انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** خلفائے راشدین حضرت ابو بکر صدیق ؓ ۱۔اللہ سے ڈرنے والا ہی (ہر خوف سے) امن میں ہوتا ہے اور(ہرشر اورمصیبت سے)محفوظ ہوتا ہے۔ (الترغیب والترھیب:۴/۱۵) ۲۔اللہ تعالی کی طرف سے (انسانوں کے ذمہ)دن میں کچھ ایسے عمل ہیں جن کو وہ رات میں قبول نہیں کرتے ہیں اور ایسے ہی اللہ کی طرف سے (انسانوں کے ذمہ) رات میں کچھ عمل ایسے ہیں جن کو وہ دن میں قبول نہیں کرتے اور جب تک فرض ادا نہ کیا جائے اس وقت تک اللہ نفل قبول نہیں فرماتے،دنیا میں حق کا اتباع کرنے اورحق کو بڑا سمجھنے کی وجہ سے ہی قیامت کے دن اعمال کا ترازو بھاری ہوگا۔ (حیاۃ الصحابۃ:۲/۱۵۲،۱۵۶) ۳۔کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالی جہاں سختی اور تنگی کی آیت ذکر کرتے ہیں وہاں اس کے قریب ہی نرمی اور وسعت کی آیت بھی ذکر کرتے ہیں اور جہاں نرمی اور وسعت کی آیت ذکر کرتے ہیں وہاں اس کے قریب ہی سختی اور تنگی کی آیت بھی ذکر کرتے ہیں تاکہ مو من کے دل میں رغبت اور ڈر دونوں ہوں اور وہ (بے خوف ہوکر)اللہ سے نا حق تمنائیں نہ کرنے لگے اور(ناامید ہوکر)خودکو ہلاکت میں نہ ڈال لے۔ (حیاۃ الصحابۃ:۲/۴۸۰) ۴۔اپنے ہرکام میں اللہ سے ڈرتے رہنا چاہیے وہ کام چھپ کر کرو یا سب کے سامنے،اللہ سے شرم کرتے رہنا ؛کیونکہ وہ تمہیں اور تمہارے تمام کاموں کو دیکھتا ہے۔ (تاریخ الطبری:۴/۲۹) ۵۔لوگوں کی اندر کی باتوں کو ہرگز نہ کھولنا ؛بلکہ ان کے ظاہری اعمال پر اکتفاء کرلینا اوراپنے کام میں پوری محنت کرنا اوردشمن سے مقابلہ کے وقت جم کر لڑنا اور بزدل نہ بننا(اور مال غنیمت میں اگر خیانت ہونے لگے تو اس )خیانت کو جلدی سے آگے بڑھ کر روک دینا۔ (تاریخ الطبری:۴/۲۹) ۶۔ظاہر اورباطن میں اللہ سے ڈرتے رہو؛کیونکہ جو اللہ سے ڈرے گا اللہ اس کے لئے (ہر مشکل،پریشانی اورسختی سے)نکلنے کا راستہ ضروربنادے گا اور اس کو وہاں سے روزی دے گا جہاں سے روزی ملنے کا گمان بھی نہ ہوگا اور جو اللہ سے ڈرے گا اللہ اس کی برائیاں دور کردے گا اوراسے بڑا اجردے گا۔ (تاریخ الطبری:۴/۲۹) ۷۔جب کوئی آدمی امیر بنتا ہے اور لوگ ایک دوسرے پر ظلم کرتے ہیں اور یہ امیر ظالم سے مظلوم کا بدلہ نہیں لیتا ہے تو پھر ایسے امیر سے اللہ بدلہ لیتا ہے جیسے تم میں سے کسی آدمی کے پڑوسی کی بکری ظلماً پکڑلی جاتی ہے تو سارادن اس پڑوسی کی حمایت میں غصہ کی وجہ سے اس کی رگیں پھولی رہتی ہیں،ایسے ہی اللہ تعالی بھی اپنے پڑوسی کی پوری حمایت کرتے ہیں۔ (حیاۃ الصحابۃ:۲/۸۳،۸۴) ۸۔جب کچھ لوگ ایسے لوگوں کے سامنے گناہ کے کام کریں جو ان سے زیادہ طاقتور اور بااثر ہوں اور وہ انہیں ان برے کاموں سے نہ روکیں تو ان سب پر اللہ تعالی ایسا عذاب نازل فرمائیں گے جسے ان سے نہیں ہٹائیں گے۔ (حیاۃ الصحابۃ:۲/۸۱۰،۸۱۱) ۹۔سب سے بڑی عقلمندی تقویٰ ہے اور سب سے بڑی حماقت فسق وفجور ہے اورجو تم لوگوں میں سب سے زیادہ طاقتور ہے (اوروہ طاقت کے زور سے کمزوروں کے حق دبالیتا ہے)وہ میرے نزدیک کمزور ہے میں کمزور کو اس طاقتور سے اس کا حق دلواکر رہوں گا اور جو تم میں سب سے زیادہ کمزور ہے (جس کے حق طاقتوروں نے دبا رکھے ہیں)وہ میرے نزدیک طاقتور ہے میں اس کے حق طاقتوروں سے ضرور لے کر دوں گا۔ ۱۰۔جو قوم جہاد فی سبیل اللہ چھوڑدے گی ان پر اللہ تعالی فقر مسلط کردیں گے اور جس قوم میں بے حیائی عام ہوجائے گی اللہ تعالیٰ ان سب پر مصیبت بھیجیں گے۔ (حیاۃ الصحابۃ:۳/۴۶۰) ۱۱۔جب تک موت نے مہلت دے رکھی ہے اس وقت تک تم لوگ نیک اعمال میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو اس سے پہلے کہ موت آجائے اور عمل کرنے کا موقع نہ رہے۔ (اخرجہ الطبرانی فی تاریخہ:۲/۴۶۰،حیاۃ الصحابۃ:۳/۴۶۳،۴۶۴) ۱۲۔اس قول میں کوئی خیر نہیں جس سے اللہ کی رضا مقصود نہ ہو اور اس مال میں کوئی خیر نہیں جسے اللہ کے راستہ میں خرچ نہ کیا جائے اور اس آدمی میں کوئی خیر نہیں جس کی نادانی اس کی برد باری پر غالب ہو اور اس آدمی میں کوئی خیر نہیں جو اللہ کے معاملے میں ملامت کرنے والوں کی ملامت سے ڈرے،یعنی وہاں تو خیر اورشر کا معیار بندے کے اعمال ہیں۔ (تفسیر ابن کثیر:۴/۳۴۲) ۱۳۔اللہ تعالی کے اور اس کی کسی مخلوق کے درمیان کوئی ایسا نسب کا رشتہ نہیں ہے جس کی وجہ سے اللہ اسے خیر دے اور اس سے برائی کو دور کرے۔ (حیاۃ الصحابۃ:۳/۴۶۶) ۱۴۔اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے! اگرتم تقویٰ اورپاکدامنی اختیار کروتو تھوڑا عرصہ ہی گزرےگا کہ تمہیں پیٹ بھر کر روٹی اور گھی ملنے لگے گا۔ (حیاۃ الصحابۃ:۳/۴۷۰) ۱۵۔اللہ سے معافی بھی مانگو اور عافیت بھی؛کیونکہ کسی آدمی کو ایمان ویقین کے بعد عافیت سے بہتر کوئی نعمت نہیں دی گئی یعنی سب سے بڑی نعمت تو ایمان ویقین ہےاور اس کے بعد عافیت ہے۔ (حیاۃ الصحابۃ:۳/۱۷۴) ۱۶۔سچ کو لازم پکڑے رہو کیونکہ سچ بولنے سے آدمی نیک اعمال تک پہنچ جاتا ہے ،سچ اور نیک اعمال جنت میں لے جاتے ہیں اور جھوٹ سے بچو کیونکہ جھوٹ بولنے سے آدمی فسق وفجور تک پہنچ جاتا ہے اورجھوٹ اور فسق وفجور دوزخ میں لے جاتے ہیں۔ (حیاۃ الصحابۃ:۳/۴۷۱) ۱۷۔صدقہ فقیر کے سامنے عاجزی سے باادب پیش کر؛کیونکہ خوشدلی سے صدقہ دینا قبولیت کا نشان ہے۔ ۱۸۔عبادت ایک پیشہ ہے،دکان اس کی خلوت ہے،راس المال اس کا تقویٰ ہے اورنفع اس کا جنت ہے۔ ۱۹۔شرم مردوں سے خوب ہے مگر عورتوں سے خوب تر ہے،توبہ بوڑھے سے خوب اور جوان سے خوب تر ہے،سخاوت مالدار سے خوب ہے ؛لیکن محتاج سے خوب تر ہے، جوان کا گناہ بد ہے؛ لیکن بوڑھے کا بد تر ہے۔ ۲۰۔اللہ تعالی کی عبادت کی سستی عام لوگوں سے بد ہے،لیکن عالموں اورطالب علموں سے بدتر ہے۔ ۲۱۔صبح خیزی میں مرغان سحر کا سبقت لے جانا تیرے لئے باعث ندامت ہے۔ ۲۲۔لوگوں سے تکلیف کو دور کرکے خود اٹھا لینا حقیقی سخاوت ہے۔ ۲۳۔جاہ وعزت سے بھاگو تو عزت تمہارے پیچھے پھرےگی اور موت پر دلیر رہو ؛تاکہ تمہیں ابدی زندگی بخشی جائے۔ ۲۴۔شکر گزار مومن عافیت سے قریب تر ہے۔ ۲۵۔بد بخت انسان وہ ہے جو خود تو مرجائے لیکن اس کا گناہ نہ مرے،یعنی کوئی بری بات جاری کرجائے۔براعمل جاری کرجائے یابری کتاب کی اشاعت کرجائے۔ (مخزن اخلاق :۶۶،۶۸) (۱)یہ بات ناممکن ہے کہ دولت مندی خواہشات سے ، جوانی خضاب سے ،اور صحت دواؤں سے حاصل ہوجائے(یعنی محض تمناؤں اور آرزوؤں سے کوئی شخص مالدار نہیں بن جاتا، اسی طرح بالوں کو سیاہ کرکے اپنی کھوئی جوانی حاصل نہیں کرسکتا ، اور جب صحت ایک مرتبہ تباہ ہوجاتی ہے تو دواؤں سے اسے مکمل طور پر واپس نہیں لایا جاسکتا ہے)۔ (۲)دنیا کی محبت ایک اندھیرا ہے اور تقویٰ اس اندھیرے کے لئے بمنزلۂ چراغ ہے، گناہ ایک اندھیرا ہے اور توبہ اس کا چراغ ہے ، قبر ایک اندھیرا ہے اور کلمۂ طیبہ اس کا چراغ ہے ، آخرت اندھیری ہے اور اعمالِ صالحہ اس کا چراغ ہے ، اور پل صراط اندھیرا ہے اور یقین اس کا چراغ ہے ۔ (۳)ابلیس ترکِ دین کی دعوت دیتا ہے ، خواہشات شہوت کی طرف دعوت دیتے ہیں، دنیا اپنے سے محبت اور اپنے کو اختیار کرنے کی دعوت دیتی ہے ، اعضاء گناہوں پر انہیں استعمال کرنے کی دعوت دیتے ہیں ، نفس معصیت کی طرف دعوت دیتاہے اور اللہ تعالیٰ جنت و مغفرت کی طرف دعوت دیتا ہے "واللہ یدعو الی الجنۃوالمغفرۃ " ؛ پس جس شخص نے ابلیس کی بات مان لی اس کا دین غارت ہوگیا ، جس نے خواہشات کی اتباع کرلی اس کی عقل برباد ہوگئی ، جس نے دنیا کی دعوت قبول کرلی اس کی آخرت ہاتھ سے نکل گئی ، جس نے اعضاءکا کہا مان لیا وہ جنت سے محروم ہوا ، جس نے نفس کی دعوت تسلیم کرلی اس کی روح خراب ہوگئی اور جس نے اللہ کے بلاوے کی طرف چلنا شروع کردیا تو اس کے گناہ مٹ گئے اور خیر و خوبی کا مستحق قرار پایا ۔ (۴)پاکدامنی فقیری کی زینت ہے ، شکر نعمت کی زینت ہے ، خشوع و خضوع نماز کی زینت ہے ، صبر بلا کی زینت ہے ، وقار علم کی زینت ہے ، عاجزی طالبِ ِ علم کی زینت ہے کثرتِ گریہ صفتِ خوف کی زینت ہے اور احسان نہ جتانا احسان کی زینت ہے ۔ (۵)اللہ تعالیٰ نے جس شخص کو یہ دس خصلتیں عطا فرمائیں وہ تمام آفات اور مصائب سے نجات پاجاتا ہے اور متقین و اولیاء کے درجات کو پہونچایاجاتا ہے : ہمیشہ سچ بولنا اور اس کے ساتھ قناعت پسند دل کا ہونا، اچھی طرح صبر کرنا اور اس کے ساتھ ہمیشہ شکر گزار رہنا ، معاش کی مسلسل تنگی اور اس کے ساتھ دنیا سے بے نیازرہنا ، ہمیشہ فکرِ دین میں رہنا اور اس کے ساتھ فاقہ کا بوجھ اٹھانا ، ہمیشہ غمگین رہنا اور اس کے ساتھ ہی اللہ سے ڈرتے رہنا ، مستقل مجاہدہ کرتے رہنا اور اس کے ساتھ متواضع جسم والا ہونا ، ہمیشہ نرم خو رہنا اور اس کے ساتھ ہی رحم و کرم کا جذبہ ہونا ، محبتِ الٰہی میں سرشار رہنا اور ساتھ ہی پوری حیا ءکا مظاہرہ کرنا ، علم پر عمل کرتے رہنا اور برد باری و حلم کو قائم رکھنا ، ایمان پر ثبات کے ساتھ عقل کا کمال حاصل ہونا ۔ (۶)اےلوگو! اللہ سے معافی اور عافیت کے خواستگار رہو کیونکہ اسلام کے بعد مؤمن کے لئے مغفرت اور عافیت سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں. (۷)کوئی مسلمان کسی مسلمان کو حقیر نہ جانے کیونکہ مسلمان اللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑی شان والا ہے ۔ (۸)جسے یہ پسند ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ قیامت میں نارِ جہنم سے محفوظ رکھے اسے مسلمان پر رحم کرنا ضروری ہے. (۹)سب سے بڑی سمجھداری تقویٰ ہے ، اور اعلیٰ درجہ کی حماقت فسق و فجور ہے ، اور امانت بہت بڑی سچائی ہے ، اور بدترین جھوٹ خیانت ہے۔ (۱۰)ہم نے بزرگی تقویٰ میں اور مالداری یقین میں اور عزت تواضع میں پایا ۔