انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** شرح حدیث کا آغاز یوں توحدیث کے شرحی جملے اور تشریحی ابواب وتراجم کتب متون میں بہت پہلے آرہے تھے؛ لیکن مستقل فن کی حیثیت سے امام ابوجعفر الطحاوی (۳۲۱ھ) پہلے امام ہیں جنہوں نے متون احادیث کوشرح کا موضوع بنایا اور "شرح معانی الآثار" جیسی عظیم کتاب لکھ کر اس باب میں حجت تمام کردی آپ نے پھر"مشکل الآثار" بھی لکھی جومتقابل روایات اور مشکل روایات تطبیق وتفہیم میں نہایت نفیس کتاب ہے اور اپنے باب میں بے مثل ہے، مطبوعہ مشکل الآثار جوچار جلدوں میں ہے، اصل کتاب کے نصف کے برابر ہے، امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ کی یہ کتابیں کسی دوسرے متن پر شرح نہیں، متون احادیث کوآپ خود اپنی سند سے روایت کرتے ہیں اور ان پر اثراور نظر ہرپہلو سے کلام کرتے ہیں، آپ پہلے امام ہیں جنہوں نے اس انداز سے شرح حدیث کا آغاز کیا، اس کے بعد مؤطا امام مالک اور سنن ابی داؤد پرتحقیقی کام شروع ہوا اور متن پرشرح کے پیرایہ ہیں، کتب حدیث کی شرحیں ہونے لگیں اور یہ سلسلہ میں پھراتنی وسعت سے چلاکہ آج اسلامی کتب خانوں میں سب سے زیادہ کتابوں کا ذخیرہ شروحِ حدیث کا ہی ہے۔ ابوسلیمان الخطابی (۳۸۸ھ) نے سنن ابی داؤد پرمعالم السنن لکھی، یہ چھپ چکی ہے۔ ابنِ حزم اندلسی (۴۵۷ھ) نے المحلیٰ کے نام سے موطا کی نہایت جامع شرح آٹھ جلدوں میں لکھی، یہ بھی چھپ چکی ہے، اندلس کے ہی مایۂ ناز عالم علامہ عبدالبرالقرطبی (۴۶۳ھ) نے "التمہید لما فی الموطا من المعانی والاسانید" لکھی جس کی بارہ جلدیں وزارت اوقاف اور شؤون اسلامی مراکش کی طرف سے چھپ چکی ہیں، کتاب تقریباً بیس جلدوں میں مکمل ہوگی، مؤلف نے اس کتاب کا ایک اختصار تجرید التمہید کے نام سے خود کیا ہے، جوچھپ چکا ہے، یہ شروح بہت پہلے دور کی ہیں ان میں زیادہ ترحل الفاظ اور مشکلات اسانید پرزور دیا گیا ہے، بعد میں آنے والے شارحین اور طلبہ کے لیے یہ علمی مباحث شرح حدیث کا ابتدائی سرمایہ ہیں، ویسے لغاتِ حدیث پراس امت میں مستقل کام بھی ہوا ہے۔