انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** شخصی وراثتی سلطنت جب کوئی شخص تختِ سلطنت کا مالک اورتاجِ حکومت پر متصرف ہوجاتا ہے تو نسب اور خون کا تعلق اوراس کی فطری محبت کا تقاضا اُس کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اس امر کی کوشش کرے کہ اُس کے بعد جس طرح اس کا بیٹا اس کی مملوکات و مقبوضات کا وارث ومالک ہوگا،اُسی طرح اس کی بادشاہت وحکومت کا بھی وارث ہو،لیکن یہ اُس کی غلطی ہوتی ہے؛ کیونکہ بادشاہت اُس کی ملکیت نہ تھی ؛بلکہ وہ ایک امانت تھی جو ملک وقوم نے اس کے سپرد کررکھی تھی،اس کاکیا حق ہے کہ یہ امانت پر تصرف کرے اور باختیار خودکسی کے سپردکرے، امانت ہمیشہ اس کے مالک کو سپرد ہونی چاہئے، لہذا اس بادشاہ کے بعد بادشاہت کا کسی دوسرے کے سپرد کرنا ملک وقوم کا کام ہے،نہ اس بادشاہ کا لیکن بادشاہ یا خلیفہ یا حکمران چونکہ سب کا متاع اوربڑی بڑی طاقتوں پر عامل و قابض ہوتا ہےلہذا اس کو اس خیانت سے باز رکھنے اوراس غلط کاری سے بچانے کے لئے اس بڑی ہمت اور اس قوی ارادے اوراس طاقتور قلب اور اس بلند حوصلہ کی ضرورت ہے جو اسلام اپنے ہر ایک پیرو میں پیدا کرنا چاہتا ہے اورجو آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اورقرآنِ حکیم نے صحابہ کرام ؓ کے اندر پیدا کردیا تھا، مسلمانوں نے تعلیم اسلام کی طرف سے اعراض کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی اس ہمت، ارادے اورحوصلہ میں کمی واقع ہوگئی جو اسلام نے پیدا کیا تھا اور وہ اپنے حکمرانوں کو اس خیانت سے باز نہ رکھ سکے؛بلکہ کم ہمتی کے سبب حکمرانوں کی اس خیانت پر رضا مند ہوگئے،بالآخر شخص وراثتی سلطنت کی رسمِ بد جو خلافتِ راشدہ کے عہدِ مسعود میں مٹ چکی تھی مسلمانوں میں جاری ہوگئی اور اُس رسم بد پر رضا مند ہوجانے کا خمیازہ مسلمانوں کو بارہا بھگتنا پڑا اوروراثت ولیعہدی کی نامعقول ونا ستودہ رسم نے بسا اوقات ایسے ایسے نالائق ونا ہنجار لوگوں کو مسلمانوں کا حکمران بنایا جن کو معمولی بھلے آدمیوں کی مجلس میں بھی جگہ نہیں ملنی چاہئے تھی،بے شک مسلمانوں کا کوئی ایک ہی سلطان یا خلیفہ یا حکمران ہونا چاہئے لیکن وہ مسلمانوں کا بہترین شخص ہو اورمسلمان اُس کو کثرتِ رائے یا اتفاق رائے سے منتخب کریں، کسی شخص کا کسی خلیفہ یا بادشاہ کے گھر پیدا ہونا ہرگز ہرگز اس امر کے لئے مستلزم نہیں ہے کہ وہ قابلیتِ حکومت بھی رکھتا ہو۔ اگر یہ وراثت والی رسم مسلمانوں کے اندر جاری نہ ہوتی اورامر سلطنت اسی طرح محفوظ رہتا جیسا کہ خلافتِ راشدہ کے زمانہ میں محفوظ رہا تو آج اسلامی حکومت اور مسلمانوں کی یہ حالت نہ ہوتی جو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں،لیکن مشیتِ ایزدی نے یہی چاہا اور قضا و قدر کے نوشتے پورے ہوکر رہے،مسلمان اگر شروع ہی سے اس کے مخالف رہتے اورامرِ حکومت کو محفوظ رکھنے کے لیے کوشش وسعی میں کمی نہ کرتے ،تو اگرچہ اول اول ان کو بڑی بڑی قربانیاں اور زیادہ محنتیں برداشت کرنی پڑتیں لیکن پھر کسی حکمران کو اس امر کی جرأت نہ رہتی کہ وہ اپنے بعد اپنے بیٹے کو حکمران منتخب کرانے اور ولی عہد بنانے کی جرأت کرتا،حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایک سے زیادہ بیٹے اس قابل تھے کہ وہ حکمرانی کرسکیں اوراورسلطنت کو چلا سکیں،لیکن انہوں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کو مسلمانوں میں بہترین شخص پایا اورانہیں کے لئے