انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** استاذ شاگردوں کوبھی سوال کا موقع دے آنحضرتﷺ جب کوئی حدیث بیان کرتے توصحابہؓ بعض اوقات درمیان میں سوال کرتے اور حضورﷺ انہیں جواب بھی دیتے، اس میں حضورﷺ کا طریقہ یہ تھا کہ پہلے اپنی بات کومکمل فرمالیتے اور پھرسوال کاجواب دیتے، سوال اس حدیث کے متعلق نہ بھی ہوتوبھی آپ اس کا جواب دیتے، امام بخاریؒ نے اس پر ایک مستقل باب باندھا ہے: "من سئل علماً وھومشتغل بحدیثہ فاتم الحدیث ثم اجاب السائل"۔ (صحیح بخاری:۱/۲۲) ترجمہ: جس سے علم کی کوئی بات پوچھی جائے اور وہ اپنے ہاں کوئی حدیث بیان کررہا ہوتو پہلے وہ حدیث پوری کرے پھر مسائل کا جواب دے۔ حافظ بدرالدین العینی لکھتے ہیں: "يجب على العالم أن يؤوي المتعلم لقوله فآواه اللہ" (عمدۃ القاری:۲/۳۴) ترجمہ: عالم پر واجب ہے کہ شاگرد کو موقع دے سواس کو مطمئن کرے۔ شیخ الاسلام فرماتے ہیں: اگرگوئی شخص سوال کربیٹھے تودیکھا جائے گا کہ اہلِ مجلس کا نقصان تونہیں؛ اگراہلِ مجلس کاکوئی نقصان نہ ہوتوجواب فوراً بھی دیاجاسکتا ہے اور اگرحارج ہوتو جواب مؤخر کیا جاسکتا ہے؛ پھرسوال کی نوعیت بھی دیکھی جاتی ہے کہ وہ ضروری ہے یاغیرضروری اور اگرکوئی اہم معاملہ ہو یاکسی بنیادی عقیدہ سے متعلق ہو تو اس میں تاخیر کی قطعاً گنجائش نہیں ہوتی۔ (بخاری:۱/۲۲) صحابہؓ کا آنحضرتﷺ سے دورانِ حدیث اور بعد اتمام حدیث موضوع سے متعلق اور اس سے مختلف سوالات کرنا اور آنحضرتﷺ کا جواب دینا متعدد احادیث سے ثابت ہے، تلامذہ کی طرف سے بعض اوقات ایسے سوالات بھی آجاتے ہیں جوطبعاً ناگوار ہوں؛ کبھی بے وقت اور ناموزوں قسم کے استفسارات کی نوبت بھی آجاتی ہے؛ ایسی صورت میں انہیں چپ کرانا اور بعض اوقات زجروتشدد سے کام لینا بھی ضروری ہوتا ہے، استاد کوایسے موقعوں پر حالات کی مناسبت سے صورت عمل اختیار کرنے کی پوری گنجائش ہے؛ لیکن یہ ضروری ہے کہ طلبہ کا فائدہ اور حدیث کا احترام اپنی جگہ پورا قائم رہے اور علم وتحقیق کا حق بھی اپنی جگہ ادا ہوسکے؛ اگرکوئی استاد طلبہ کواس لیے سوال سے روکے کہ اس کی اپنی تیاری مکمل نہ تھی تووہ اس مسند کے لائق نہیں ہے۔ یہ بات تواساتذہ کے لیے تھی؛ جہاں تک طلبہ کا تعلق ہے انہیں بھی پوری توجہ سے استاد کی طرف متوجہ رہنا چاہیے؛ ضروری سوالات سے ہرگز نہ رکنا چاہئے طلبہ کے لیے سوال کرنے سے حجاب کرنا ان کی تعلیم میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اوراگر اس لیے سوال نہ کرے کہ استاذ کوشاگرد کی جہالت معلوم نہ ہوجائے اور وہ یہ نہ کہے کہ یہ اتنی بات بھی نہیں جانتا تویہ ایک طرح کا تکبر اور اپنے کوبے وجہ بڑا بنانے کی ایک تمنا ہے، سوال کرنے سے حجاب کرنیوالا اور اپنے آپ کو (اپنے اصل پیمانے سے) بڑا ظاہر کرنیوالا کبھی علم حاصل نہیں کرسکتا؛ تابعی کبیر حضرت مجاہد (۱۰۰ھ) فرماتے ہیں: "لایتعلم العلم مستحی ولامستکبر"۔ (عمدۃ القاری:۲۸/۲۴) ترجمہ:حیاکرنے والا (سوال کرنے سے شرمانے) اور اپنے آپ کوبڑاظاہر کرنے والا کبھی علم حاصل نہیں کرسکتا۔ مردتومرد ہے دین کے بارے میں توعورتوں کوبھی سوال کرنے کا پورا حق حاصل ہے، اُم المؤمنین حضرت عائشہؓ انصار کی عورتوں کی اس لیے تعریف کیا کرتی تھیں کہ انہیں سوال کرنے میں کوئی حجاب مانع نہ ہوتا تھا، وہ برملا مسائل پوچھتی تھیں، آپ فرماتی ہیں: "نعم النساء نساء الانصار لم یکن یمنعھن الحیاء ان یسألن من الدین ویتفقھن فیہ" (فضل الباری:۱۸/۵۶۶) ترجمہ:انصار کی عورتیں بہترین عورتیں ہیں کہ دین کا علم حاصل کرنے اور دین کی سمجھ پیدا کرنے میں حیا ان کے لیے مانع نہیں ہوتی۔ اور حافظ بدرالدین العینی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: "لاينبغي لأحد أن يستحي من السؤال مما له فيه حاجة زاعما أن العلم مخصوص بقوم دون قوم بل عليه أن يسأل عن كل مالايعلمه من أمر دينه ودنياه"۔ ترجمہ: کسی کونہ چاہیے کہ اس سوال سے جس کی اسے ضرورت ہورکا رہے اور سمجھے کہ علم کسی ایک قوم کی میراث ہے دوسرے کا اس میں حق نہیں؛ بلکہ اسے چاہئے کہ جوچیز جسے وہ اپنے دین یادنیا کی جانتا ہو اس کے بارے میں سوال کرے۔