انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حدیث کے مختلف موضوع یہ بات آپ کے سامنے آچکی ہے کہ حدیث کا موضوع، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی اورصحابہ کرامؓ کی شخصیات کریمہ ہیں اور یہ بات بھی آپ پر پوری طرح روشن ہوئی کہ ان حضرات کے مختلف مواقف کو سمجھنے کے لیے ان کی مرویات کے مختلف ادوار کا تاریخی مطالعہ اورمختلف علمی حلقوں میں ان کے زیر عمل آنے اورمختلف ائمہ کے تعامل پر نظر کرنا بہت ضروری ہے اوریہ محدثین کا ہمیشہ موضوع رہا ہے، اب یہ بات بھی جان لیجئے کہ حدیث کا موضوع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام ؓ کے صرف تعبدی امور اور سنن ہی نہیں، علم حدیث ان کی انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں پر مشتمل ہے،محدثین نے انسانی زندگی کے تمام دوائر،عقائد وافکار، اعمال وعبادات، تقویٰ واحسان،اخلاق، معاملات اوروقائع و سیرپر محنت کی ہے اوران تمام ابواب زندگی میں امت کو حضورﷺ اورصحابہ کرامؓ کی تعلیمات قدسیہ سے جلا بخشی ہے،پچھلوں کو پہلوں سے وابستہ رکھنے کے لیے کتب حدیث میں کتاب التفسیر جیسے ابواب بھی قائم کئے ہیں، جگہ جگہ قرآن کریم کی آیات سے احادیث پر باب باندھے ہیں، اورعملا بتایا ہے کہ حدیث کا موضوع قرآن کریم کی عملی تفصیل اور امت کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرامؓ کی زندگیوں کی ایک معیاری تشکیل ہے۔ اسلامی زندگی کی تشکیل میں صحابہؓ کے عمل کو سنت کہنا اورپچھلوں کے لیے اسے لازم کرنا فقہاء محدثین کے ہاں عام رہا ہے، حضورﷺ کا ارشاد: ان ابن مس ود سن لکم سنۃ فاستنوا بھا" (مصنف عبدالرزاق، باب اللذی یکون لہ وترہ وللامام شفع، حدیث نمبر:۳۱۷۶، المکتبۃ الاسلامی، بیروت) آپ سن آئے ہیں "قد سن لکم معاذ فاقتدوابہ" (المعجم الکبیر، باب معاذ بن جبل الانصاری، حدیث نمبر:۱۷۰۲۸، صفحہ نمبر:۲۰/۱۳۴۔ مسنداحمد، حدیث نمبر:۲۲۱۷۷، صفحہ نمبر:۵/۲۴۶، شاملہ) بھی آپ سن چکے، اب حضرت سعید بن المسیبؓ (۹۳ھ ) کی تصریح بھی ملاحظہ فرمائیں،ایک مسئلہ جو کاتب وحی حضرت زید بن ثابتؓ سے منقول تھا، اس کے بارے میں فرماتے ہیں،انہ السنۃ (یہ سنت ہے) علامہ سرخسی (۴۹۰ھ) لکھتے ہیں "انہ السنۃ" یعنی سنۃ زید بن ثابت۔ (المبسوط:۲۲/۷۹) ایک شخص نے آپ سے مسئلہ پوچھا،آپ نے دریافت کیا آیا وہ عراق سے ہے،(یعنی کچھ پڑھا لکھا ہے؟) اس نے کہا نہیں، میں ایک ناواقف طالب علم ہوں،آپ نے بتلایا سنت یوں ہی چلی آرہی ہے،آپ نے اسے حضرت زید بن ثابتؓ سے لیا ہے۔ "أَعِرَاقِيٌّ أَنْتَ ؟ قَالَ : لَا بَلْ جَاهِلٌ مُتَعَلِّمٌ قَالَ هَكَذَا السُّنَّةُ أَرَادَ سُنَّةَ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ" (الجوہرۃ النیرۃ:۲/۲۱۵۔شاملۃ:۸/۵) ایسا ایک واقعہ نہیں،تاریخ وحدیث میں ایسے بے شماروقائع ملتے ہیں جہاں صحابہ کرام کے اعمال اورفیصلوں کو امت میں سنت کی جگہ دی گئی، سو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حدیث کا موضوع حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی اورصحابہ ؓ کی شخصیات کریمہ اوران کے ساتھ ان کی زندگیوں کے تمام دوائر اوران کے تمام ادوار بھی اس فن کا موضوع سمجھے گئے ہیں۔ حضرت سعید بن المسیب رضی اللہ تعالی عنہ (۹۷ھ )کون ہیں؟تابعی کبیر جنہیں تابعین میں تقریبا وہی درجہ حاصل ہے جوصحابہؓ میں حضرت ابوبکررضی اللہ تعالی عنہ کو، فرق یہ ہے کہ حضرت ابوبکر کا تمام صحابہ سے افضل ہونا ایک قطعی اوراجماعی بات ہے جسے خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق حاصل تھی اورحضرت سعید بن المسیب کی تابعین پر فضیلت اس وقت کے کچھ اکابر کا نظریہ تھا، اس فضل و کمال کے ساتھ آپ کا حضرت زید کے عمل کو سنت کہنا اسلام کے ایک اصول کا پتہ دیتا ہے۔ پھر حضرت سعید بن المسیبؓ نے اپنے اس موقف پر کوئی دلیل پیش نہیں کی، اتنا اطمینان فرمایا کہ سائل کوئی عالم تو نہیں؟ غیر عالم کے لیے یہی ہے کہ جب اسے کسی صحابی کی کوئی بات ملے وہ اس پر اعتماد کرتے ہوئے اسے اپنالے اور دلائل کی بحث میں نہ پڑے، دلیل سے بحث علماء کا کام ہے، اسلام میں سنت اسی سے قائم ہوئی ہے کہ جہاں کوئی ستارہ چمکا تابعین اتباع کرتے ہوئے اس کی روشنی میں چلنے لگے، یہ تو ہے کہ کوئی ستارہ زیادہ چمکا اورکوئی کم ؛لیکن ملے گی اس سے ہمیشہ روشنی اندھیرا کبھی نہ ملے گا۔