انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** جنت کی نعمتوں میں اضافہ کرنے والے نیک اعمال کلائیوں میں کنگن کہاں تک پہنچیں گے: حدیث: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تَبْلُغُ الْحِلْيَةُ مِنْ الْمُؤْمِنِ حَيْثُ يَبْلُغُ الْوَضُوءُ۔ (مسلم، كِتَاب الطَّهَارَةِ،بَاب تَبْلُغُ الْحِلْيَةُ حَيْثُ يَبْلُغُ الْوَضُوءُ،حدیث نمبر:۳۶۸، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:مؤمن کی (کلائیوں میں) زیور (کنگن) وہاں تک پہنچیں گے جہاں تک وضو کا پانی (وضو کرتے وقت) پہنچے گا۔ حدیث: حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھروالوں کوزیور اور ریشم پہننے سے منع کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے: إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ حِلْيَةَ الْجَنَّةِ وَحَرِيرَهَا فَلَاتَلْبَسُوهَا فِي الدُّنْيَا۔ (سنن النسائی، كِتَاب الزِّينَةِ،الْكَرَاهِيَةُ لِلنِّسَاءِ فِي إِظْهَارِ الْحُلِيِّ وَالذَّهَبِ،حدیث نمبر:۵۰۴۶، شاملہ،موقع الإسلام) ترجمہ:اگرتم جنت کے زیور اور اس کے ریشم کوچاہتے ہوتو ان کودنیا میں استعمال نہ کرو۔ فائدہ: ریشم اور سونا چاندی اگرچہ خواتین کے لیے پہننا جائز ہے؛ مگرجنت میں ان کی کمی کا باعث ہے اس لیے خواتین کوان کا چھوڑدینا مستحب ہے اور جنت میں بہت زیادہ ریشم اور سونے چاندی کے عطایا کا ذریعہ ہے۔ جنت میں نیند نہیں ہوگی: حدیث: حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ کیا جنتی لوگ سوئیں گے بھی؟ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: النوم أخو الموت، وأهل الجنة لاينامون۔ (صفۃ الجنۃ ابونعیم:۹۰) ترجمہ: نیند موت کی بھائی ہے اس لیے جنت والے نہیں سوئیں گے۔ اگرکسی کا دل جنت میں نیند کرنے کوچاہے تو: حدیث: حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! نیند ایک ایسی نعمت ہے جس سے دنیا میں ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوتی ہیں توکیا جنت میں نیند بھی ہوگی؟ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لَا، لِأَِنَّ النَّوْمَ شَرِيكُ الْمَوْتِ، وَلَيْسَ فيِ الْجَنَّةِ مَوْتٌ، لَایَمَسُّنَا فِیْہَا نَصب وَلَايَمَسُّنَا فِيهَا لُغُوبٌ۔ (البدورالسافرہ:۲۱۹۶) ترجمہ: نہیں (نیند نہیں آئیگی) کیونکہ نیند موت کی شریک ہے اور جنت میں موت نہیں ہوگی (بلکہ) ہمیں جنت میں نہ توکوئی تکلیف پہنچے گی اور نہ اس میں ہمیں کوئی خستگی پہنچے گی۔ جنت کی نعمت طلب کرنے کا لفظ، فرشتوں کا استقبالی جملہ اور اہلِ جنت کا کلمہ تشکر: اللہ تعالیٰ کا ارشاد: إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ يَهْدِيهِمْ رَبُّهُمْ بِإِيمَانِهِمْ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهَارُ فِي جَنَّاتِ النَّعِيمِo دَعْوَاهُمْ فِيهَا سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَتَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلَامٌ وَآخِرُ دَعْوَاهُمْ أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ۔ (یونس:۹،۱۰) ترجمہ: یقیناً جولوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کئے ان کا رب ان کوبوجہ ان کے مؤمن ہونے کے ان کے مقاصد (یعنی جنت) تک پہنچائے گا، ان کے (مسکن کے) نیچے نہریں جاری ہوں گی نعمتوں کے باغات میں (اور) ان کے منہ سے یہ بات نکلے گی کہ سبحان اللہ اور ان کا سلام جنت میں السلام علیکم ہوگا اور ان کی آخری بات الحمد للہ رب العالمین ہوگی۔ مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا محمدشفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس آیت میں جنت میں پہنچنے کے بعد اہلِ جنت کے چند مخصوص حالات بتائے ہیں، اوّل یہ کہ دَعْوَاهُمْ فِيهَا سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ اس میں لفظ دعویٰ اپنے مشہور معنی میں نہیں جوکوئی مدعی اپنے حریف کے مقابلہ میں کیا کرتا ہے؛ بلکہ اس جگہ لفظ دعویٰ دعاء کے معنی میں ہے، معنی یہ ہے کہ اہلِ جنت کی دعاء جنت میں پہنچنے کے بعد یہ ہوگی کہ وہ سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ کہتے رہیں گے یعنی اللہ جل شانہ کی تسبیح کیا کریں گے؛یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دعاء توعرفِ عام میں کسی چیز کی درخواست اور کسی مقصد کے طلب کرنے کوکہا جاتا ہے سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ میں نہ کوئی درخواست ہے نہ طلب، اس کودعاء کس حیثیت سے کہا گیا؟۔ جواب یہ ہے کہ اس کلمہ سے بتلانا یہ مقصود ہے کہ اہلِ جنت کوجنت میں ہرراحت ہرمطلب من مانے انداز سے خود بخود حاصل ہوگی، کسی چیز کومانگنے اور درخواست کرنے کی ضرورت ہی نہ ہوگی، اس لیے درخواست وطلب اور معروف دعاء کے قائم مقام ان زبانوں پرصرف اللہ کی تسبیح ہوگی اور وہ بھی دنیا کی طرح کوئی فریضہ عبادت ادا کرنے کے لیے نہیں؛ بلکہ وہ اس کلمہ تسبیح سے لذت محسوس کریں گے اور اپنی خوشی سے سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ کہا کریں گے،اس کے علاوہ ایک حدیث قدسی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جوبندہ میری حمدوثنا میں ہروقت لگا رہے یہاں تک کہ اس کواپنے مطلب کی دعاء مانگنے کی بھی فرصت نہ رہے تومیں اس کوتمام مانگنے والوں سے بہتر چیزدونگا یعنی بے مانگے اس کے سب کام پورے کردونگا اس حیثیت سے بھی لفظ سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ کودعاء کہہ سکتے ہیں۔ اس معنی کے اعتبار سے صحیح بخاری ومسلم کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوجب کوئی تکلیف وبے چینی پیش آتی توآپ یہ دعاء پڑھا کرتے تھے لَاإِلَهَ إِلَّااللَّهُ الْعَظِيمُ الْحَلِيمُ لَاإِلَهَ إِلَّااللَّهُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ لَاإِلَهَ إِلَّااللَّهُ رَبُّ السَّمَوَاتِ وَرَبُّ الْأَرْضِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ اور امام طبری نے فرمایا کہ سلف صالحین اس کودعاء کرب کہا کرتے تھے اور مصیبت وپریشانی کے وقت یہ کلمات پڑھ کردعا مانگا کرتے تھے۔ (تفسیر قرطبی) اور امام ابن جریر، ابن منذر وغیرہ نے ایک یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ اہلِ جنت کوجب کسی چیز کی ضرورت اور خواہش ہوگی تووہ سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ کہیں گے، یہ سنتے ہی فرشتے ان کے مطلب کی چیز حاضر کردیں گے؛ گویا کلمہ سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ اہلِ جنت کی ایک خاص اصطلاح ہوگی جس کے ذریعہ وہ اپنی خواہش کا اظہار کریں گے اور ملائکہ ہرمرتبہ اس کوپورا کردیں گے، روح المعانی وقرطبی، اس لحاظ سے بھی کلمہ سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ کودعاء کہا جاسکتا ہے۔ اہلِ جنت کا دوسرا حال یہ بتلایا کہ تَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلَامٌ تحیہ عرف میں اس کلمہ کو کہا جاتا ہے کہ جس کے ذریعہ کسی آنے والے یاملنے والے شخص کا استقبال کیا جاتا ہے جیسے سلام یاخوش آمدید یااھلا وسھلا وغیرہ، اس آیت نے بتلایا کہ اللہ تعالیٰ جل شانہ کی طرف سے یافرشتوں کی طرف سے اہل جنت کا تحیہ لفظ سلام سے ہوگا، یعنی یہ خوش خبری کہ تم ہرتکلیف اور ناگوار چیز سے سلامت رہوگے، یہ سلام خود حق تعالیٰ کی طرف سے بھی ہوسکتا ہے جیسے سورۃ یٰسین میں ہے سَلَامٌ قَوْلًا مِنْ رَبٍّ رَحِيمٍ (یٰس:۵۸) اور فرشتوں کی طرف سے بھی ہوسکتا ہے، جیسے دوسری جگہ ارشاد ہے وَالْمَلَائِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِمْ مِنْ كُلِّ بَابٍo سَلَامٌ عَلَيْكُمْ (الرعد:۲۳،۲۴) یعنی فرشتے اہلِ جنت کے پاس ہردروازہ سے سلام علیکم کہتے ہوئے داخل ہوں گے اور ان دونوں باتوں میں کوئی تضاد نہیں کہ کسی وقت براہِ راست اللہ تعالیٰ کا سلام پہنچے اور کسی وقت فرشتوں کی طرف سے اور سلام کا لفظ اگرچہ دنیا میں دعاء ہے لیکن جنت میں پہنچ کرتوہرمطلب حاصل ہوگا اس لیے وہاں یہ لفظ دعا کے بجائے خوشخبری کا کلمہ ہوگا۔ (روح المعانی) تیسرا حال اہلِ جنت کا یہ بتلایا کہ وَآخِرُ دَعْوَاهُمْ أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (یونس:۱۰) یعنی اہل جنت کی آخری دعاء الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ہوگی۔ اہلِ جنت کی معرفتِ خداوندی میں درجات کا اندازہ: مطلب یہ ہے کہ اہلِ جنت کوجنت میں پہنچنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی معرفت میں ترقی نصیب ہوگی جیسا کہ حضرت شہاب الدین سہروردی رحمہ اللہ نے اپنے ایک رسالہ میں فرمایا کہ جنت میں پہنچ کرعام اہلِ جنت کوعلم ومعرفت کاو ہ مقام حاصل ہوجائے گا جودنیا میں علماء کا ہے اور علماء کا وہ مقام حاصل ہوجائے گا جویہاں انبیاء کا ہے اور انبیاء کووہ مقام حاصل ہوجائے گا جودنیا میں سیدالانبیاء محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کوحاصل ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کووہاں قرب خداوندی کا انتہائی مقام حاصل ہوگا اور ممکن ہے کہ اسی مقام کا نام مقام محمود ہو جس کے لیے اذان کی دعاء میں آپ نے دعاء کرنے کی تلقین فرمائی ہے، خلاصہ یہ ہے کہ اہلِ جنت کی ابتدائی دعاء سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ اور آخری دعاء الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ہوگی، اس میں اللہ جل شانہ کی صفات کی دوقسموں کی طرف اشارہ ہے ایک صفاتِ جلال، جن میں اللہ جل شانہ کے ہرعیب اور ہربرائی سے پاک ہونے کا ذکر ہے دوسری صفات اکرام، جن میں اس کی بزرگی وبرتری اور اعلیٰ کمال کا ذکر ہے، قرآن کریم کی آیت تَبَارَكَ اسْمُ رَبِّكَ ذِي الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ (الرحمن:۷۸) میں ان دونوں قسموں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ سبحانیت اللہ تعالیٰ کی صفات جلال میں سے ہے اور مستحق حمدوثناء ہونا صفات اکرام میں سے ہے اور ترتیب طبعی کے مطابق صفات جلال صفات اکرام سے مقدم ہیں، اس لیے اہلِ جنت شروع میں صفاتِ جلال کو بلفظ سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ بیان کریں گے اور آخر میں صفات اکرام کو بلفظ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ذکر کریں گے؛ یہی ان کا رات دن کا مشغلہ ہوگا اور ان تینوں احوال کی ترتیب طبعی یہ ہے کہ اہلِ جنت جب سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ کہیں گے تواس کے جواب میں ان کوحق تعالیٰ کی طرف سے سلام پہنچے گا، اس کے نتیجے میں الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ کہیں گے۔ (روح المعانی۔ معارف القرآن:۴/۵۱۱ تا ۵۱۳، مفتی محمدشفیع صاحب رحمہ اللہ) جنت میں سب کچھ ملے گا: اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّاتَخَافُوا وَلَاتَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَo نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ وَلَكُمْ فِيهَا مَاتَشْتَهِي أَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَاتَدَّعُونَo نُزُلًا مِنْ غَفُورٍ رَحِيمٍo۔ (حٰم سجدہ (فصلت): ۳۰،۳۱،۳۲) ترجمہ:جن لوگوں نے (دل سے) اقرار کرلیا کہ ہمارا رب (حقیقی صرف) اللہ ہے (مطلب یہ ہے کہ شرک چھوڑ کرتوحید اختیار کرلی) پھر (اس پر) مستقیم رہے (یعنی اس کوچھوڑا نہیں) ان پر (اللہ کی طرف سے رحمت وبشارت کے) فرشتے اتریں گے،اوّل موت کے وقت؛ پھرقیامت میں یہ کہیں گے کہ تم (احوال آخرت سے) کوئی اندیشہ نہ کرو اور نہ (دنیا چھوڑنے پر) رنج کرو اور (بلکہ) تم جنت کے ملنے پرخوش رہو جس کا تم سے وعدہ کیا جایا کرتا تھا، ہم تمہارے رفیق تھے دنیاوی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی رفیق رہیں گے اور تمہارے لیے اس (جنت) میں جس چیز کوتمہارا جی چاہے گا موجود ہے اور نیز تمہارے لیے اس میں جومانگوگے موجود ہے (یعنی جوکچھ زبان سے مانگو گے وہ توملے گا ہی؛ بلکہ مانگنے کی بھی ضرورت نہیں ہوگی) جس چیز کوتمہارا دل چاہے گا موجود ہوگی یہ بطورِ مہمانی کے ہوگا، غفور رحیم کی طرف سے (یعنی یہ نعمتیں اکرام واعزاز کے ساتھ اس طرح ملیں گے جس طرح مہمانوں کوملتی ہیں)۔ (صفۃ الجنۃ، ابونعیم:۲/۱۲۷۔۲۷۸) طلب نعمت کا کلمہ: فرمانِ باری تعالیٰ ہے: دَعْوَاهُمْ فِيهَا سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَتَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلَامٌ وَآخِرُ دَعْوَاهُمْ أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ۔ (یونس:۱۰) ترجمہ:جنتیوں کی خواہش (کی طلب کا جملہ) جنت میں سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ ہوگا اور اس میں کسی کے حصول میں کہیں گے الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ سب خوبیاں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جوپروردگار ہے سارے جہانوں کا۔ حضرت سفیان بن عیینہ رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ جب ان کوکسی چیز کی طلب ہوگی تووہ کہیں گے سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ (اے اللہ! آپ پاک ہیں) توان کے پاس ان کی طلب کے موافق جنت کی نعمت پہنچ جائیگی۔ خواہش کرنے سے درخت اور نہریں بھی اپنی جگہ سے پھرجائیں گی: حضرت عطاء بن میسرہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جنتی حضرات میں سے جوجنتی اپنے محل سے نکلے گا اور کسی درخت یانہر کودیکھ کر یہ چاہے گا کہ اس کواس جگہ نہیں ہونا چاہئے ابھی اس نے یہ بات زبان سے نہیں نکالی ہوگی بلکہ دل ہی میں ہوگی مگراللہ تعالیٰ اس (درخت یانہر وغیرہ) کووہیں منتقل کردیں گے جہاں وہ پسند کرتا ہوگا۔ (صفۃ الجنۃ ابونعیم:۲۷۹) ہرجنتی کی ہرطلب پوری ہوگی: حدیث: حضرت بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک صحابی جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں گھوڑے کوپسند کرتا ہوں کیا جنت میں گھوڑا ہوگا؟ آپ نے ارشاد فرمایا: یدخلک اللہ الجنۃ فلاتشاء ان ترکب فرسا من یاقوتۃ حمراء تطیر بک فی ای الجنۃ شئت الا رکبت۔ ترجمہ:جب تمھیں اللہ تعالیٰ جنت میں داخل کردیں گے تواگر تویاقوت احمر کے گھوڑے پرسوار ہونا چاہے گا وہ تمھیں لے کراڑتا پھریگا۔ پھرآپ کے پاس ایک اور صحابی حاضر ہوئے اور عرض کیا یارسول اللہ! کیا جنت میں اونٹ ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: .....اللہ ان یدخلک اللہ الجنۃ کان لک فیہا مااشتہت نفسک ولذت عینک۔ ترجمہ: خدا! اگراللہ تعالیٰ نے آپ کوجنت میں داخل فرمایا توآپ کے لیے وہ سب کچھ ہوگا جس کوتیرا جی چاہے گا اور تیری آنکھیں لذت اٹھائیں گی۔ (الفتح الربانی:۲۴/۲۰۳۔ جولات فی ریاض الجنات:۲۵، بلفظ ان اللہ ادخلک الجنۃ) جنتی کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے پسندیدہ تحفہ: حضرت عبدالرحمن بن سابط رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں جنتی مرد کے پاس ایک فرشتہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے کوئی ہدیہ لیکر حاضر ہوگا اور اس کے ہاتھ کی انگلیوں میں ایک سوسترہ پوشاکیں ہوں گی یہ جنتی (اس ہدیہ کووصول کرتے ہوئے) کہے گا تم میرے پروردگار کی طرف سے میرے لیے سب سے زیادہ تحفہ لیکر کے آئے ہو، وہ فرشتہ عرض کریگا کیا آپ کویہ پسند آرہا ہے؟ جنتی کہے گا جی ہاں! توفرشتہ اپنے قریبی درخت سے کہے گا، اے درخت! اس جنتی کا جودل کرے اس کی مراد کوپورا کردے۔ (صفۃ الجنۃ، ابن ابی الدنیا:۲۷۶)