انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** صحابہؓ کا حضورؐ کی حدیث بیان کرتے وقت قرآن سے استشہاد کرنا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا عقیدہ تھا کہ بیشک حضورﷺ کا عمل اور وہ تمام امور جن کو آپﷺ نے اپنے سکوت سے سند بخشی اسلام میں قانونی حیثیت رکھتے ہیں،لیکن یہ سب حضرات جانتے تھے کہ اللہ تعالی نے ہی حضورﷺ کو قرآن سکھلایا اوراس کا بیان سمجھایا ہے،سو قرآن کریم کو وہ بلاشبہ منبع العلم اوراصل الاصول جانتے تھے اور کبھی حضورﷺ کے بیان کردہ مضمون پر قرآن کریم کی کوئی آیت بھی پڑھ دیتے تھے، یہ اس لیے نہیں کہ اس آیت سے اس مضمون کو سند فراہم کرنے کی ضرورت تھی؛ بلکہ اس لیے کہ قرآن وحدیث میں ایک لطیف ربط ہمیشہ امت کے سامنے رہا ہے، فرمودہ رسالت تو ہر حال میں حجت اورسند ہے لیکن اس پر قرآن کی سربراہی بھی اپنی جگہ قائم رہنی چاہئے، صحابہ کرامؓ حاملین قرآن تھے ان پر "بِأَيْدِي سَفَرَةٍ، كِرَامٍ بَرَرَةٍ " (عبس :۱۶) کا سایہ تھا وہ جہاں بھی موقع مناسب سمجھتے قرآن کریم کی اس اصولی حیثیت کا راز کھول دیتے اوریہ ارتباط کبھی استشہاد کی صورت بھی اختیار کرجاتا۔ یہاں ہم چند روایات پیش کرتے ہیں جن میں مختلف صحابہ کرامؓ نے حدیث کی صحت کے بارے میں قرآن پاک کے حوالے دیئے۔ (۱)حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: "تَفْضُلُ صَلَاةُ الْجَمِيعِ صَلَاةَ أَحَدِكُمْ وَحْدَهُ بِخَمْسٍ وَعِشْرِينَ جُزْءًا وَتَجْتَمِعُ مَلَائِكَةُ اللَّيْلِ وَمَلَائِكَةُ النَّهَارِ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ"۔ (بخاری:۲/۶۵۱) ترجمہ: تم میں سے ہر شخص کی جماعت کی نماز تنہا نماز سے پچیس درجے (ثواب میں) زیادہ ہے اوررات کے فرشتے اور دن کے فرشتے فجر کی نماز میں جمع ہوتے ہیں۔ اس حدیث کو پیش کرنے کے بعد حضرت ابوہریرہؓ نے قرآن کریم کی اس آیت سے استشہاد فرمایا: "إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا"۔ (بنی اسرائیل:۷۸) ترجمہ:یاد رکھو کہ فجر کی تلاوت میں مجمع حاضر ہوتا ہے۔ (بخاری،باب فضل صلاۃ الفجر فی جماعۃ:حدیث نمبر:۶۱۲) اس قسم کی روایات پتہ دیتی ہیں کہ صحابہ کرامؓ اورمحدثین عظام نے ہمیشہ حدیث کو قرآن کے تابع سمجھا ہے۔ (۲)حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت والے مومنین کرام گناہگار مومنین کے بارے میں اللہ تعالی سے بخشش کی درخواست کریں گے اوراللہ تعالی فرمائیں گے نکال لو ہر اس شخص کو جس کے دل میں ذرہ بھر بھی ایمان ہو. (مصنف عبد الرزاق:۱۱/۴۱۰) اس حدیث کو پیش کرتے ہوئے حضرت ابو سعیدؓ نے قرآن کریم کی ایک آیت تلاوت فرمائی اور کہا: "فَإِنْ لَمْ تُصَدِّقُونِي فَاقْرَءُوا، إِنَّ اللَّهَ لَا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضَاعِفْهَا وَيُؤْتِ مِنْ لَدُنْهُ أَجْرًا عَظِيمًا"۔ (النساء:۴۰) ترجمہ: پس جو شخص اس حدیث کی تصدیق نہیں کرتا اس کو چاہئے کہ آیت کو پڑھے، بلاشبہ اللہ تعالی ایک ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا اور اگرنیکی ہو تو اس کو دوگنا کردیتا ہے اورا پنے ہاں سے بڑا اجر وثواب دیتا ہے۔ (بخاری،بَاب قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى وجوہ یومئذناضرہ،حدیث نمبر:۶۸۶۶) یہ وہی مضمون ہے جو حدیث کا ہے؛ سو اب تو حدیث کی تصدیق ہوگئی اور معلوم ہوگیا کہ وہ صحیح تھی غور کیجئے صحابہؓ کرام کس اہتمام سے حدیث کی تائید میں قرآن لارہے ہیں، کیا اب بھی کوئی کہہ سکتا ہے کہ حدیث قرآن کے خلاف ایک عجمی سازش تھی۔ (مزیدتفصیل،اٰثارالحدیث:۲۷۰) (۳)حضرت ابوبکرصدیقؓ نے آنحضرتﷺ کی وفات پر خطبہ دیا اورفرمایا: پس جو تم میں سے محمدﷺ کی عبادت کرتا ہے تو محمدﷺ تو انتقال فرما گئے اور جو تم میں سے اللہ تعالی کی عبادت کرتا ہے تو اللہ تعالی تو زندہ ہے جو نہیں مرے گا۔ اور پھر استشہاداً یہ آیت پڑھی، امام بخاریؒ اسے نقل کرتے ہیں۔ وَمَا"ثم تلا هذه الاية وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلَى عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ"۔ (آل عمران:۱۴۴) ترجمہ: اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم تو ایک رسول ہیں،آپ سے پہلے بہت سے رسول ہوچکے: پھرکیا اگر وہ فوت ہوگئے یا مارے گئے تو کیا تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟اورجو کوئی الٹے پاؤں پھر جائے گا،وہ ہرگز اللہ کا کچھ نہ بگاڑسکے گا اوراللہ ثواب دے گا شکر گزاروں کو۔ دیکھئے حضرت صدیق اکبرؓ اس نازک موقع پر کس صفائی سے قرآن پاک سے استدلال کررہے ہیں، حضورﷺ کی وفات کے بعد یہ آپ کا پہلا خطبہ تھا،گویا صحابہ کرام کا حضورﷺ کی وفات کے بعد سب سے پہلا اجماع قرآن پاک کی اساسی سربراہی پر ہوا۔ (۴)ایک شخص کا یہودی باپ مرگیا وہ زندگی میں تو اس کی خدمت کرتا رہا؛ لیکن اس کے جنازے میں نہ گیا، محدث عبدالرزاق روایت کرتے ہیں کہ اس پر حضرت عبداللہ بن عباس نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ "فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لِلَّهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ"۔ (التوبۃ:۱۱۴) ترجمہ: پھر جب کھل گیا حضرت ابراہیمؑ پر کہ وہ دشمن ہے اللہ کا تواس سے ایک طرف ہوگیا۔ دیکھا! صحابہ کس طرح روز مرہ کی ضروریات میں قرآن سے استشہاد کرتے تھے،حدیث کی راہ سے قرآن پاک تک رسائی ان کے لیےبڑی دولت سمجھی جاتی تھی. زندگی میں باپ کے مسلمان ہوجانے کی امید بھی تھی جو اس کی وفات پر اٹھ گئی نیز خدمت والدین ان کی ضرورت پر موقوف ہے،ایمان پر نہیں، والدین غیر مسلم بھی ہوں اورخدمت کے محتاج ہوں تو اولاد پر ان کا حق ہے،ہاں موت مسلم اور غیر مسلم میں ابدی فاصلہ قائم کردیتی ہے۔