انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** عہد عثمانی کے قابل تذکرہ واقعات فتح اسکندریہ حضرت عثمان غنیؓ کے ابتدائی سال خلافت یعنی ۲۴ ھ میں کوئی اہم اور قابل تذکرہ واقعہ ظہور پذیر نہیں ہوا، اس جگہ ایک بات بیان کردینی ضروری ہے کہ قیصرِ روم ہرقل کا انتقال اسکندریہ کی فتح سے سات ماہ بعد قسطنطنیہ میں ہوچکا تھا، فتح بیت المقدس کے بعد ہرقل ایشیائے کوچک اورشام سے بھاگ کر قسطنطنیہ چلا گیا تھا اور جس قدر ملک مسلمانوں نے فتح کیا تھا،اُس کے واپس کرنے سے مایوس اوربقیہ علاقہ کی حفاظت کی تدبیروں میں پریشان تھا،اس کے بعد حضرت عمرو بن العاصؓ نے جب مصر پر فوج کشی کی،تو مقوش شاہِ مصر نے جزیہ کی ادائیگی پر صلح کرکے مصر و اسکندریہ اُن کے سپرد کر دیا تھا، ہر قل مصر کو اپنا صوبہ سمجھتا تھا اور مقوقش اس کا ماتحت تھا مصر پر مسلمانوں کے قابض ہونے کی خبر سُن کر ہرقل کو اور بھی صدمہ ہوا اوراسی رنج میں سات مہینے کے بعد فاروقِ اعظمؓ کے عہد خلافت میں فوت ہوا،اس کی جگہ اس کا بیٹا قسطنطین تخت نشین ہوا،قسطنطین نے اسکندریہ کے اوپر سے مسلمانوں کی سیادت اُٹھانے اور براہ راست اپنے قبضے میں لانے کے لئے ایک زبردست مہم بھیجی،رومی فوج جہازوں کے ذریعہ قسطنطنیہ سے روانہ ہوکر ساحل اسکندریہ پر اتری،اسکندریہ میں مقوقش نے رومیوں کو داخل ہونے سے روکا اوراپنے عہد پر جو وہ مسلمانوں سے کرچکا تھا قائم رہا۔ مسلمانوں کو رومیوں کے اس حملہ کی اطلاع ہوئی،تو وہ فسطاط (قاہرہ) سے نکلے ادھر سے رومی اسکندریہ کو چھوڑ کر اسلامی چھاؤنی کی طرف متوجہ ہوئے،راستے ہی میں مقابلہ ہوا بڑی سخت لڑائی ہوئی رومی فوج کا سپہ سالار اعظم ماراگیا، اوربہت سے رومی میدان جنگ میں کھیت رہے جو بچے انہوں نے بہ مشکل فرار اوراپنی کشتیوں پر سوار ہوکر قسطنطنیہ کی راہ لی،حضرت عمرو بن العاصؓ نے رومیوں کو بھگا کر اسکندریہ اورنواحِ اسکندریہ کے باشندوں کے تمام اُن نقصانات کی تحقیق کرائی جو رومی فوج کے ذریعہ ہوا تھا،اُن تمام نقصانات کو عمرو بن العاص نے پورا کیا؛ کیونکہ وہ ذمیوں کی حفاظت اوراُن کو نقصانات سے بچانے کا ذمہ دار اپنے آپ کو سمجھتے تھے،اس کے بعد حضرت عمرو بن العاصؓ نے شہر اسکندریہ کی شہر پناہ کو منہدم کیا اوراپنی چھاؤنی فسطاط کو واپس چلے آئے،اسکندریہ کی شہر پناہ کو منہدم کرانا اس لئے ضروری تھا کہ رومیوں کے حملہ آور ہونے اوراسکندریہ پر قابض ہوجانے کا خطرہ دور ہوجائے ،یہ واقعہ ۲۵ھ کی ابتداء کا ہے۔