انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** وفد غامد(رمضان۱۰ہجری) اس وفد میں دس افراد شامل تھے جو بقیع غرقد میں ٹھہرا تھا، انھوں نے اپنے مال و اسباب کی نگرانی کے لئے ایک لڑکے کو رکھا اور خود اچھے کپڑے پہن کر حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، حضور ﷺ نے پوچھا… اپنے پیچھے کسے چھوڑ آئے ہو؟ عرض کیا… ایک لڑکا ہے ، فرمایا: وہ سوگیا اور تمہارا تھیلا چوری ہو گیا، ایک شخص نے کہا وہ تو میرا تھا ، فرمایا :گھبراؤ نہیں وہ مل گیا، جب وہ لوگ اپنی قیام گاہ پر پہنچے تو لڑکے نے کہا کہ جب میں سو گیاتو چور تھیلا لے گیا ، میں اس کی تلاش میں نکلاتو دور ایک شخص نظر آیا، میں اس کی طرف بڑھا تو وہ شخص بھاگ گیا، وہاں زمین کھدی ہوئی تھی، مٹی ہٹائی تو تھیلا برآمد ہوا، یہ تفصیل سن کر سب لوگوں نے کہا کہ بے شک آپﷺ رسول بر حق ہیں اور ہم اس کی تصدیق کرتے ہیں، حضور اکرم ﷺ نے ان کو ایک فرمان تحریر فرمایاجس میں شرائع اسلام تھے، انھیں قرآن مجید سکھانے کے لئے حضور ﷺ نے حضرت ابیؓ بن کعب کو مامور فرمایا، واپسی کے وقت انہیں زاد راہ اور تحائف دئے گئے، وفد غسّان (رمضان۱۰ ھ) اس وفد میں تین آدمی تھے؛ لیکن ابن سعد نے تیرہ آدمی لکھے ہیں، ان سب کو حضرت رملہؓ بنت حارث کے گھر میں ٹھہرایا گیا تھا، غسّان کے لوگ عربی النسل تھے؛ لیکن نصرانی ہو گئے تھے اور قیصر روم کے نائب کی حیثیت سے عرب کے شمالی علاقہ میں حکمران تھے، ان کا قبیلہ بڑا اور طاقتور تھا لیکن ان میں سے صرف تین افراد حاضر ہو کر اسلام قبول کئے، انھوں نے اپنی قوم کے بارے میں کہا کہ قیصر کے تقرب اور حکمرانی کی لالچ کی وجہ سے ان کے اسلام لانے کی توقع کم ہے ، ان کی واپسی کے وقت ان کو زادِ راہ اور تحائف دئیے گئے، یہ لوگ واپس ہوئے اور قوم کے پاس واپس آئے تو ان لوگوں نے ان کی بات نہیں مانی، ان لوگوں نے اپنا اسلام پوشیدہ رکھا ، ان میں سے دو مسلمان مرگئے اور ایک نے جنگِ یرموک میں حضرت عمرؓ بن الخطاب کو پایا، وہ حضرت ابو عبیدہؓ سے ملے، اپنے اسلام کی خبر دی، وہ ان کا اکرام کیا کرتے تھے (ابن سعد)