انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** قیبہ بن مسلم باہلی حجاج نے قتیبہ بن مسلم باہلی کوسنہ۸۶ھ میں امیرخراسان مقرر کیا تھا، قتیبہ نے مرو میں پہنچ کرایاس بن عبداللہ بن عمرو کوصیغہ جنگ وصیغہ پولیس کا افسر مقرر کیا اور عثمان بن سعدی کومحکمہ مال سپرد کیا اور خود ایک زبردست فوج لے کرطالقان کی طرف روانہ ہوا وہاں ترکوں کا بادشاہ صغد کی خدمت میں حاضر ہوا اور فرماں برداری وخراج گزاری کا اقرار کرکے آخردن وشومان یعنی بلادِ طغارستا نکے حکمرانوں پرچڑھائی کرنے کی ترغیب دی، قتیبہ جب آخرون وشومان کے قریب پہنچا تووہاں کے بادشاہوں نے بھی اطاعت وخراج گزاری کا اقرار کرکے صلح کی اور قتیبہ اپنے بھائی صالح کوفرغانہ کی طرف بھیج کرخود مرو میں واپس آیا، صالح نے کاشان، درشت، واخشکیت وغیرہ بلادِ فرغانہ کوفتح کرلیا، سنہ۸۷ھ میں قتیبہ نے علاقہ بخارا پرفوج کشی کی اردگرد کے ترکوں نے مل کرمقابلہ کیا؛ مگرسب ناکام رہے اور لشکرِ اسلام کے ہاتھ بے قیاس مال غنیمت آیا، سنہ ۸۸ھ میں اہل صغد وفرغانہ نے سرکشی اختیار کی اور بادشاہ چین کے ہمشیرزادہ کواپنا افسربناکر دولاکھ کی جمعیت سے مقابلہ پرتیار ہوے۔ قتیبہ نے حملہ کرکے شکست دی اور مرو کوواپس چلا آیا، سنہ۸۹ھ میں بخارا، کش، نسف، صغد کے سرداروں نے مل کربغاوت اختیار کی اور قتیبہ نے حملہ آور ہوکر ان کوشکست دی اور فرماں برداری پرمجبور کیا اور مرو کوواپس چلا آیا۔ سنہ۹۰ھ میں دردان بادشاہ بخارا اور بادشاہ صغد اور اردگردکے ترک سرداروں نے پھربغاوت پراستاد گی کی؛ مگرنیزک طرخان والیٔ بادغیں مسلمانوں کا فرماں بردار رہا، قتیبہ نیزک، طرخان کوہمراہ لے کربخارا کی طرف بڑھا، ترکوں نے مقابلہ پرخوب ہمت دکھائی، اوّل مقامی مقدمۃ الجیش کوشکست ہوئی؛ لیکن پھرسنبھل کراسلامی لشکر نے حملہ کیا توترکوں کے مورچوں پرقابض ہوگئے، ترکوں کا خاقان اور اس کا لڑکا مجروح ہوکربھاگا اور مسلمانوں کوفتح عظیم حاصل ہوئی، طرخون والیٔ صغد نے سالان جزیہ ادا کرتے رہنے کا اقرار کیا اور قتیبہ مرو کی طرف واپس ہوا، قتیبہ کے واپس آتے ہی نیزک طخارستان میں پہنچ کرباغی ہوگیا، اصبہند بادشاہ بلخ وباذان بادشاہ مرور دود، بادشاہ طالقان وفایارب والیٔ جورجان، بادشاہ کابل سب نے ایک زبردست سازش کی اور متفق ہوکر قتیبہ کے عاملوں کونکال دیا، قتیبہ نے اپنے بھائی عبدالرحمن بن مسلم کوبارہ ہزار فوج دے کربھیجا کہ مقام بروقان میں قیام کرنا اور موسم سرما کے ختم ہوتے ہی قتیبہ نے نیشاپور کی طرف فوجیں روانہ کیں اور باغیوں پرکئی جانب سے حملے کئے، نتیجہ یہ ہوا کہ سب کوقرار واقعی سزادی اور سب نے عجزوفرماں برداری کا اقرار اور ادائے جزیہ کا وعدہ کیا اسی سلسلے میں سمنگان کا قلعہ بھی فتح کرکے حکومت اسلامیہ میں شامل کیا، نیزک گرفتار ہوکر مقتول ہوا۔ بادشاہِ جرجان کی خطا معاف کرکے اس کواس کے ملک پرقابض کردیا گیا؛ غرض ان ترک سرداروں نے بار بار بغاوت کی اور ہرمرتبہ قتیبہ نے ان کوشکست دی؛ یہاں تک کہ رفتہ رفتہ ان کے دماغوں سے بغاوت وسرکشی کا خیال دور ہونے لگا سنہ۹۲ھ میں رتبیل بادشاہ سجستان نے بغاوت کا ارادہ کیا، قتیبہ فوج لے کراس کے سرپرپہنچا اور اس نے معافی مانگ کرزرجزیہ ادا کیا۔ سنہ۹۳ھ میں قتیبہ نے خوارزم کا ملک فتح کرکے وہاں کے بادشاہ کوخراج کی ادائیگی کا اقرار لے کرواپس دے دیا، جس زمانہ میں قتیبہ خوارزم کوفتح کررہا تھا اہلِ صغد نے یہ دیکھ کرکہ قتیبہ کوہم سے بہت فاصلہ ہے، اس کے عامل کونکال دیا اور بغاوت اختیار کی، قتیبہ نے مالِ غنیمت خوارزم سے مرو کی طرف روانہ کیا اور خود فوج لے کرنہایت تیز رفتاری سے صغد کی جانب روانہ ہوا۔ قتیبہ کی آمد کا حال سن کرخاقان چین سے اہل صغد نے امداد طلب کی اور اس نے اپنے نامور سپہ سالاروں اور شہزادوں کوقتیبہ کے مقابلہ کی غرض سے روانہ کیا، سمرقند کے قلعہ پرترکوں نے مقابلہ کی تیاریاں کیں، قتیبہ نے آکر لڑائی شروع کردی، نہایت خوں ریز معرکے ہوئے، خاقان چین کا بیٹا مارا گیا، قلعہ کومسلمانوں نے زوروقوت کے ساتھ فتح کرلیا، ہزارہا ترک تہ تیغ ہوئے ان پرنہایت بھاری خراج مقرر کیا اور نامور سردار جوترکوں کے قید ہوئے تھے، حجاج کے پاس بھیجے گئے، انھیں قیدیوں میں ایک عورت تھی جویزدجرد کی نسل سے تھی، اس عورت کوحجاج نے ولید بن عبدالملک کے پاس بھیج دیا، ولید نے اس سے نکاح کرلیا جس سے اس کا بیٹا یزید پیدا ہوا، مرو میں واپس آکر قتیبہ نے مغیرہ بن عبداللہ کونیشاپور کا عامل مقرر کیا۔ سنہ۹۴ھ میں اہلِ شاش نے سرکشی کی علامات ظاہر کیں، قتیبہ نے اہلِ بخارا، کش، نسف، خوارزم سے امدادی افواج طلب کیں، سب نے فوجیں روانہ کیں اور بیس ہزار کا لشکر جمع ہوگیا، قتیبہ نے خود مقام خجند پرڈیرے ڈالے اور فوج کوسرداروں کے ساتھ شاش پرروانہ کیا، شاش مفتوح ہوا اور قتیبہ مرو کوواپس آیا، مرو کوواپس آتے ہوئے اس نے سنا کہ حجاج کا انتقال ہوگیا، قتیبہ نے اس کے بعد کاشغر تک کے تمام علاقے پرقبضہ کرکے ترکستان پرپورے طور پراسلامی تسلط قائم کردیا، اس کے بعد ہبیرہ بن مشمرج کلابی کے ہمراہ چند شخصوں کی ایک سفارت بادشاہ چین کے پاس بھیجی کہ اسلامی سیادت کوتسلیم کرو؛ ورنہ ملکِ چین کوغازیانِ اسلام کے گھوڑے روند ڈالیں گے، اس سفارت کے پہنچنے سے بادشاہِ چین مرعوب ہوگیا اور اس نے قیمتی تحائف اور نذرانے بھیج کرقتیبہ سے صلح کی درخواست کی۔