مسلمانوں سے فرمائش اورسفارش کی،حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے بیٹے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ یقیناً اس قابل تھے کہ مسلمانوں کے خلیفہ ہوں، لیکن حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس رسم بد کو مٹانے اور بالکل مستاصل کرنے کے چونکہ خواہش مند تھے لہذا انہوں نے نہ اس لئے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ نا قابل خلافت تھے ؛بلکہ صرف اس لئے کہ وراثتی حکومت کا رواج مٹ جائے خاص طور پر وصیت فرمادی کہ عبداللہ بن عمرؓ ہرگز خلیفہ منتخب نہ کئے جائیں۔ لوگوں کی سب سے بڑی نادانی اورنا بینائی یہ ہے کہ وہ شخصی حکومت کی برائیاں اورشخصی حکومت کے نقصانات دیکھ دیکھ کر ان برائیوں اور نقصانوں کا اصل سبب دریافت نہیں کرتے ؛بلکہ شخصی حکومت کے عام طور پر مخالف ہوکر جمہوریت کی مدح سرائی شروع کردیتے ہیں، شخصی حکومتوں کی جس قدر برائیاں ہم کو نظر آتی ہیں ان سب کا اصل الاصول یہ ہے کہ شخصی حکومت نے وراثت میں دخل پالیا ہے اوربادشاہ یا حکمران کے انتخاب کا حق لوگوں سے چھن گیا ہے، پس عقل کا تقاضا یہ ہےکہ ہم برائیوں کے اصل منبع یعنی وراثت کی رسم کو سلطنت کے معاملہ میں داخل نہ ہونے دیں اور باپ کے بعد اُس کے بیٹے کو اگر وہ سب سے بہتر نہیں ہے تو ہرگز اپنا حاکم نہ بننے دیں اوراگر وہی سب سے بہتر ہے تب بھی اپنے اختیار اورجمہور کی عام منظوری کے بعد اس کو حکمراں تسلیم کریں،یہ کونسی دانائی ہے کہ ایک غلطی سے بچنے کے لئے دوسری ویسی ہی غلطی کے مرتکب ہوں، شخصی حکومت میں بادشاہ کو زیادہ مظالم اورزیادہ نالائقیوں کے ارتکاب کا موقع عوام کی بزدلی اورکم ہمتی کے سبب مل جاتا ہے،بزدلی اورپست ہمتی کے سبب جو اطاعت و فرماں برداری کی جاتی ہے اس میں اوراس فرماں برداری میں جو احساسِ فرض اور استحقاق کی بنا پر کی جاتی ہے زمین و آسمان کا فرق ہے،شاید یہ بات اس طرح سمجھ میں آجائے کہ حضرتِ عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعض عامل جو صوبوں کے گورنر ہیں کہتے ہیس کہ: ہم کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا ایک ہاتھ ہمارے نیچے کے جبڑےپر ہے اورایک اُوپر کے جبڑے پر،اگر ہم ذرا بھی بے راہ روی اختیار کریں تو عمرؓ ہمارے دونوں جبڑے فوراً چیر ڈالے گا، حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حکم خالد بن ولیدؓ کے پاس پہنچتا ہے اوروہ سپہ سالار افواج کے مرتبہ سے گراکر ایک ماتحت بنادیئے جاتے ہیں،اورخالد بن ولیدؓ جیسا فتح مند سالارِ لشکر بلا چون وچرا حکم کی تعمیل کرتا ہے،اب دوسری طرف دیکھو کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو برسرِ منبر ٹوکا جاتا ہے اور ایک معمولی شخص اُن کی امانت ودیانت کا امتحان لیتا ہے، ایک عورت مہروں کی نسبت حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی ایک تقریر سُن کر بلا تکلف اعتراض کرتی ہے اورخلیفہ وقت کو برسرِ منبر اقرار کرنا پڑتا ہے کہ مدینہ کی عورتیں بھی مجھ کو میری غلطی سے آگاہ کرسکتی ہیں،اب غور کرو کہ یہ کس قسم کی فرماں برداری ہےجو حضرت عمر فاروق ؓ کی کی جاتی ہے،دوسری طتف اس فرماں برداری کو دیکھوجو اس آخری زمانہ میں سلاطین مغلیہ کی اُن کے درباروں میں اور اطراف ملک میں کی جاتی تھی مگر یہ نہ صرف پنجاب ،سندھ، دکن ،بنگال وغیرہ صوبوں بلکہ آگرہ والہ آباد اور دلی کے صوبوں میں بھی شاہی احکام کی تعمیل نہ ہوتی تھی۔