انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** ماہِ رمضان کی فضیلت اوراُس کےروحانی و جسمانی فوائد وحِکم ماہِ رمضان کی فضیلت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور شیاطین جکڑ دیئے جاتے ہیں (اور ایک روایت میں "ابوابِ جنت" کے بجائے "ابوابِ رحمت" کا لفظ ہے)۔ (بخاری، باب صفۃ ابلیس وجنودہ، حدیث نمبر:۳۰۳۵۔ مسلم، باب فضل شھر رمضان، حدیث نمبر:۱۷۹۳) استاذ الاساتذہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے "حجۃ اللہ البالغہ" میں اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے جو کچھ تحریر فرمایا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ کے صالح اور اطاعت شعار بندے رمضان میں چونکہ طاعات وحسنات میں مشغول ومنہمک ہوجاتے ہیں وہ دنوں کو روزہ رکھ کے ذکر وتلاوت میں گزارتے ہیں اور راتوں کا بڑا حصہ تراویح وتہجد اور دعا واستغفار میں بسر کرتے ہیں اور ان کے انوار وبرکات سے متاثر ہوکر عوام مؤمنین کے قلوب بھی رمضان مبارک میں عبادات اور نیکیوں کی طرف زیادہ راغب اور بہت سے گناہوں سے کنارہ کش ہوجاتے ہیں تو اسلام اور ایمان کے حلقے میں سعادت اور تقویٰ کے اس عمومی رحجان اور نیکی اور عبادت کی اس عام فضاء کے پیدا ہوجانے کی وجہ سے وہ تمام طبائع جن میں کچھ بھی صلاحیت ہوتی ہے اللہ کی مرضیات کی جانب مائل اور شر وخباثت سے متنفر ہوجاتی ہیں اور پھر اس ماہِ مبارک میں تھوڑے سے عمل خیر کی قیمت بھی اللہ تعالیٰ کی جانب سے دوسرے دنوں کی نسبت بہت زیادہ بڑھادی جاتی ہے، تو ان سب باتوں کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے لیے جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے ان پر بند کردیئے جاتے ہیں اور شیاطین ان کو گمراہ کرنے سے عاجز اور بے بس ہوجاتے ہیں۔ (معارف الحدیث:۳۴۴، مصنف:حضرت مولانا محمدمنظور نعمانی صاحبؒ، ولادت:۱۸/شوال ۱۳۲۳ھ، متوفی:۲۶/ذی الحجہ ۱۴۱۷ھ م ۴/مئی ۱۹۹۷ھ، بوقت ۸/بجے شب، مطبوعہ: دارالاشاعت، کراچی، پاکستان) اس تشریح کے مطابق ان تینوں باتوں (یعنی جنت ورحمت کے دروازے کھل جانے، دوزخ کے دروازے بند ہوجانے اور شیاطین کے مقید اور بے بس کردئیے جانے) کا تعلق صرف ان اہل ایمان سے ہے جو رمضان مبارک میں خیروسعادت حاصل کرنے کی طرف مائل ہوتے اور رمضان کی رحمتوں اور برکتوں سے مستفید ہونے کے لیے عبادات وطاعات کو اپنا شغل بناتے ہیں، باقی رہے وہ کفار اور خداناشناس اور وہ خدافراموش اور غفلت شعار لوگ جو رمضان اور اس کے احکام واعمال سے کوئی سروکار ہی نہیں رکھتے اور نہ اس کے آنے پر ان کی زندگیوں میں کوئی تبدیلی ہوتی ہے تو اس قسم کی بشارتوں کا ان سے کوئی تعلق نہیں؛ انھوں نے جب اپنے آپ کو خود ہی محروم کرلیا ہے اور بارہ مہینے شیطان کی پیروی پر وہ مطمئن ہیں تو پھر اللہ کے یہاں بھی ان کے لیے محرومی کے سوا اور کچھ نہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیاطین اور سرکش جنات جکڑ دیئے جاتے ہیں اور دوزخ کے سارے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور ان میں سے کوئی دروازہ بھی کھلا نہیں رہتا اور جنت کے تمام دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، ان کا کوئی دروازہ بھی بند نہیں کیا جاتا اور اللہ کا منادی پکارتا ہے کہ اے خیر اور نیکی کے طالب! قدم بڑھا کے آ! اور اے بدی اور بدکرداری کے شائق! رک آگے نہ آ! اور اللہ کی طرف سے بہت سے (گنہگار) بندوں کو دوزخ سے رہائی دی جاتی ہے (یعنی ان کی مغفرت کا فیصلہ فرمادیا جاتا ہے) اور یہ سب رمضان کی ہررات میں ہوتا رہتا ہے۔ (ترمذی، باب ماجاء فی فضل شھر رمضان، حدیث نمبر:۶۱۸۔ ابن ماجہ، حدیث نمبر:۱۶۳۲۔ صحیح ابن حبان، حدیث نمبر:۳۴۳۵) اس حدیث کے آخر میں عالم غیب کے منادی کی جس ندا کا ذکر ہے اگرچہ ہم اس کو اپنے کانوں سے نہیں سنتے اور نہیں سن سکتے؛ لیکن اس کا یہ اثر اور یہ ظہور ہم اسی دنیا میں بھی اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ رمضان میں عموماً اہل ایمان کا رحجان خیروسعادت والے اعمال کی طرف بڑھ جاتا ہے؛ یہاں تک کہ بہت سے غیرمحتاط اور آزاد عامی مسلمان بھی ضرورت کے تحت اپنی روش کو کچھ بدلی لیتے ہیں، ہمارے نزدیک یہ ملاء اعلیٰ کی اس ندا اور پکار ہی کا ظہور اور اثر ہے۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ماہِ شعبان کی آخری تاریخ میں رسول اللہ ﷺ نے ہمارے سامنے ایک خطبہ دیا، اس میں آپ ﷺ نے فرمایا: اے لوگو! تم پر ایک عظمت اور برکت والا مہینہ سایہ فگن ہورہا ہے، اس مبارک مہینہ کی ایک رات (شبِ قدر) ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اس مہینہ کے روزے اللہ تعالیٰ نے فرض کیے ہیں اور اس کی راتوں میں بارگاہِ خداوندی میں کھڑا ہونے (یعنی نمازِ تراویح پڑھنے) کو نفل عبادت مقرر کیا ہے (جس کا بہت بڑا ثواب رکھا ہے) جو شخص اس مہینہ میں اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے غیرفرض عبادت (یعنی سنت یانفل) ادا کرے گا تو اس کو دوسرے زمانہ کے فرضوں کے برابر اس کا ثواب ملے گا اور اس مہینے میں فرض ادا کرنے کا ثواب دوسرے زمانے کے سترفرضوں کے برابر ہے، یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے، یہ ہمدردی اور غمخواری کا مہینہ ہے اور یہی وہ مہینہ ہے جس میں مؤمن بندوں کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے، جس نے اس مہینہ میں کسی روزہ دار کو (اللہ کی رضا اور ثواب حاصل کرنے کے لیے) افطار کرایا تو اس کے لیے گناہوں کی مغفرت اور آتش دوزخ سے آزادی کا ذریعہ ہوگا اور اس کو روزہ دار کے برابر ثواب دیا جائیگا، بغیر اس کے کہ روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی کی جائے، آپ ﷺ سے عرض کیا گیا کہ یارسول اللہ! ہم میں سے ہرایک کو تو افطار کرانے کا سامان میسر نہیں ہوتا (تو کیا غرباء اس عظیم ثواب سے محروم رہیں گے؟) آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ یہ ثواب اس شخص کو بھی دیگا جو دودھ کی تھوڑی