انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** جنت کا افضل ترین درجہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام وسیلہ: حدیث:حضرت عمروبن العاصؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے جناب رسول اللہﷺ سے سنا آپ نے ارشاد فرمایا: إِذَاسَمِعْتُمْ الْمُؤَذِّنَ فَقُولُوا مِثْلَ مَايَقُولُ ثُمَّ صَلُّوا عَلَيَّ فَإِنَّهُ مَنْ صَلَّى عَلَيَّ صَلَاةً صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ بِهَا عَشْرًا ثُمَّ سَلُوا اللَّهَ لِي الْوَسِيلَةَ فَإِنَّهَا مَنْزِلَةٌ فِي الْجَنَّةِ لَاتَنْبَغِي إِلَّالِعَبْدٍ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ وَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَنَاهُوَفَمَنْ سَأَلَ لِي الْوَسِيلَةَ حَلَّتْ لَهُ الشَّفَاعَةُ۔ (مسلم،كِتَاب الصَّلَاةِ،بَاب اسْتِحْبَابِ الْقَوْلِ مِثْلِ قَوْلِ الْمُؤَذِّنِ لِمَنْ سَمِعَهُ ثُمَّ يُصَلِّي،حدیث نمبر:۵۷۷، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:جب تم مؤذن سے (اذان) سنو توویسے ہی جواب دوجیسے وہ (اذان)کہے؛ پھرمجھ پردرود بھیجو؛ کیونکہ جوشخص مجھ پرایک مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالی اس پردس رحمتیں نازل فرماتے ہیں؛ پھرمیرے لیے وسیلہ کا سوال کرو؛ کیونکہ یہ جنت میں ایسا درجہ ہے جواللہ کے بندوں میں سے صرف ایک بندہ کوحاصل ہوگا اور مجھے اُمید ہے کہ وہ (بندہ) میں ہوں گا؛ پس جس شخص نے میرے لیے وسیلہ کی دعا کی اس کے لیے (میری) شفاعت ثابت ہوگئی۔ وسیلہ کی دعا یہ ہے: حدیث:حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا جواذان سننے کے بعد یوں کہے: اللَّهُمَّ رَبَّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ وَالصَّلَاةِ الْقَائِمَةِ آتِ مُحَمَّدًا الْوَسِيلَةَ وَالْفَضِيلَةَ وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَحْمُودًا الَّذِي وَعَدْتَهُ۔ (بخاری، كِتَاب الْأَذَانِ،بَاب الدُّعَاءِ عِنْدَ النِّدَاءِ،حدیث نمبر:۵۷۹، شاملہ، موقع الإسلام) توقیامت کے دن اس کے لیے شفاعت لازم ہوجاتی ہے (مقامِ محمود سے شفاعت عظمیٰ مراد ہے)۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا دیوانہ حضور کے ساتھ: حدیث:حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک شحص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا یارسول اللہ! اللہ کی قسم! آپ مجھے میری جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں، آپ مجھے گھروالوں سے بھی زیادہ عزیز ہیں، آپ مجھے میری اولاد سے بھی زیادہ عزیز ہیں اور فلاں چیز سے بھی زیادہ عزیز ہیں، میں اپنے گھر میں بیٹھا ہوا تھا؛ پھرمیں نے آپ کو یاد کیا اور صبرنہ ہوسکا توآپ کے پاس چلا آیا اور آپ کی زیارت کرلی؛ لیکن جب میں اپنی موت اور آپ کی وفات کویاد کرتا ہوں تومجھے معلوم ہوتا ہے کہ آپ جب جنت میں داخل ہوں گے توآپ کوانبیاء کرام علیہم السلام کی منازل جنت میں فائز کیا جائے گا اور میں جب جنت میں داخل ہوں گا تومجھے ڈر ہے کہ آپ کی زیارت سے شرف باز نہیں ہوسکوں گا (توآنحضرتﷺ نے اس کی یہ بات سن کر) اس کوکوئی جواب نہ دیا؛ حتی کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام یہ آیت لے کرنازل ہوئے: وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا۔ (النساء:۶۹) ترجمہ:اور جوشخص اللہ اور رسول کی تابعداری کرےگا توایسے اشخاص بھی ان حضرات کے ساتھ ہوں گے جن پراللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا ہے، یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صلحاء اور یہ حضرات بہت اچھے رفیق ہے۔ (بخاری:۶۱۴، فی الاذان۔ مسلم:۳۸۴۔ ابوداؤد:۵۲۹) فائدہ:حضورﷺکے جنت کے درجہ کووسیلہ اس لیے کہا گیا ہے کیونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے عرش کے قریب ترین درجات میں سے ہے اور ہاں لغت میں وسیلہ کا لفظ قرب کے معنی سے مشتق ہے۔ (حادی الارواح:۱۱۷) ادنی جنتی کے منازل اور درجات: حدیث:حضرت مغیرہ بن شعبہؓ نے جناب نبی کریمﷺ سے روایت کیا ہے: إن موسى سأل ربه:ما أدنى أهل الجنة منزلةً؟ فقال:رجل قد يجيء بعدما دخل أهلُ الجنة الجنة, فيقال له:أدخل الجنة, فيقول:ربّ كيف وقد نزل الناس منازلهم، وأخذوا أخذاتهم؟ فيقال له: أترضى أن يكون لك مثل ملكٍ من ملوك الدنيا؟ فيقول: رضيت ربّ, فيقول له:لك ذلك,ومثله ومثله ومثله ومثله, فقال في الخامسة :رضيت ربّ، فيقول:هذا لك، وعشرة ُأمثاله، ولك ما اشتهت نفسك، ولذت عينُك، فيقول: رضيت ربّ قال(موسى): ربّ فأعلاهم منزلةً؟ قال: أولئك الذين أردت, غرست كرامتهم بيدي،وختمت عليها، فلم ترعينٌ، ولم تسمع أذنٌ، ولم يخطر على قلب بشر۔ (مسلم:۱۸۹۔ صفۃ الجنۃ ابن کثیر:۴۱۔ حادی الارواح:۲۰۷) ترجمہ:حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے پروردگار سے سوا ل کیا کہ جنت میں سب سے ادنیٰ درجہ کا کونسا جنتی ہوگا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا وہ شخص جوجنتیوں کے جنت میں داخل ہوجانے کے بعد پیش ہوگا اس کوحکم ہوگا کہ توبھی جنت میں داخل ہوجا، وہ عرض کرےگا یارب کس طرح جب کہ لوگ اپنی اپنی منازل تک پہنچ گئے ہیں اور اپنے اپنے انعامات اور مقامات حاصل کرچکے ہیں؟ اس سے کہا جاے گا کیا تواس پرراضی ہے کہ تجھے دنیا کے بادشاہوں میں سے کسی ایک بادشاہ کی سلطنت کے برابرجنت دیدی جائے؟ وہ عرض کرے، اے رب! میں راضی ہوں؛ پھراللہ تعالیٰ اس سے فرمائیں گے تمھیں یہ بھی دیا اور اتنا اور، اور اتنا اور، اور اتنا اور، اوراتنا اور (جب اللہ تعالیٰ پانچویں مثل کافرمائیں گے) تووہ بول اٹھے گا یارب میں راضی ہوگیا، اللہ تعالیٰ فرمائیں گے (جا) یہ سب تیرے لیے ہے اور اس کا دس گنا مزید بھی اور تیرے لیے وہ بھی ہے جوتیرا دل چاہے اور تیری آنکھوں کولذت پہنچے، وہ عرض کریگا میں راضی ہوگیا (میں راضی ہوگیا) حضرت موسی علیہ السلام نے عرض کیا: اے رب! ان جنتیوں میں سے اعلیٰ درجہ کا کون ہوگا؟ ارشاد فرمایا وہ لوگ جومیری مراد ہیں جن کومیں نے چاہا ہے اور ان کی عزت وشان میں اضافہ کے لیے میں نے اپنے ہاتھوں سے باغات سجائے ہیں اور ان پر (ان مستحقین کے لیے تقسیم کرے) مہریں لگادی ہیں جن کونہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ ہی کسی انسان کے دل سے اس کا کوئی خیال گذرا ہے۔ ادنی جنتی اپنی جنت کوہزار سال کی مسافت سے دیکھے گا: حدث:حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: إِنَّ أَدْنَى أَهْلِ الْجَنَّةِ مَنْزِلَةً لَمَنْ يَنْظُرُ إِلَى جِنَانِهِ وَأَزْوَاجِهِ وَنَعِيمِهِ وَخَدَمِهِ وَسُرُرِهِ مَسِيرَةَ أَلْفِ سَنَةٍ وَأَكْرَمَهُمْ عَلَى اللَّهِ مَنْ يَنْظُرُ إِلَى وَجْهِهِ غَدْوَةً وَعَشِيَّةً ثُمَّ قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ﴿ وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ﴾ ۔ (ترمذی، كِتَاب صِفَةِ الْجَنَّةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،بَاب مِنْهُ،حدیث نمبر:۲۴۷۶، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:ادنی درجہ کا جنتی وہ ہوگا جواپنے باغات کو،اپنی بیویوں کو، اپنی نعمتوں کو، اپنے خدمتگاروں کواور اپنے حجلہ ہائے عروسی اور شاہی تختوں کوایک ہزار سال کی مسافت تک دیکھے گا اور ان میں سے اعلیٰ درجہ کا وہ جنتی ہوگا جواللہ تعالیٰ کے رخ انور کوصبح شام دیکھتا ہو (اور سب سے اعلیٰ درجہ پروہ جنتی ہوگا جو جب چاہے گا اللہ تعالیٰ کا دیدار کرسکے گا) پھرجناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی (ترجمہ) اس دن کچھ چہرے (جنت کی نعمتوں سے) تروتازہ ہوں گے، اپنے پروردگار کا دیدار کرتے ہوں گے۔ ادنی جنتی کی جاہ وحشمت اور قدرومنزلت: حدیث:حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: إِنَّ أَدْنَى أَهْلِ الْجَنَّةِ مَنْزِلَةً إِنَّ لَهُ لَسَبْعَ دَرَجَاتٍ وَهُوَعَلَى السَّادِسَةِ وَفَوْقَهُ السَّابِعَةُ وَإِنَّ لَهُ لَثَلَاثَ مِائَةِ خَادِمٍ وَيُغْدَى عَلَيْهِ وَيُرَاحُ كُلَّ يَوْمٍ ثَلَاثُ مِائَةِ صَحْفَةٍ وَلَا أَعْلَمُهُ إِلَّا قَالَ مِنْ ذَهَبٍ فِي كُلِّ صَحْفَةٍ لَوْنٌ لَيْسَ فِي الْأُخْرَى وَإِنَّهُ لَيَلَذُّ أَوَّلَهُ كَمَا يَلَذُّ آخِرَهُ وَإِنَّهُ لَيَقُولُ يَارَبِّ لَوْأَذِنْتَ لِي لَأَطْعَمْتُ أَهْلَ الْجَنَّةِ وَسَقَيْتُهُمْ لَمْ يَنْقُصْ مِمَّا عِنْدِي شَيْءٌ وَإِنَّ لَهُ مِنْ الْحُورِ الْعِينِ لَاثْنَيْنِ وَسَبْعِينَ زَوْجَةً سِوَى أَزْوَاجِهِ مِنْ الدُّنْيَا وَإِنَّ الْوَاحِدَةَ مِنْهُنَّ لَيَأْخُذُ مَقْعَدُهَا قَدْرَ مِيلٍ مِنْ الْأَرْضِ۔ (مسنداحمدبن حنبل، مسند أبي هريرة رضي الله عنه،حدیث نمبر:۱۰۹۴۵، شاملہ،الناشر: مؤسسة قرطبة،القاهرة) ترجمہ:ادنی درجہ کے جنتی کے سات درجات ہوں گے یہ چھٹے پررہتا ہوگا، اس کے اوپر ساتواں درجہ ہوگا، اس کے تین سوخادم ہوں گے، اس کے سامنے روزانہ صبح وشام سونے چاندی کے تین سوپیالے کھانے کے پیش کئے جائیں گے، ہرایک پیالہ میں ایسے قسم کا کھانا ہوگا جودوسرے میں نہیں ہوگا اور جنتی اس کے شروع میں ایسے ہی لذت پائے گا جیسے کہ اس کے آخر سے اور وہ یہ کہتا ہوگا یارب اگرآپ مجھے اجازت دیں تومیں جنت والوں کوکھلاؤں اور پلاؤں جوکچھ میرے پاس ہے اس میں کمی نہ ہوگی، اس کی حورعین میں سے بہتر بیویاں ہوں گی ......ان میں سے ہرایک کی سرین زمین پرایک میل کے برابر ہوگی۔ دس ہزار خادم: حدیث:انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ میں نے جناب رسول اللہﷺ سے سنا آپ نے ارشاد فرمایا: إنَّ أَسْفَلَ أَهْلِ الْجَنَّةِ أَجْمَعِينَ دَرَجَةً لَمَنْ يَقُومُ عَلَى رَأْسِهِ عَشَرَةُ آلَافِ خَادِمٍ لِكُلِّ وَاحِدَةٌ مِنْ ذَهَبٍ وَالْأُخْرَى مِنْ فِضَّةٍ فِي كُلِّ وَاحِدَةٍ لَوْنٌ لَيْسَ فِي الْأُخْرَى مِثْلُهُ يَأْكُلُ مِنْ آخِرِهَا مِثْلَ مَايَأْكُلُ مِنْ أَوَّلِهَا يَجِدُ لِآخِرِهَا مِنْ الطِّيبِ وَاللَّذَّةِ مِثْلَ الَّذِي يَجِدُ لِأَوَّلِهَا ثُمَّ يَكُونُ ذَلِكَ رِيحِ الْمِسْكِ الْأَذْفَرِ، لَايَبُولُونَ وَلَايَتَغَوَّطُونَ وَلَايَمْتَخِطُونَ إخْوَانًا عَلَى سُرُرٍ مُتَقَابِلِينَ۔ (مجمع الزوائد:۱۰/۴۰۱، بحوالہ طبرانی اوسط۔ صفۃ الجنۃ ابن ابی الدنیا:۲۰۶) ترجمہ:تمام جنتیوں میں سب سے کم درجہ کا جنتی وہ ہوگا جس کی خدمت میں دس ہزار خادم کمربستہ ہوں گے، ہرایک کے ہاتھ میں دودوپیالے ہوں گے ایک سونے کا دوسرا چاندی کا؛ پھرایک میں ایسے رنگ کا کھانا ہوگا کہ اس طرح کا دوسرے میں نہیں ہوگا، اس کے آخر سے بھی وہ ویسے ہی (دلچسپی) سے کھائے گا جس طرح اس کے شروع سے کھائے گا، اس کے آخر میں ایسی خوشبو اور لذت پائے گا جیسا کہ اس کے شروع میں پائے گا پھراس کا یہ کھانا خالص مشک بن کر (پسینہ کی شکل میں) نکلے گا نہ تویہ پیشاب کرتے ہوں گے، نہ پائخانہ، نہ ہی بلغم پھینکتے ہوں گے، بھائی بھائی ہوں گے، تختوں پرایک دوسرے کے سامنے بیٹھ تے ہوں گے۔ ادنی جنتی کے لیے روئے زمین کے برابر جنت: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جنت میں آخر میں داخل ہونے والا وہ شخص ہوگا جس کے پاس سے اس کا پروردگار عزوجل گذرے گا اور اسے حکم دے گا کھڑا ہو اور جنت میں داخل ہوجا تووہ اللہ تعالیٰ کے سامنے تیوری چڑھا کرمتوجہ ہوکر عرض کریگا آپ نے میرے لیے کیا چھوڑا ہے اللہ تعالیٰ فرمائیں گے تیرے لیے اتنا (دنیا کے) برابر ہے، جس پرسورج طلوع ہوا کرتا تھا یاغروب ہوا کرتا تھا۔ (مجمع الزوائد:۱۰/۴۰۲۔ ترغیب وترہیب:۴/۵۰۳) ترجمہ:جنتیوں میں سے ادنی درجہ کا شخص وہ ہوگا جس کے سات محلات ہوں گے ایک سونے کا ہوگا، ایک محل چاندی کا ہوگا، ایک محل موتی کا ہوگا، ایک محل زمرد کا ہوگا، ایک محل یاقوت کا ہوگا، ایک محل ایسا ہوگا جس کا آنکھیں ادراک نہیں کرسکیں گی، ایک محل عرش کے رنگ کا ہوگا، ہرمحل میں زیوارت اور پوشاکیں اور حورعین ہوں گی جن کواللہ عزوجل کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ دس لاکھ خادم: مراسیل حسن بصریؒ میں مروی ہے کہ جناب رسول اللہﷺ سے روایت ہے: إنَّ أدنى أهل الجنة منزلاً الذي يركبُ في ألف ألف من خَدَمه۔ (تذکرۃ القرطبی:۴۹۱) ترجمہ:ادنی درجہ کا جنتی وہ ہوگا جواپنے دس لاکھ خدام کے ساتھ سوار ہوتا ہوگا۔ اسی ہزار خادم، ۷۲/بیویاں اور عظیم الشان قبہ: حدیث:حضرت ابوسعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ جناب سیدکائنات فخرموجوداتﷺ نے ارشاد فرمایا: إِنَّ أَدْنَى أَهْلِ الْجَنَّةِ مَنْزِلَةً الَّذِي لَهُ ثَمَانُونَ أَلْفَ خَادِمٍ وَاثْنَتَانِ وَسَبْعُونَ زَوْجَةً وَيُنْصَبُ لَهُ قُبَّةٌ مِنْ لُؤْلُؤٍ وَزَبَرْجَدٍ وَيَاقُوتٍ كَمَا بَيْنَ الْجَابِيَةِ إِلَی وَصَنْعَاءَ۔ (تذکرۃ القرطبی:۴۹۱۔ صفۃ الجنۃ ابن ابی الدنیا:۲۱۱) ترجمہ:جنتیوں میں سب سے کم درجہ کا جنتی وہ ہوگا جس کے اسی ہزار (۸۰۰۰۰) خادم ہوں گے اور بہتر(۷۲) بیویاں ہوں گی اور اس کے لیے ایک قبلہ لؤلؤ اور یاقوت اور زبرجد کا قائم کیا جائے گا (جس کی لمبائی) جابیہ (ملکِ شام میں دمشق شہر کے پاس ایک شہر کا نام ہے) سے صنعاء (ملکِ یمن کے دارالخلافہ جتنی ہوں گی)۔ ایک ہزار عظیم الشان محلات: حضرت ابن عمرؓ سے روایت کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا ادنی درجہ کا جنتی وہ ہوگا جس کے ایک ہزار محلات ہوں گے، ہردومحلات کے درمیان ایک سال تک چلنے کا فاصلہ ہوگا، یہ جنتی ان کے دور کے حصوں کوبھی ویسے ہی دیکھتا ہوگا جس طرح سے ان کے قریب کے حصوں کودیکھتا ہوگا، ہرمحل میں حورعین ہوں گی، پھولدار پودے ہوں گے (خدمتگار) لڑکے ہوں گے، جس شے کی وہ خواہش کرے گا اس کوپیش کردی جائے گی۔ (صفۃ الجنۃ ابن ابی الدنیا:۳۴۔ مصنف ابن ابی شیبہ:۱۳) مزید تفصیل کے لیے جنت کے محلات، خدام وغلمان اور حوروں وغیرہ کے ابواب ملاحظہ فرمائیں ان میں بھی متفرق طور پرادنی اور اعلیٰ جنتی کے مختلف انعامات اور نعمتوں کا حسین ذکر موجود ہے۔ کم عمل اولاد اور بیوی اپنے زیادہ عمل والے والد اور شوہر کے درجہ میں جنت میں جائیں گے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُمْ بِإِيمَانٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَاأَلَتْنَاهُمْ مِنْ عَمَلِهِمْ مِنْ شَيْءٍ كُلُّ امْرِئٍ بِمَا كَسَبَ رَهِينٌ۔ (الطور:۲۱) ترجمہ:اور جولوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے بھی ایمان میں ان کا ساتھ دیا ہم ان کی اولاد کوبھی ان کے ساتھ شامل کردیں گے اور ہم ان کے عمل میں سے کوئی چیز کم نہیں کریں گے ہرشحص اپنے اعمال میں محبوس رہے گا۔ اولاد والدین کے درجہ جنت میں: حدیث:حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: إن الله ليرفع ذرية المؤمن إليه في درجته وإن كانوا دونه في العمل لتقر بهم عينه، قال ثم قرأ:( وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُمْ بِإِيمَانٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَاأَلَتْنَاهُمْ مِنْ عَمَلِهِمْ مِنْ شَيْءٍ) قال مانقصنا الآباء کماأعطينا البنين۔ (حاکم:۲/۴۶۸۔ تفسیر ابن جریر:۲۷/۲۴) ترجمہ:اللہ تبارک وتعالیٰ مؤمن کی اولاد کومؤمن کے درجہ میں اس کے ساتھ ملادیں گے اگرچہ وہ (نیک) عمل میں اس سے کم (درجہ ہوں؛ تاکہ ان کے قریب کرنے) سے اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں؛ پھرآپ نے یہ آیت پڑھیں (وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُمْ بِإِيمَانٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَاأَلَتْنَاهُمْ مِنْ عَمَلِهِمْ مِنْ شَيْءٍ) فرمایا جوکچھ ہم اولاد کودرجہ میں بلند رکھیں گے وہ والدین (کے مرتبہ اور اعمال) سے کم کرکے نہیں دیں گے۔ اولاد اور بیوی، والد اور شوہر کے درجہ کی جنت میں: حدیث:شریک سالم افطس سے وہ سعید بن جبیر سے وہ ابن عباسؓ سے روایت کرتے ہیں شریک (راوی) فرماتے ہیں کہ میرا گمان ہے کہ ابن عباسؓ نے اس حدیث کوحضورﷺ سے نقل کیا تھا کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: إذادخل الرَّجُلُ الْجَنَّةَ سَأَلَ عن أَبَوَيْهِ وَزَوْجَتِهِ وَوَلَدِهِ فَيُقَالُ إِنَّهُمْ لم يَبْلُغُوا دَرَجَتَكَ وعَمَلَكَ فيقول يا رَبِّ قد عَمِلْتُ لي وَلَهُمْ فَيُؤْمَرُ بإِلْحاقِهِمْ بِہِ ثُمَّ تَلَا ابن عَبَّاس وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُمْ بِإِيمَانٍ إلى آخِرِ الآيَةِ۔ (طبرانی فی الصغیر:۶۴۰۔ مجمع الزوائد:۷/۱۱۴) ترجمہ:جب آدمی جنت میں داخل ہوگا تواپنے والدین اور بیوی بچوں کے متعلق پوچھے گا (کہ وہ کہاں ہیں؟) تواس کوبتلایا جائے گا کہ وہ (نیک اعمال کرکے) آپ کے درجہ تک یاآپ کے عمل تک نہیں پہنچے، تووہ عرض کریگا یارب میں نے تواپنے لیے اور ان کے لیے (سب کے لیے)عمل کیا تھا (تاکہ آپ اپنے فضل کے ساتھ ان کوبھی میرے ساتھ جنت میں جگہ عطاء فرمائیں گے) چنانچہ ان سب حضرات کواس جنتی کے ساتھ درجات میں پہنچا دیا جائیگا؛ پھرحضرت ابن عباسؓ نے یہ آیت تلاوت فرمائی (ترجمہ) وہ لوگ جوایمان لائے اور ان کی اولاد نے بھی ایمان میں ان کا ساتھ دیا (توہم ان کی اولاد کوبھی ان کے ساتھ جنت میں شامل کردیں گے)۔ کم عمل والدین زیادہ عمل کی اولاد کی جنت کے درجہ میں: کلبی حضرت ابن عباسؓ سے روایت کرتے ہیں کہ اگروالدین اولاد کے مقابلہ میں اعلیٰ درجہ میں ہوں گے توان کی اولاد کوان کے والدین کے درجہ میں فائز کیا جائے گا اور اگربیٹے والدین سے مرتبہ میں بڑھے ہوئے ہوں گے تووالدین کوان بیٹوں کے درجہ میں فائز کیا جائے گا۔ (حادی الارواح:۴۸۲) اولاد اپنے والدین میں سے بہتر کے درجہ میں ہوگی: حضرت سعید بن جبیرؒ سے مؤمنین کی اولاد کے متعلق سوال کیا گیا توفرمایا وہ اپنے والدین میں سے بہتر کے پاس ہوں گے اگرباپ ماں سے بہتر تھا تووہ باپ کے ساتھ ہوں گے اور اگرماں باپ سے بہتر تھی تووہ ماں کے ساتھ ہوں گے۔ (البدورالسافرہ:۱۷۱۷، بحوالہ ابونعیم) اولاد کی دعا سے درجات میں ترقی حاصل ہوگی: حدیث: حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَيَرْفَعُ الدَّرَجَةَ لِلْعَبْدِ الصَّالِحِ فِي الْجَنَّةِ فَيَقُولُ يَارَبِّ أَنَّى لِي هَذِهِ فَيَقُولُ بِاسْتِغْفَارِ وَلَدِكَ لَكَ۔ (مسنداحمدبن حنبل، مسند أبي هريرة رضي الله عنه،حدیث نمبر:۱۰۶۱۸، شاملہ،الناشر: مؤسسة قرطبة،القاهرة) ترجمہ:بلاشبہ اللہ تبارک وتعالیٰ نیک آدمی کا جنت میں درجہ بلند فرمائیں گے تووہ عرض کریگا، اے رب! میرے لیے یہ درجہ کہاں سے بڑھ گیا؟ تووہ ارشاد فرمائیں گے کہ تمہارے لیے تمہارے بیٹے کے استغفار کی وجہ سے (تمہارا درجہ بلند کیا گیا ہے)۔ فائدہ:یہ حدیث اصل میں توحقیقی اولاد کی دعا اور استغفار کے لیے وارد ہوئی ہے اگراولاد کے معنی میں روحانی اولاد کوضمنا شامل کردیا جائے تواللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قوی اُمید ہے کہ وہ روحانی اولاد مثلاً شاگرد اور مرید بلکہ عام مؤمن کی دعا سے بھی مؤمن کا درجہ جنت میں بڑھایا جائے گا اگراللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے ان کی دعا کوقبول فرمائیں گے تو، (امداداللہ)۔ شفاعت سے جنت حاصل کرنے والے: فائدہ:بعض دوزخیوں کواللہ تعالیٰ اپنے فضل سے دوزخ سے نکال کر جنت میں داخل کریں گے، بعض کوآنحضرتﷺ کی شفاعت کی وجہ سے جنت میں داخل کریں گے، بعض کواولیاء کرام کی شفاعت کی وجہ سے، بعض کوعلماء کی شفاعت کی وجہ سے، بعض کوشہداء کی شفاعت کی وجہ سے، بعض کوحفاظ کی شفاعت کی وجہ سے جنت میں داخل کریں گے؛ نیزاہلِ جنت کے درجات کوحضراتِ نبیاء علیہم السلام اور اولیاء عظیم وغیرہ کی شفاعت سے بھی ترقی دی جائی گی۔