انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** وفد بنی حارث بن کعب آنحضرت ﷺ نے ماہ ربیع الاول ۱۰ ہجری میں حضرت خالدؓ بن ولید کو بنی حارث بن کعب کی جانب یمن روانہ فرمایا: ان کے ساتھ چار سومجاہد تھے، وہ نجران میں آباد ایک قبیلہ بنی عبدالمدان کی طرف گئے، حضور ﷺنے انہیں حکم دیا تھا کہ حملہ سے پہلے تین دن تک اسلام کی دعوت دینا ، اگر وہ قبول کر لیں تو رک جانا ورنہ بعد ختم مدت قتال کرنا ، وہاں پہنچ کر حضرت خالدؓ نے دو سو شتر سواروں کو ان کے قبیلہ کی طرف بھیجا جو کہتے پھرتے تھے کہ ائے لوگو ! اسلام لاؤ سلامتی پاؤگے ، وہ سب مسلمان ہو گئے اور حضرت خالدؓ بن ولید نے حضرت بلالؓ بن حارث مزنی کے ذریعہ ایک خط مدینہ ارسال کیا،اس کے جواب میں آنحضرت ﷺ نے لکھا … " مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم نے اسلام کی جو دعوت ان کو دی اسے انھوں نے قبول کیا، اللہ نے انھیں توفیق دی اور اسلام قبول کر لیا ، تم ان کو جنت کی بشارت دو ، دوزخ سے ڈراؤ اور پھر چلے آؤ اور اپنے ساتھ ان کا ایک وفد بھی لیتے آؤ ، چنانچہ بنی حارث کے ذی اثر افراد کا ایک وفد جس میں، ۱) قیس بن الحصین (ذوالقصہ) ۲) یزید بن عبدالمدان ۳) عبداﷲ بن عبدلمدان ۴) یزید بن المحجل ۵) عبداﷲ بن قراد ۶) شداد بن عبداﷲالقنانی ۷) عمرو بن عبداﷲ شامل تھے مدینہ آیا ، حضرت خالدؓ بن ولید نے انھیں اپنے پاس ٹھہرایا اور ان کی خوب خاطر و مدارات کی اور ان کو اپنے ساتھ لے کر حضورﷺ کی خدمت میں پہنچے ، آپﷺ نے فرمایا کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ (ہندوستانی) معلوم ہوتے ہیں، عرض کیا گیا کہ یہ بنی الحارث بن کعب ہیں ، ان لوگوں نے آپﷺ کو سلام کیا اور کلمہ شہادت پڑھا، آپﷺ سے کچھ سوالات کر کے جوابات حاصل کئے،جب یہ لوگ واپس ہونے لگے تو حضور ﷺ نے حضرت قیسؓ بن حصین کو ان کا امیر مقرر فرمایا، ہر ایک کو دس اوقیہ چاندی اور امیر کو ساڑھے بارہ اوقیہ چاندی عطا فرمائی، اس وفد کے جانے کے بعد حضورﷺ نے حضرت عمرؓ بن حزم انصاری کو بنی حارث بن کعب کو دین کی تعلیم دینے اور صدقات وصول کرنے پر مامور فرمایا اور انہیں ایک طویل تحریری فرمان بھی عطا کیا۔ وفد خولان (شعبان۱۰ھ) یہ وفد دس افراد پر مشتمل تھاجو یمن سے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو ا تھا،خولان،یمن کے ایک قبیلہ کا نام ہے ، اس وفد کو حضرت رملہؓ بنت حارث کے مکان میں ٹھہرایا گیااور ان کی مہمان داری کی گئی، انھوں نے حاضر ہو کر کہا کہ ہم اللہ اور اس کے رسول کی زیارت کے لئے طویل مسافت طئے کر کے آرہے ہیں، حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ راہِ طلب میں تمہارے اونٹ کے اٹھے ہوئے ہر قدم پر ایک نیکی لکھی گئی ، حضور ﷺ نے ان سے بنی خولان کے بت " عم انس " کے بارے میں دریافت فرمایا … عرض کیا: جب سے اللہ تعالیٰ نے ہم کو ہدایت دی ہے ہم نے اس کی طرف پلٹ کر بھی نہیں دیکھا البتہ ایک بوڑھا مرد اور عورت اس سے چمٹے ہوئے ہیں، ہم یہاں سے واپس ہو کر اسے منہدم کر دیں گے ،ارکان وفد نے فرائض کے بعد دیگر امور کے بارے میں سوالات کئے ، آپﷺ نے جواب میں ارشاد فرمایا: (۱) وعدہ وفا کرو (۲) امانت اد ا کرو (۳) پڑوسی کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو (۴) کسی پر ظلم نہ کرو اس لئے کہ ظلم قیامت کے اندھیروں میں سے ایک ہے ،واپسی کے وقت ان میں سے ہر ایک کو ساڑھے بارہ اوقیہ چاندی عطافرمائی،جب یہ لوگ اپنی قوم میں واپس آگئے تو انھوں نے اپنے اسباب کی گرہ تک نہ کھولی جب تک عم انس بت کو منہدم نہ کردیا، ان لوگوں نے ان چیزوں کو حرام کرلیا جو حضور اکرم ﷺ نے ان پر حرام کردی تھیں اور انھیں حلال کرلیا جو آپﷺ نے ان کے لئے حلال کردی تھیں (ابن سعد)