سی لسی پر یاصرف پانی ہی کے ایک گھونٹ پر کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرادے (رسول اللہ ﷺ نے سلسلۂ کلام جاری رکھتے ہوئے آگے ارشاد فرمایا) اور جو کوئی کسی روزہ دار کو پورا کھانا کھلادے اس کو اللہ تعالیٰ میرے حوض (کوثر) سے ایسا سیراب کرے جس کے بعد اس کو کبھی پیاس ہی نہیں لگے گی؛ تاآنکہ وہ جنت میں پہنچ جائیگا (اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا) اس ماہِ مبارک کا ابتدائی حصہ رحمت ہے اور درمیانی حصہ مغفرت ہے اور آخری حصہ آتش دوزخ سے آزادی ہے (اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا) اور جو آدمی اس مہینہ میں اپنے غلام وخادم کے کام میں تخفیف اور کمی کردیگا اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمادیگا اور اس کو دوزخ سے رہائی اور آزادی دیگا۔ (شعب الایمان، باب أظلکم شھر رمضان، حدیث نمبر:۳۴۵۵۔ صحیح ابن خزیمہ، حدیث نمبر:۱۷۸۰) اس خطبۂ میں ماہِ رمضان کی سب سے بڑی اور پہلی عظمت وفضیلت یہ بیان کی گئی ہے کہ اس میں ایک ایسی رات ہوتی ہے جو ہزار دنوں اور راتوں سے نہیں بلکہ ہزار مہینوں سے بہتر ہے، یہ بات جیسا کہ معلوم ہے کہ قرآن مجید میں " القدر" میں بھی فرمائی گئی ہے؛ بلکہ اس پوری سورت میں اس مبارک رات کی عظمت اور فضیلت ہی کا بیان ہے اور اس رات کی عظمت واہمیت سمجھنے کے لیے بس یہی کافی ہے، ایک ہزار مہینوں میں قریباً تیس ہزار راتیں ہوتی ہیں، اس لیلۃ القدر کے ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق رکھنے والے اور اس کے قرب ورضا کے طالب بندے اس ایک رات میں قربِ الٰہی کی اتنی مسافت طے کرسکتے ہیں جو دوسری ہزاروں راتوں میں طے نہیں ہوسکتی، ہم جس طرح اپنی اس مادی دنیا میں دیکھتے ہیں کہ تیز رفتار ہوائی جہاز یاراکٹ کے ذریعہ اب ایک دن بلکہ ایک گھنٹہ میں اس سے زیادہ مسافت طے کی جاسکتی ہے جتنی پرانے زمانے میں برسوں میں طے ہوا کرتی تھی، اسی طرح حصول رضائے خداوندی اور قرب ِالہٰی کے سفر کی رفتار لیلۃ القدر میں اتنی تیز کردی جاتی ہے کہ جو بات صادق طالبوں کو سینکڑوں مہینوں میں حاصل نہیں ہوسکتی، وہ اس مبارک رات میں حاصل ہوجاتی ہے، اسی طرح اس مبارک مہینے میں جو شخص کسی قسم کی نفلی نیکی کریگا اس کا ثواب دوسرے زمانہ کی فرض نیکی کے برابر ملے گااور فرض نیکی کرنے والے کو دوسرے زمانہ کے سترفرض ادا کرنے کا ثواب ملے گا؛ گویا لیلۃ القدر کی خصوصیت تو رمضان المبارک کی ایک مخصوص رات کی خصوصیت ہے؛ لیکن نیکی کا ثواب سترگنا ملنا یہ رمضان المبارک کے ہردن اور ہررات کی برکت اور فضیلت ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں ان حقیقتوں کا یقین نصیب فرمائے اور ان سے مستفید اور متمتع ہونے کی توفیق دے، آمین۔ اس خطبہ میں رمضان کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ یہ صبر اور غمخواری کا مہینہ ہے، دینی زبان میں صبر کے اصل معنی ہیں اللہ کی رضا کے لیے اپنے نفس کی خواہشوں کو دبانا اور تلخیوں اور ناگواریوں کو جھیلنا، ظاہر ہے کہ روزہ کا اوّل وآخر بالکل یہی ہے، اسی طرح روزہ رکھ کر ہرروزہ دار کو تجربہ ہوتا ہے کہ فاقہ کیسی تکلیف کی چیز ہے، اس سے اس کے اندر ان غرباء اور مساکین کی ہمدردی اور غمخواری کا جذبہ پیدا ہونا چاہیے جو بے چارے ناداری کی وجہ سے فاقوں پر فاقے کرتے ہیں، اسی لیے رمضان کا مہینہ بلاشبہ صبر اور غمخواری کا مہینہ ہے، یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ اس بابرکت مہینہ میں اہل ایمان کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے "اس کا تجربہ تو بلااستثناء ہرصاحب ایمان روزہ دار کو ہوتا ہے کہ رمضان المبارک میں جتنا اچھا اور جتنی فراغت سے کھانے پینے کو ملتا ہے باقی گیارہ مہینوں میں اتنا نصیب نہیں ہوتا؛ خواہ اس عالم اسباب میں وہ کسی بھی راستے سے آئے، سب اللہ ہی کے حکم سے اور اسی کے فیصلے سے آتا ہے" خطبہ کے آخر میں فرمایا گیا ہے کہ: "رمضان کا ابتدائی حصہ رحمت ہے، درمیانی حصہ مغفرت ہے اور آخری حصہ جہنم سے آزادی کا ہے"۔ حضرت مولانا محمدمنظور نعمانی رحمہ اللہ اس سلسلہ میں فرماتے ہیں کہ اس عاجز کے نزدیک اس کی راجح اور دل کو زیادہ لگنے والی توجہیہ اور تشریح یہ ہے کہ رمضان کی برکتوں سے مستفید ہونے والے بندے تین طرح کے ہوسکتے ہیں، ایک وہ اصحاب صلاح وتقویٰ جو ہمیشہ گناہوں سے بچنے کا اہتمام رکھتے ہیں اور جب کبھی ان سے کوئی خطا اور لغزش ہوجاتی ہے تو اسی وقت توبہ واستغفار سے اس کی صفائی وتلافی کرلیتے ہیں، تو ان بندوں پر تو شروع مہینہ ہی سے؛ بلکہ اس کی پہلی ہی رات سے اللہ کی رحمتوں کی بارش ہونے لگتی ہے، دوسرا طبقہ ان لوگوں کا ہے جو ایسے متقی اور پرہیزگار تو نہیں ہیں؛ لیکن اس لحاظ سے بالکل گئے گزرے بھی نہیں ہیں تو ایسے لوگ جب رمضان کے ابتدائی حصے میں روزوں اور دوسرے اعمال خیر اور توبہ واستغفار کے ذریعہ اپنے حال کو بہتر اور اپنے کو رحمت ومغفرت کے لائق بنالیتے ہیں، تو درمیانی حصہ میں ان کی بھی مغفرت اور معافی کا فیصلہ فرمادیا جاتا ہے اور تیسرا طبقہ ان لوگوں کا ہے جو اپنے نفسوں پر بہت ظلم کرچکے ہیں اور ان کا حال بڑا ابتر رہا ہے اور اپنی بداعمالیوں سے وہ گویا دوزخ کے پورے پورے مستحق ہوچکے ہیں، وہ بھی جب رمضان کے پہلے اور درمیانی حصے میں عام مسلمانوں کے ساتھ روزے رکھ کے اور توبہ واستغفار کرکے اپنی سیاہ کاریوں کی کچھ صفائی اور تلافی کرلیتے ہیں تو اخیر عشرہ میں (جو دریائے رحمت کے جوش کا عشرہ ہے) اللہ تعالیٰ دوزخ سے ان کی بھی نجات اور رہائی کا فیصلہ فرمادیتا ہے، اس تشریح کی بناء پر رمضان مبارک کے ابتدائی حصے کی رحمت، درمیانی حصے کی مغفرت اور آخری حصے میں جہنم سے آزادی کا تعلق بالترتیب امت مسلمہ کے ان مذکورہ بالا تین طبقوں سے ہوگا، واللہ اعلم۔ (معارف الحدیث، کتاب الصوم:۴/۳۴۸، مطبوعہ: دارالاشاعت، پاکستان) روزہ کےروحانی فوائد وحِکم روزہ کی بے شمار حکمتیں اور فائدے ہیں، منجملہ ان میں سے ایک خاص حکمت اور فائدہ یہ ہے کہ نفس امارہ کو اس کے تقاضوں اور خواہشات سے روکنے کا عادی بنائے اور نفس کی اصلاح یعنی نفس انسانی قابو میں لے آئے جس سے وہ شرعی احکام جو نفس پر دشوار ہیں وہ نہایت سہل اور آسان ہوجائیں اور ترکِ معاصی اور تقویٰ وپرہیزگاری کی روزہ دار میں صلاحیت پیدا ہوجائے، خدا تعالیٰ فرماتے ہیں: "یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَاکُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ"۔ (البقرۃ: ۱۸۳) روزہ روح کی غذا ہے، روزہ سے روح طاقت ور بنتی ہے، نفسانی خواہش کو دبانے اور روح کی صفائی کے لیے روزہ سے زیادہ دوسری کوئی چیز مفید نہیں روزہ سے باب روحانیت مفتوح ہوتا ہے، عبادت میں بہت نشاط اور چستی حاصل ہوتی ہے اسی لیے بندگانِ دین فرماتے ہیں: "اندر از طعام خالی دار، تادراں نور معرفت بینی"۔ ترجمہ:پیٹ کو غذا سے خالی رکھا کر؛ تاکہ تجھ کو اس میں معرفتِ الہٰی کا نور نظر آئے۔ روزے سے قرب خداوندی حاصل ہوتا ہے، آنحضرت ﷺ نے بارگاہِ خداوندی میں عرض کیا، یاالٰہ العالمین بندہ تجھ سے زیادہ قریب کب ہوتا ہے؟ فرمایا کہ جب بندہ بھوکا ہوتا ہے اور جب بندہ سجدہ میں ہوتا ہے (اتحاف الخیرۃ المھرۃ، باب فی الصوم مطلقا، حدیث نمبر:۲۱۸۶، صفحہ نمبر:۳/۱۸۔ بغیۃ الباحث عن زوائد مسند، باب فی فضل الصوم، حدیث نمبر:۳۴۳، صفحہ نمبر:۲/۴۳) روزہ کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ روزے دار صفات خداوندی کے جلوے سے منور ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی ذات کھانے پینے اور خواہشات سے پاک ہے، روزے دار بھی کھانے پینے اور خواہشات سے بے نیاز رہتا ہے، حضرت حق جل مجدہ کی صفات سے مشابہت کے علاوہ ایک حکمت یہ بھی ہے کہ روزہ دار کو فرشتوں سے بھی مشابہت ہوتی ہے، فرشتوں کی غذا ذکر اللہ ہے روزہ سے شکر خداوندی کا موقع ملتا ہے، روزہ سے بھوکے کی قدر اور انسانی ہمدردی کا جذبہ ابھرتا ہے، روزہ سے جسمانی امراض دور ہوجاتے ہیں، بالخصوص بلغمی مزاج کے لیے اکسیر ہے، روزہ خدااور رسول ﷺ کی رضا اور خوشنودی ترقی درجات اور اُخروی نجات کا حتمی ذریعہ ہے؛ چنانچہ ارشادِ خداوندی ہے کہ "الصوم لی وأنا اجزی بہ" یعنی روزے میرے لیے ہے اور میں خود اس کا بدلہ اور عوض دوں گا۔ (حجۃ اللہ البالغہ، باب اسرارالصوم: ۱/۱۵۶، مصنف: حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ) روزہ سے جسمانی فوائد روزہ: (۱)نظام ہضم کو درست کرتا ہے، (۲) خون میں کمی کی وجہ سے دل پر دباؤ کم ہوجاتا ہے اور پٹھوں پر دباؤ کم ہوتا ہے اور گردوں کو بھی آرام ملتا ہے، بہر حال انسانی جسم کے اہم اہم اعضاء کی بحالی موجودہ دور کی انتہائی خطرناک بیماریوں سے بچنے کا ذریعہ بنتی ہے (۳) اعصابی نظام سے ہر قسم کے تناؤ اور الجھن کو دور کرنے میں مدد دیتا ہے (۴) خون کی تشکیل ہوتی ہے (۵) معدے اور جگر کے امراض کم ہوجاتے ہیں۔ (سنت نبوی اور جدید سائنس:۱۶۰۔۱۷۷/۱، مطبوعہ مکتبۂ امدادیہ ، سہارنپور، یو پی، انڈیا، طارق محمود)