انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** امام حسین رضی اللہ عنہ کی مکہ سے روانگی حضرت امام حسین علیہ السلام نے مکہ سے روانگی کی تیاری کی، جب سامان سفر درست ہوگیا اور مکہ میں یہ خبر مشہور ہوئی کہ حسین بن علی رضی اللہ عنہما کوفہ کوجانے والے ہیں توامام حسین رضی اللہ عنہ سے محبت وہمدردی رکھنے والوں نے آآکر اُن کواس ارادے سے باز رکھنا چاہا اور سمجھایا کہ آپ کا کوفہ کی طرف روانہ ہونا خطرہ سے خالی نہیں، اوّل عبدالرحمن بن حاردث نے آکرعرض کیا کہ آپ کوفہ کا عزم ترک کردیں؛ کیونکہ وہاں عبیداللہ بن زیاد حاکم عراق موجود ہے، کوفہ والے لالچی لوگ ہیں، بہت ممکن ہے کہ جن لوگوں نے بلایا ہے وہی آپ کے خلاف لڑنے کے لیئے میدان میں نکلیں، حضرت عبداللہ بن عمر نے آکر کہا کہ تم بیعت لینے اورامارت حاصل کرنے کے لیے باہر نہ جاؤ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوخدائے تعالیٰ نے دنیا وآخرت میں سے ایک کے اختیار کرنے کی آزادی دی تھی، آپ نے آخرت کواختیار کیا، تم بھی خاندانِ نبوت میں سے ہو، دنیا کی طلب نہ کرو، اپنے دامن کودنیا کی آلائش سے آلودہ نہ ہونے دو۔ یہ نصیحت کرکے عبداللہ بن عمرروپڑے، امام حسین بھی روپڑے؛ مگرانھوں نے عبداللہ بن عمر کی رائے پرعمل کرنے سے انکار کیا، مجبوراً عبداللہ بن عمر رخصت ہوکر چلے گئے؛ پھرعبداللہ بن عباس نے کہا کہ مکہ نہ چھوڑو اور خانہ خدا سے دوری اختیار نہ کرو، تمہارے والد محترم نے مکہ اور مدینہ کوچھوڑ کررکوفہ کوترجیح دی تھی؛ مگرتم نے دیکھا کہ ان کے ساھت کوفہ والوں نے کس قسم کا سلوک کیا؛ یہاں تک کہ ان کوشہید ہی کرکے چھوڑا، تمہارے بھائی حسن کوبھی کوفیوں نے لوٹا، قتل کرنا چاہا، آخرزہردے کر مارہی ڈالا، اب تم کوان پرہرگز اعتبار نہ کرنا چاہیے، نہ ان کی بیعت پراور قسم کا کوئی بھروسہ ہے، نہ ان کے خطوط اور پیغامات قابل اعتماد ہیں، ابن عباس رضی اللہ عنہ سن کر حضرت حسین نے فرمایا کہ آپ جوکچھ فرماتے ہیں سب درست ہے؛ لیکن مسلم بن عقیل کا خط آگیا ہے، بارہ ہزار آدمی اس کے ہاتھ پر بیعت کرچکے ہیں اور اس سے پہلے شرفائے کوفہ کے ڈیڑھ سوخطوط میرے پاس آچکے ہیں، اب کوئی خطرے کی بات نہیں ہے، میرا وہاں جانا ہی مناسب ہے، عبداللہ بن عباس نے یہ جواب سن کرکہا کہ اچھا کم از کم اس ذوالحجہ کے مہینے کوختم اور نئے سال کوشروع ہولینے دو؛ پھرعزمِ سفر کرنا، اب حج کے دن آگئے ہیں سارے جہان کے لوگ دور دور سے مکہ میں آرہے ہیں اور تم مکہ چھوڑ کرباہر جارہے ہو، محض اس لیئے کہ دنیا اور دنیاداروں پرتم کوحکومت حاصل ہو اور متاعِ دنیا تمہارے قبضہ میں آئے، مناسب یہ ہے کہ تم بھی حج میں شریک ہو اور لوگوں کوحج سے فارغ ہوکر واپس ہولینے دو؛ پھراگرضروری ہی سمجھتے ہوتو روانہ ہوجاؤ، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ معاملہ ایسا ہے کہ اب میں تاخیر نہیں کرسکتا، مجھ کوفوراً روانہ ہی ہوجانا چاہیے۔ حضرت عبداللہ بن عباس نے کہا کہ اچھا اگرتم میرا کہنا نہیں مانتے ہو کم از کم عورتوں اور بچوں کوتوساتھ نہ لیجاؤ؛ کیونکہ کوفہ والوں کا کوئی اعتبار نہیں ہے، بارہ ہزار شخص جب کہ تمہاری خلافت کے لیئے بیعت کرچکے ہیں توان کا فرض تھا کہ وہ اوّل یزید کے عامل کوکوفہ سے نکال دیتے، خزانہ پرقبضہ کرتے اور پھرآپ کوبلاتے؛ لیکن موجودہ صورت میں تویہ معلوم ہوتا ہے کہ یزید کے عامل یعنی کوفہ کے حاکم کے خلاف وہ کچھ نہیں کرسکتے، جب کہ ان کے پاس خزانہ بھی نہیں اور عامل کونکال دینے کی جرأت بھی نہیں تویقیناً کوفہ کا عامل ان کوخوف دلاکر اور لالچ دے کراپنے حسب منشاء جب چاہے گا استعمال کرسکے گا اور ہوسکتا ہے کہ یہی لوگ جوآپ کوبلارہے ہیں آپ سے لڑنے کے لیئے یزید کی طرف سے میدان میں آئیں، ان حالات پرغور کرنے سے آپ کی جان کا خطرہ نظر آتا ہے؛ اگرعورتیں اور بچے بھی آپ کے ساتھ ہوئے توجس طرح عثمان غنی اپنے اہل وعیال کے روبروقتل کیے گئے؛ اسی طرح آپ کے اہل وعیال کوبھی آپ کا قتل ہونا دیکھنا پڑے گا اور دشمن کے ہاتھ میں گرفتار ہوکر لونڈی غلام بننے کا اندیشہ رہے گا، جب امام حسین رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی اس بات کوبھی نہ مانا توانھوں نے کہا کہ اگرامارت وخلافت کا ایسا ہی شوق ہے توآپ اوّل یمن کے ملک میں جائیں وہاں آپ کے بہت سے ہمدرد بھی موجود ہیں وہاں پہاڑی سلسلہ بھی حفاظت کےلیئے خوب کام آسکتا ہے، حجاز کی حکومت بھی اگرآپ چاہیں توبڑی آسانی سے آپ کومل سکتی ہے، آخر عبداللہ بن عباس مجبور ہوکر رہ گئے اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے ان کے کسی مشورہ کوبھی نہ مانا، اس کے بعد حضرت عبداللہ بن زبیر آئے اور انھوں نے امام حسین رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ ہرگز کوفہ کا عزم نہ فرمائیں، آپ کی روانگی کے عزم کا حال جب سے مکہ میں مشہور ہوا ہے، میں بعض شخصوں سے یہ بھی سن رہا ہوں کہ عبداللہ بن زبیر اب حسین بن علی کے چلے جانے سے بہت خوش ہوگا؛ کیونکہ مکہ میں اس کا وکئی رقیب باقی نہ رہے گا؛ لہٰذا میں ان بدگمان لوگوں کوجھوٹا ثابت کرنے کے لیئے آپ سے نہایت خلوص کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ آپ مکہ کی حکومت قبول فرمائیں اور اپنا ہاتھ بڑھائیں؛ تاکہ میں آپ کے ہاتھ پربیعت کروں اور آپ کے حکم کی تعمیل میں شمشیر زنی کے لیئے میدان میں نکلوں، امام حسین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اب اطلاع دے چکا اور روانگی کا عزمِ مصمم کرچکا ہوں کسی طرح رُک نہیں سکتا۔ آخر ۳/ماہ ذوالحجہ سنہ۶۰ھ بروز دوشنبہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ مکہ سے معہ اہل وخاندان روانہ ہوئے اسی تاریخ یعنی بروز دوشنبہ بتاریخ۳/ذوالحجہ کوفہ میں مسلم بن عقیل قتل کیے گئے، امام حسین جب مکہ سے روانہ ہونے لگے توعمروبن سعد بن العاص اور بعض دوسرے اہلِ مکہ نے آکر ان کوروکنا چاہا اور کہا کہ اگرآپ ویسے نہیں مانتے ہیں توہم آپ کوزبردستی روکیں گے اور آپ کا مقابلہ کریں گے، امام حسین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جوکچھ تم سے ہوسکے کرگذرو اور لڑائی کا ارمان بھی نکال لو، یہ سن کرسب لوگ ان کے سامنے سے ہٹ گئے اور وہ روانہ ہوئے، رخصت کرتے وقت عبداللہ بن عباس نے کہا کہ میں اس وقت تمہارے اونٹ کے آگے لیٹ جاتا کہ وہ مجھ کوبغیر کچلے ہوئے آگے نہ بڑھ سکے؛ لیکن میں جانتا ہوں کہ تم پھربھی نہ رکوگے اور عزیمتِ کوفہ سے باز نہ رہوگے، آخر آپ مکہ سے روانہ ہوئے، مقامِ تیغمہ میں ایک قافلا ملا جویزید کے پاس عامل یمن کی طرف سے تحائف لیئے جارہا تھا، آپ نے اس قافلہ کوگرفتار کرلیا اور کچھ سامان اس قافلہ سے لےکر آگے روانہ ہوئے، مکہ اور کوفہ کے درمیان مقامِ چفاح میں عربی کے مشہور شاعر فرزدق سے ملاقات ہوئی جوکوفہ سے آرہا تھا، فرزدق جب کوفہ سے چلا تھا تواس وقت تک عبیداللہ بن زیاد کوفہ میں داخل نہ ہوا تھا، امام حسین نے فرزدق سے کوفہ اور کوفیوں کا حال پوچھا تواس نے کہا کہ اہلِ کوفہ توآپ کے ساتھ ہیں؛ لیکن ان کی تلواریں آپ کی حمایت میں علم نہیں ہوسکتیں، کچھ دور آگے بڑھے تھے کہ عبداللہ بن جعفر کا خط جوانھوں نے مدینے سے اپنے بیٹوں عون اور محمد کے ہاتھ روانہ کیا تھا پہنچا، عبداللہ بن جعفر نے لکھا تھا کہ میں آپ کوخدا کا واسطہ دے کرعرض کرتا ہوں کہ کوفہ کے ارادے سے باز رہیے اور مدینہ میں آجائیے، مجھ کواندیشہ ہے کہ آپ قتل نہ ہوجائیں، برائے خدا آپ اس معاملہ میں جلدی نہ کریں، ساتھ ہی مدینہ کے والی کا خط بھی انھیں قاصدوں نے دیا، جس میں لکھا تھا کہ آپ مدینہ میں آکررہنا چاہیں توآپ کوامان ہے؛ مگرامام حسین رضی اللہ عنہ نے واپسی سے قطعاً انکار کیا، محمد اور عون کوبھی اپنے ہمراہ لے لیا اور اپنے دلیلِ راہ سے جوبصرہ کا ایک شخص تھا کہا کہ جس قدر جلد ممکن ہوہم کوکوفہ میں پہنچاؤ؛ تاکہ ہم عبیداللہ بن زیاد کے پہنچنے سے پہلے کوفہ میں داخل ہوجائیں، وہاں لوگ ہمارے سخت منتظر ہوں گے، اتفاقاً اسی روز عبیداللہ بن زیاد کے پاس یزید کا خط پہنچا تھاکہ اپنی حفاظت کرو اور چونکہ امام حسین مکہ سے روانہ ہوچکے ہوں گے؛ لہٰذا ہرایک راستے پرفوجیں متعین کردو کہ ان کوکوفہ تک نہ پہنچنے دیا جائے۔ امام حسین رضی اللہ عنہ اپنے دل میں یہ خیال کرتے ہوئے جارہے تھے کہ مسلم بن عقیل کے ہاتھ پرہرروز لوگ بیعت کرتے ہوں گے اور اب جماعت بہت زیادہ ہوچکی ہوگی؛ لیکن کوفہ میں عبیداللہ بن زیاد ان کی گرفتاری یاقتل کے لیئے فوجیں نامزد کررہا تھا اور چند منزلیں طے کرنے کے بعد عبداللہ بن مطیع سے ملاقات ہوئی؛ انھوں نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے ارادے سے واقف ہوکر نہایت اصرار کے ساتھ روکا اور مکہ کی طرف واپس چلنے کے لیئے قسمیں دلائیں؛ پھران کوسمجھایا کہ آپ عراقیوں کے فریب میں نہ آئیں؛ اگرآپ بنوامیہ سے خلافت چھیننے کی کوشش کریں گے تووہ آپ کوضرور قتل کردیں گے اور ہرایک ہاشمی ہرایک عرب اور ہرایک مسلمان کے قتل پردلیر ہوجائیں گے، آپ اپنے آپ کوہلاکت میں ڈال کراسلام عرب اور قریش کی حرمت کونہ مٹائیں؛ مگرامام حسین رضی اللہ عنہ پران کی بات کا کوئی اثر نہ ہوا اور وہ بدستور کوفہ کی جانب گرم سفر رہے، مقامِ عاجر سے آپ نے قیس بن مسہر کے ہاتھ اہلِ کوفہ کے پاس ایک خط بھیجا کہ ہم قیر ب پہنچ گئے ہیں، ہمارے منتظر رہو، قیس قادسیہ میں پہنچے تھے کہ لشکر ابنِ زیاد کے ہاتھ میں گرفتار ہوگئے، ابنِ زیاد کے روبرومعہ خط پیش کئے گئے، اس نے قصر امارت سے چھت پرچڑھاکر اوپر سے گروادیا اور قیس گرتے ہی فوت ہوگئے؛ پھراگلی منزل سے اپنے رضاعی بھائی عبداللہ بن یقطر کواسی طرح خط دے کربھیجا، وہ بھی اسی طرح گرفتار ہوکر اسی طرح قصرامارت سے گراکرقتل کیے گئے، یہ قافلہ جب مقامِ ثعلبہ میں پہنچا تومعلوم ہوا کہ مسلم بن عقیل کوفہ میں قتل کردیئے گئے اور اب کوئی متنفس کوفہ میں امام حسین کا حمایتی نہیں ہے، اس خبر کے سننے سے تمام قافلہ پرمایوسی چھاگئی اور واپسی کا ارادہ ہوا؛ کیونکہ کوفہ کی جانب جانے میں قوی احتمال تھا کہ جوسلوک مسلم کے ساتھ ہوا ہے وہی اس قافلہ کے ساتھ ہوگا، یہ سن کرمسلم بن عقیل کے بیٹوں نے کہا کہ ہم کوہرگز واپس نہیں ہونا چاہیے، اب توہم مسلم کا قصاص لیں گے؛ ورنہ انھیں کی طرح جان دیں گے، دوسرے یہ کہ حسین بن علی مسلم بن عقیل کی طرح نہیں ہیں، ان کوجب کوفہ والے دیکھیں گے توضرور ان کے شریک حال ہوجائیں گے اور ابنِ زیاد کوگرفتار کرلیں گے، اس قافلے میں کئی سو آدمی شامل تھے اور راستے میں لوگ شامل ہوہوکر اس کی تعداد بڑھارہے تھے؛ لیکن ثعلبہ میں اس خبرکوسن کرجب قافلہ آگے بڑھا تودوسرے قبائل کے لوگ بتدریج جدا ہونے شروع ہوئے؛ یہاں تک کہ خاص اپنے خاندان اوور قبیلے کے لوگ باقی رہ گئے، جن کی تعداد ستر اسی کے قریب بیان کی جاتی ہے، بعض روایتوں میں ڈھائی سوکے قریب بیان کی گئی ہے۔