲۴۳، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:پس آپ سے آپ کے بھائی نے حضورﷺ کے غسل کے بارے میں پوچھا، آپ نے ایک برتن میں پانی منگوایا جوصاع (ایک پیمانہ) کے برابر ہوگا اور اس سے غسل کیا اور اپنے سرسے پانی بہایا، ہمارے اور آپﷺ کے مابین پردہ تھا۔ منکرینِ حدیث نے حدیث کووہ مضحکہ خیز صورت دے رکھی ہے کہ کوئی انسان کسی سنجیدہ موضوع کواس بے دردی سے پامال نہیں کرتا، جو ان لوگوں نے حدیث کے بارے میں اختیار کررکھی ہے، کون نہیں جانتا کہ مباشرت ایک دوسرے سے اکٹھے ہونے اور ملنے کا نام ہے، بعض جاہل قومیں عورت سے اس کے ایام میں اتنی نفرت برتتی تھیں کہ اسے گھر کے اندر رہنے کی بھی اجازت نہ ہوتی تھی، وہ باہر خیمے میں اپنے دن گزارتی اور کوئی اس سے ہاتھ ملانے تک کے لیے تیار نہ ہوتا تھا، اسلام نے عورت کوجہاں اور بہت سی عظمتیں بخشیں وہاں اسے اس قعرِمذلت سے بھی نکالا، عورت اپنے ایام میں ہوتواس کے ہاتھ کا پکاکھانا جائز کیا، اس کے دھوئے کپڑے پاک بتلائے اور کہا کہ ماسوائے جماع کے اس سے ہرطرح مباشرت جائز ہے، ایام میں وہ کوئی ڈائن نہیں بن جاتی کہ اس سے اس قدر نفرت کی جائے۔ مباشرت کا لفظ کنایہ کے طور پر جماع کے لیے بھی آتا ہے؛ گویا اس کے حقیقی معنی نہیں اب اگر کہیں حدیث میں آگیا کہ آنحضرتﷺ ازواج کوایام میں بھی خدمت کرنے کا موقع دیتے تھے، ان سے مباشرت جائز سمجھتے توان لوگوں نے طوفان سرپراٹھالیا کہ دیکھو حدیث میں ہے حضورﷺ ایام میں بھی عورتوں سے مباشرت کرلیتے تھے، عوام بے چارے مباشرت کے معنی سے بے خبر تھے، وہ اس کے ایک خاص معنی سے ہی آشنا تھے، ان کے حلقوں میں اسی قسم کی روایات سے ان لوگوں نے ایسا طوفان کھڑا کردیا ہوتا ہے کہ جب تک عوام کواس لفظ اوران احادیث کے پورے پس منظر سے آشنا نہ کیا جائے، ان کا زنگ دھلنے نہیں پاتا۔ اس قسم کی روایات میں جماع کی صریح نفی مروی ہے؛ مگریہ لوگ اسے ذکر تک نہیں کرتے اور لفظ مباشرت کا اتنا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں کہ: الامان والحفیظ __________ کیاعلمی دیانت اسی کا نام ہے مذہب کے نام پر دھوکہ بازی کیا ان کومیراث میں ملی ہے؟ یادھوکہ منڈی کی پوری آڑھت انہی کے نام ہے __________ حدیث کے یہ الفاظ دیکھئے اور ان لوگوں کے علم ودیانت کا ماتم کیجئے: "وَكَانَ يَأْمُرُنِي فَأَتَّزِرُ فَيُبَاشِرُنِي وَأَنَاحَائِضٌ وَكَانَ يُخْرِجُ رَأْسَهُ إِلَيَّ وَهُوَمُعْتَكِفٌ فَأَغْسِلُهُ وَأَنَاحَائِضٌ"۔ (بخاری، كِتَاب الِاعْتِكَافِ،بَاب غَسْلِ الْمُعْتَكِفِ،حدیث نمبر:۲۹۰، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ: آپ مجھے حکم دیتے کہ اپنا ازار باندھے رکھوں، آپ پھرمجھے ملتے اور میں ایام میں ہوتی، آپ مسجد میں اعتکاف کی حالت میں ہوتے اپنا سرمبارک آپﷺ مسجد سے باہر (میرے حجرے کی طرف) کرتےمیں اسے دھودیتی؛ حالانکہ میں ایامِ حیض میں ہوتی تھی۔ حاصلِ کلام یہ ہے کہ عورت کے ہاتھ اگرصاف ہوں تووہ اپنے ایام میں کپڑے تک بھی دھوسکتی ہے، آٹاگوندھ سکتی ہے، نہلاسکتی ہے اور اس کے ساتھ رہنا سہنا کسی طرح ممنوع نہیں؛ سوائے اس کے کہ اس خاص معنی میں اس سے مباشرت جائز نہیں۔ راقم الحروف نہایت دُکھے دل سے یہ بات نقل کرتا ہے کہ پاکستان ضلع کیمبل پور کاایک مسلمان جویہاں (انگلینڈ میں) اولڈہم میں مقیم ہے، عیسائی پادریوں کے اس ایک حوالے سے مرتد ہوگیا (عیسائی بن گیا) کہ حضورپیغمبر اسلامؐ ایامِ حیض میں بھی ازواج سے مباشرت کرلیتے تھے __________ نہ پوری حدیث ان پادریوں کے سامنے تھی نہ اس پڑھنے والے کے سامنے، بعض اُردو رسائل سے انہوں نے یہ مضمون لیا اور منکرینِ حدیث کی اس علمی محنت سے وہ مسلمان کفر کی گود میں چلا گیا، معلوم نہیں منکرینِ حدیث کی اس قسم کی کوششوں سے کتنے مسلمان گھروں کے چراغ بجھے ہوں گے اور کتنے مسلمان اس بے علمی اور غلط فہمی میں کفر کی گود میں گرے ہوں گے۔