انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت اُمِ عمارہ رضی اللہ عنہا نام ونسب نسیبہ نام، اُم عمارہ کنیت، قبیلہ خمرج کے خاندان نجار سے ہیں، نسب نامہ یہ ہے: اُم عمارہ رضی اللہ عنہا بنت کعب بن عمرو بن عوف بن مبذول بن عمرو بن غنم بن مازن بن نجار۔ نکاح پہلا نکاح زید بن عاصم سے ہوا، پھرعربہ بن عمرو کے عقد نکاح میں آئیں۔ اسلام اور ان ہی کے ساتھ بیعتِ عقبہ میں شرکت کی، سیرت کی کتابوں میں مذکور ہے کہ بیعتِ عقبہ میں ۷۳/مرد اور دوعورتیں شامل تھیں، حضرت اُم عمارہ رضی اللہ عنہا کا بھی ان ہی میں شمار ہے۔ غزوات غزوۂ احد میں شریک ہوئیں اور نہایت پامردی سے لڑیں، جب تک مسلمان فتحیاب تھے وہ مشک میں پانی بھرکرلوگوں کوپلارہی تھیں؛ لیکن جب شکست ہوئی توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچیں اور سینہ سپرہوگئیں، کفار جب آپ پربڑھتے تھے توتیر اورتلوار سے روکتی تھیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خود بیان ہے کہ میں اُحد میں ان کواپنے داہنے اور بائیں برابر لڑتے ہوئے دیکھتا تھا، ابن قمیہ جب درّاتا ہوا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گیا توحضرت اُم عمارہ رضی اللہ عنہا نے بڑھ کرروکا؛ چنانچہ کندھے پرزخم آیا اور غار پڑگیا؛ انہوں نے بھی تلوار ماری لیکن وہ دوہری زرہ پہنے ہوئے تھا، اس لیے کارگر نہ ہوئی (ابنِ ہشام:۸۴) بعض روایتوں میں ہے کہ انہوں نے ایک کافر کوقتل کیا تھا، احد کے بعد بیعت الرضوان، خیبر اور فتح مکہ میں بھی شرکت کی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد میں یمامہ کی جنگ پیش آئی مسیلمہ کذاب سے جومدعی نبوت تھا، مقابلہ تھا، حضرت اُم عمارہ رضی اللہ عنہا اپنے ایک لڑکے (حبیب) کولے کرحضرت خالد رضی اللہ عنہ کے ساتھ روانہ ہوئیں اور جب مسیلمہ نے ان کے لڑکے کوقتل کردیا توانہوں نے منت مانی کہ یامسیلمہ قتل ہوگا یاوہ خود جان دیدینگی، یہ کہہ کرتلوار کھینچ لی اور میدانِ جنگ کی طرف روانہ ہوئیں اور اس پامردی سے مقابلہ کیا کہ ۱۲/زخم کھائے اور ایک ہاتھ کٹ گیا، اِس جنگ میں مسیلمہ بھی مارا گیا۔ وفات اس کے بعد معلوم نہیں کب تک زندہ رہیں۔ اولاد وفات کے وقت چار اولادیں یادگار چھوڑیں، حبیب، عبداللہ (پہلے شوہر سے) تمیم، خولہ (دوسرے شوہر سے)۔ فضل وکمال چند حدیثیں روایت کی ہیں، جوعباد بن تمیم (پوتے) لیلے(کنیز) عکرمہ، حارث، ابن کعب اور ام سعد بنت سعد بن ربیع سے مروی ہیں۔ اخلاق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کوجومحبت تھی اس کا اصلی منظر توغزوہ احد میں نظر آتا ہے؛ لیکن اور بھی چھوٹے چھوٹے واقعات ہیں، ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے مکان میں تشریف لائے توانہوں نے کھانا پیش کیا، ارشاد ہوا تم بھی کھاؤ بولیں میں روزہ سے ہوں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانا نوش فرمایا اور فرمایا کہ روزہ دار کے پاس اگرکچھ کھایا جائے تواس پرفرشتے درود بھیجتے ہیں۔ (مسند:۶/۳۶۵) جوش اسلام کا نظارہ بھی اوپرکے واقعات سے ہوسکتا ہے۔