انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت ابو جندلؓ بن سہیل نام ونسب عاص نام،ابو جندل کنیت ،نسب نامہ یہ ہے، ابو جندل بن سہیل بن عمرو بن عبد شمس بن عبدود بن نصر ابن مالک بن حل بن عامر بن لوئی قرشی عامری اسلام اور قید محن ابو جندل اس وقت مشرف باسلام ہوئے،جب ان کا گھر اسلام دشمنی سے تیرہ وتار ہورہا تھا،ان کے والد سہیل نے اسلام کے جرم میں ان کے پیروں میں بیڑیاں ڈال کر قید کردیا، اور وہ کئی برس تک اس قید محن میں گرفتار رہے،۶ھ میں صلحِ حدیبیہ کے موقع پر ان کے والد سہیل قریش کی جانب سے معاہدہ صلح لکھانے کے لیے آئے،جب معاہدہ کی کتابت شروع ہوئی اور یہ دفعہ زیر بحث تھی کہ "قریش کا جو آدمی بھی خواہ وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہو مسلمانوں کے پاس چلا آئے گاتو مسلمان اس کے واپس کرنے پر مجبور ہوں گے، ابھی اس پر بحث ہورہی تھی، اورقلم بند نہ ہوئی تھی کہ ،ابو جندل جو کسی طرح موقع پاکر نکل آئے تھے،بیڑیاں پہنے ہوئے پہنچ گئے اور اپنے کو مسلمانوں کےسامنے ڈال دیا،سہیل نے کہا محمد شرائط صلح پورا کرنے کا یہ پہلا موقع ہے،آپ نے فرمایا،ابھی صلحنامہ مکمل نہیں ہوا ہے،سہیل نے کہا اگر ابو جندل واپس نہ کئے گئے تو پھر ہم کو کسی شرط پر صلح منظور نہیں آپ نے فرمایا،ابو جندل کو یہیں رہنے دو،سہیل نے کہا یہ نہیں ہوسکتا،آپ نے بہت اصرار کیا،لیکن سہیل کسی طرح ابو جندل کو مسلمانوں کے پاس چھوڑ نے پر آمادہ نہ ہوا، آنحضرتﷺ کو معاہدہ کی پابندی کا بڑا خیال تھا، اس لیے سہیل کے اصرار پر ابو جندل کو حوالہ کرنے کے لیے آمادہ ہوگئے، ابو جندل کو کافروں نے اتنا مارا تھا کہ ان کے بدن پر نشان پڑگئے تھے،جب انہوں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ انہیں واپس کردیں گے،تو مجمع کو مار کے نشانات دکھا کر فریاد کی کہ مسلمانو،پھر مجھے کفار کا نشانہ ،ستم بنانے اوراس مصیبت میں مبتلا رہنے کے لیے کافروں کے حوالہ کیے دیتےہو،ان کی فریاد پر حضرت عمرؓ بہت متاثر ہوئے ،آنحضرتﷺ سے عرض کیاکیا آپ پیغمبر برحق نہیں ہیں؟ فرمایا بیشک ہوں پھر پوچھا کیا ہم حق پر اور ہمارے دشمن باطل پر نہیں ہیں؟ فرمایا بیشک ہیں ، عرض کیا پھر ہم کیوں دب کر صلح کریں، آپ نے فرمایا میں خدا کا پیغمبر ہوں اوراس کے حکم کی نافرمانی نہیں کرسکتا، وہی میرا مدد گار ہے۔ (بخاری باب الشروط والمصالحہ مع اہل الحرب) غرض اسی طرح ابو جندل کو پابجولاں واپس کردیا، ابو جندل پھر فریاد کی کہ مسلمانو!کیا میرے مذہب میں رخنہ ڈلوانے کے لیے مجھے قریش کے حوالہ کرتے ہو، آنحضرتﷺ نے ان کی دلدہی کی کہ " ابو جندل صبر و ضبط سے کام لو، خدا تمہارے اور دوسرے مظلوم مسلمانوں کے لیے کوئی راستہ پیدا کریگا، ہم صلح کرچکے اورصلح کے بعد ان سے بد عہدی نہیں کرسکتے۔ رہائی اورغزوات اس ارشاد کے بعد مزید چوں وچرا کی گنجایش نہ تھی؛چنانچہ ابو جندل خاموشی کے ساتھ چلے گئے اورکچھ دنوں بعد کسی طرح قید سے چھوٹ کر ابو بصیر کی حمایت میں شریک ہوگئے،اور عرصہ تک ان کے ساتھ رہے، (دیکھو حالات ابو بصیر) پھر جب کفار مکہ نے صلح حدیبیہ کی وہ دفعہ جس کی رو سے ابو جندل واپس کئے گئے تھے واپس لے لی تو آنحضرتﷺ نے ابو جندل اور ان کے ساتھی ابو بصیر کو مدینہ بلا بھیجا،ابو بصیر کو مدینہ آنے کی نوبت نہیں آئی اور وہ اسی وادیِ غربت میں پیوندِ خاک ہوگئے ابو جندل مدینہ واپس ہوئے،مدینہ آنے کے بعد جس قدر غزوات ہوئے، سب میں شرکت کی سعادت حاصل کی۔ (استیعاب،جلد۲،تذکرۂ ابو جندل وابو بصیر) شام کی فوج کشی میں شرکت اوروفات آنحضرتﷺ کی زندگی بھر مدینہ میں رہے، اس کے بعد حضرت عمرؓ کے زمانہ میں جب شام پر فوج کشی ہوئی،تو اس میں مجاہدانہ شرکت کی اور پانچ چھ سال تک مسلسل جہاد فی سبیل اللہ میں مشغول رہ کر حضرت عمرؓ کے عہد خلافت ۱۸ ھ میں طاعون کی وبا میں عمواس میں وفات پائی۔ (اسد الغابہ:۵/۱۵۵) فضل وکمال فضل وکمال میں شاعری کے علاوہ اورکوئی شئے قابلِ ذکر نہیں ہے،حافظ ابن عبدالبر نے ان کے اشعار نقل کئے ہیں۔