انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** ۹۔ایوب بن ابی تمیمہ سختیانیؒ نام ونسب ایوب نام،ابوبکر کنیت ،والد کا نام کیسان تھا،لیکن وہ کنیت سے زیادہ مشہور ہیں ایوب قبیلہ عنزہ کی غلامی میں تھے۔ فضل وکمال ایوب اگرچہ غلام تھے،لیکن اقلیم علم و عمل کے تاجدار تھے،علامہ ابن سعد لکھتے ہیں : کان ثقۃ ثبنا فی الحدیث جامعا عدلا ورعا کثیر العلم حجۃ (ابن سعد ،ج۷،ق۲،ص۱۴) امام نووی لکھتے ہیں کہ ان کی جلالت ان کی امامت ان کے حفظ،ان کی توثیق،ان کے وفور علم ان کی فہم اور ان کی سربلندی پر سب کا اتفاق ہے (تہذیب الاسماء،ج اول،ق اول،ص ۱۳۱) ابن عماد حنبلی ان کو علمائے علام میں لکھتے ہیں۔ (شذرات الذہب ،جلد اول،ص۱۸۰) اکابر علماء کا اعتراف ان کے عہد کے تمام اکابر علماء ان کے علمی اور اخلاقی کمالات کے معترف اوران کی جلالت شان پر متفق ہیں،شعبہ ان کو سید العلماء کے لقب سے ملقب کرتے تھے،ابن عینیہ کہتے تھے کہ میں چھیاسی ۸۶ تابعین سے ملا مگر ان میں سے کسی کو ایوب کے مثل نہ پایا ،حماد بن زید کا بیان ہے کہ انہیں جن جن محدثین اورعلماء کےپاس بیٹھنے کا اتفاق ہوا،ایوب ان سب سے افضل اورپابند سنت تھے،ایوب جھبذ العلماء کہلاتے تھے ، ہشام بن عروہ کہتے تھے کہ بصرہ میں ایوب کا مثل نہ تھا، حضرت حسن بصری ان کو نوجوانانِ بصرہ کا سردارکہتے تھے ابن عون کہتے تھے کہ ابن سیرین کی موت کے بعد ہم لوگوں کے سامنے سوال پیدا ہوا کہ اب کون باقی رہ گیا ؟ لیکن پھر خود ہی جواب مل گیا کہ ایوب موجود ہیں۔ (تہذیب الاسماء،جلداول، ق اول، ص ۱۳۲،تذکرہ الحفاظ :۱/۱۳۱) حدیث بصرہ کے ممتاز ترین حفاظِ حدیث میں تھے،امام ذہبی لکھتے ہیں کہ وہ حافظ اور اعلام میں تھے۔ (تذکرہ الحفاظ:۱/۱۳۱) حدیث میں انہوں نے بڑے بڑے تابعین سے فیض پایا تھا ،عمر بن سلمہ جرمی،ابورجاء عطاروی،ابو عثمان تہمدی،ابو الشعشاء جابر بن زید، حسن بصری،ابن سیرین،سالم بن عبداللہ ،نافع بن ابی ملیکہ،ابن منکدر،حمید بن بلال ،ابو قلابہ جرمی،قاسم بن محمد،عبدالرحمن بن قاسم ،عکرمہ اورعطاءوغیرہ جیسے اکابر علماء سے سماع حدیث کیا تھا،حدیث میں ان کی وسعت علم کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ ان کی مرویات کی تعداد آٹھ سو اوربعض روایات کے مطابق دو ہزار تک پہنچتی ہے۔ (تہذیب :۱/۳۹۷،۳۹۹،تہذیب الاسما،جلد۱،ق۱،ص:۱۳۲) امام مالک سفیان ثوری،ابن عینیہ،ابن ابی عرویہ،معمر اعمش،قتادہ اورشعبہ وغیرہ جیسے اکابر علماء اورآئمہ آپ کے خوشہ چینیوں میں تھے۔ ارباب فن میں آپ کی مرویات کا پایہ: کیفیت کے اعتبار سے ان کی روایات کا جو پایہ تھا،اس کا اندازہ ذیل کے راویوں سے ہوگا ابو حاتم کا ان کی روایات کے متعلق خیال تھا کہ ان کے جیسے شخص کے متعلق پوچھنے کی ضرورت نہیں، ابن سیرین ان کو مثبت کہتے تھے، مسلم بن اکیس کا بیان ہے کہ میں نے ابن سیرین سے پوچھا کہ آپ سے فلاں فلاں حدیث کس نے بیان کی،انہوں نے جواب دیا مثبت مثبت ایوب نے ابن مدائنی،نسائی اورابن خیثمہ وغیرہ سب ان کی روایات کو اعلیٰ درجہ کی سمجھتے تھے،شعبہ ان کی ان روایات کو جن میں انہیں خود کچھ شک ہوتا، دوسروں کی یقینی اورغیر مشتبہ روایات پر ترجیح دیتےتھے،ایک مرتبہ انہوں نے ان سے ایک حدیث پوچھی انہوں نے جواب دیا مجھے اس میں شک ہے،شعبہ نے کہا آپ کا شک مجھے دوسروں کے یقین سے زیادہ پسند ہے۔ (تہذیب :۱/۳۹۸) فقہ فقہ میں بھی پورا کمال حاصل تھا،شعبہ انہیں سید الفقہا کہتے تھے،لیکن انتہائی احتیاط کی وجہ سے ان کے کمالات فقہی ظاہر نہ ہوسکے۔ (تہذیب الاسماء،ج ۱،ق۱،ص۱۳۱) احتیاط ان محدثانہ اور فقہی کمالات کے باوجود وہ حدیث بیان کرنے اور فقہی مسائل بتانے میں بڑے محتاط تھے،حماد بن یزید بیان کرتے ہیں کہ ایوب اوریونس سے زیادہ میں نے سوالات کے جوابات میں لا علمی ظاہر کرنے والا نہیں دیکھا،جواب بھی دیتے تھے تو جواب دینے سے پہلے سائل کے حافظہ کا امتحان کرلیتے تھے،کہ وہ ان کے جواب کو غلط نقل نہ کرے،حماد بن یزید بیان کرتے ہیں، کہ جب کوئی شخص ایوب سے کسی چیز کے متعلق پوچھتا تھا تو پہلے اس کا سوال دہراتے تھے،اگر وہ بعینہ پہلی مرتبہ کی طرح دہرادیتا تو جواب دیتے اوراگر ذرا بھی تغیر وتبدل اورخلط ملط کرتا تو جواب نہ دیتے اورجواب میں اپنی رائے کو دخل نہ دیتے تھے؛بلکہ صرف احادیث وسنن کا حکم بتادیتے اوراگر کوئی سند نہ ہوتی تو لا علمی ظاہر کردیتے ،ایک مرتبہ ایک شخص نے کسی چیز کے متعلق سوال کیا،جواب دیا مجھے کوئی علم نہیں، سائل نے کہا اپنی رائے سے بتائیے ،فرمایا میری رائے بھی کوئی نہیں ہے۔ (ابن سعد،جلد۷ق۲،ص۱۴) رائے کو وہ ایک باطل شے سمجھتے تھے کسی نے ان سے کہا آپ مسائل میں رائے کیوں نہیں دیتے،آپ نے یہ تمثیلی جواب دیا کہ کسی نے گدھے سے کہا تم جگالی کیوں نہیں کرتے،اس نے کہا باطل شے کا چبانا پسند نہیں کرتا۔ (تذکرہ الحفاظ:۱/۱۱۷) پندار علم کا خوف اوراس سے احتراز انسان کسی مرتبہ اوردرجہ پر پہنچ کر مشکل ہی سے عجب وغرور سے بچ سکتا ہے، اس لیے ایوب ہمیشہ اس سے خائف رہتے تھے اورکہا کرتے تھے کہ کون انسان اس سے محفوظ رہ سکتا ہے، جب کہ ایک شخص حدیث بیان کرتا ہے اوراس کی بنا پر قوم کے دل میں وہ ایک مقام حاصل کرلیتا ہے، اس وقت اس کے دل میں بعض چیزوں (عجب وغرور وغیرہ)کی آمیزش ہوجاتی ہے۔ (ابن سعد،جلد۷ق۲،ص۱۴) لیکن ان کا دامن اس سے محفوظ تھا، علم کا ایک پندار یہ بھی ہے کہ صاحب علم اپنی لا علمی دوسروں پر ظاہر نہ ہونے دے ،اوپر گزرچکا ہے کہ وہ بہتر سائلوں کو صاف جواب دیتے تھے کہ مجھے نہیں معلوم، بعض سائلوں سے کہہ دیتے کہ کسی دوسرے صاحب علم سے پوچھ لو۔ (ابن سعد،جلد۷،ق۲،ص۱۴) اہل علم کی عزت اہل علم کی بڑی عزت ومحبت کرتے تھے ،خواہ وہ کیسے ہی معمولی حالت میں کیوں نہ ہو،اس کی وقعت میں فرق نہ آتا،ربیع بن مسلم،بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں ایوب سختیانی کا ہم سفر تھا، ابطح میں ایک لحیم شحیم شخص سے جس کے جسم پر نہایت موٹا لباس تھا ملاقات ہوئی وہ ایوب کو پوچھ رہا تھا میں نے ان کو اطلاع دی کہ ایک شخص آپ کو تلاش کررہا ہے، جیسے ہی ایوب نے اس شخص کو دیکھا دوڑکر گلے لپٹ گئے،لوگوں نے پوچھا یہ کون شخص ہے معلوم ہوا سالم بن عبداللہ ہیں۔ (ایضا:۱۵) زہد وعبادت ایوب میں جس درجہ کا علم تھا،اس سے کچھ بڑھ کر زہد وتقویٰ تھا،امام مالک کا بیان ہے کہ وہ علمائے باعمل صاحب خشوع بڑے عبادت گزار اوراخیار لوگوں میں تھے (تہذیب التہذیب:۱/۳۹۸) چالیس مرتبہ حج کے شرف سے مشرف ہوئے۔ (تذکرہ الحفاظ :۱/۱۱۷) عبادت کا اخفاء لیکن ہمیشہ عبادت وریاضت کو چھپاتے تھے،فرماتے تھے کہ آدمی کے لیے اپنے زہد کا چھپانا ظاہر کرنے سے بہتر ہے (ابن سعد،جلد۷،ق۲،ص۱۶)ساری ساری رات عبادت کرتے تھے ،لیکن لوگوں سے چھپانے کے لیے صبح کو اس طرح آواز بلند کرتے کہ سننے والوں کو معلوم ہوکہ ابھی سوکر اٹھے ہیں۔ (تذکرہ الحفاظ:۱/۱۱۷) ذات نبوی سے عقیدت ومحبت ذات نبوی کے ساتھ والہانہ شیفتگی تھی،حدیث نبوی سن کر ایسا زار زار روتے کہ دیکھنے والوں کو رحم آجاتا (تذکرہ الحفاظ:۱/۱۲۴) امام مالک کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کے ساتھ ان کے اجلال کو دیکھ کر ان سے حدیثیں لکھنی شروع کردی تھیں۔ (تہذیب التہذیب :۱/۳۹۷) اتباع رسول اس عقیدت ومحبت کا ایک نتیجہ اتباع سنت میں اہتمام تھا حمادبن زید بیان کرتے ہین کہ جن جن لوگوں کے پاس میں بیٹھا ان سب میں زیادہ افضل اور متبع سنت ایوب کو پایا۔ (تہذیب السماء،جلد۱،ق۱،ص ۱۳۲) شہرت سے نفرت اوراہل دنیا سے اجتناب ان اوصاف اورکمالات کی وجہ سے ان کی ذات مرجع خلائق بن گئی تھی ؛لیکن دنیا،اہل دنیا اورشہرت ونمود سے دور بھاگتے تھے،عام مجمعوں اورلوگوں کی نظروں سے بچنے کے لیے راستہ چلتے میں عام مالوف راستوں کو چھوڑ کرنا مانوس اور دور دراز راستہ اختیار کرتے،حماد بن زید بیان کرتے ہیں کہ راہ چلتے میں ایوب مجھے دور کے راستوں سے لے جاتے میں ان کو قریب کا راستہ بتاتا تو کہتے میں ان مجالس سے بچنا چاہتا ہوں، ایک دوسری روایت میں حماد بیان کرتے ہیں کہ ایوب مجھے ایسے راستوں سے لے جاتے کہ ان کی تلاش پر تعجب ہوتا اورمحض لوگوں کی نگاہ سے بچنے کے لیے ؛لیکن جب کسی کا سامنا ہوجاتا تو خود سلام میں پیش قدمی کرتے،ان کی شخصیت کی وجہ سے لوگ ان کے سلام کے جواب میں بہت کچھ اضافہ کرتے ان کو یہ امتیاز بھی گوارانہ تھا؛چنانچہ ان کے جوابات سن کر فرماتے ،خدایا تو خوب جانتا ہے کہ یہ میری خواہش نہیں ہے،خدایا تو خوب جانتا ہے کہ میری خواہش نہیں ہے۔ لوگوں کی نظر بچانے کے لیے اکثر دوسرے کو اپنے ساتھ چلنے کی اجازت نہ دیتے،شعبہ بیان کرتے ہیں کہ بسا اوقات میں اپنی ضرورت سے ان کے ساتھ جانا چاہتا تو وہ مجھے اجازت نہ دیتے اور گھر سے نکل کر مختلف گلیوں میں ادھر ادھر نکل جاتے تاکہ لوگ انہیں جاننے نہ پائیں۔ (تہذیب التہذیب:۳۹۷) اس غرض کے لیے اپنے طبقہ کی مالوف وضع چھوڑدی تھی کہ لوگوں کی نظر نہ پڑنے پائے اس زمانہ کے عابدوں اورزاہدوں کے پیراہن کا دامن چڑھا رہتا تھا اوریہ ان کا امتیازی نشان تھا، اس لیے وہ اپنے پیراہن کا دامن لٹکاتے تھے،مبعد بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایوب کی قمیص کا دامن لٹکتا ہوا دیکھ کر ان پر اعتراض کیا،انہوں نے کہا ، ابو عروہ اگلے زمانہ میں دامن لٹکا کر چلنے میں شہرت تھی اوراب سمیٹ کر چلنے میں ہے۔ (ابن سعد،جلد۷،ق۲،ص:۱۵) ارباب و دل وثروت سے گریز ارباب دول سے ملنے میں بہت گریز کرتے تھے اوراپنے گھر میں خلفا وسلاطین تک کے آنے کے روادار نہ تھے فرماتے تھے کہ مجھے اپنا لڑکا بکر دنیا میں سب سے زیادہ محبوب ہے؛ لیکن مجھ کو اسے دفن کردینا پسند ہے ،لیکن خلفاء کا پاس آنا پسند نہیں ہے۔ خوش اخلاقی اس سے یہ نہ قیاس کرنا چاہئے کہ وہ مردم بیزار اور کج خلق تھے ،وہ صرف اپنے کوچھپانے کے لیے لوگوں کے میل جول سے بچتے تھے ورنہ طبعاً نہایت خوش خلق تھے، حماد بن زید کا بیان ہے کہ میں نے ایوب سے زیادہ کسی کو لوگوں سے تبسم اور خندہ پیشانی کے ساتھ ملتے نہیں دیکھا، جب کوئی بیمار ہوتا،یا کسی کے یہاں موت ہوجاتی تو وہ عیادت اورتعزیت کے لیے ضرور جاتے اوریہ معلوم ہوتا کہ وہ شخص ان کی نگاہ میں سب سے زیادہ معزز اورمحترم ہے، ایسے موقعوں پر وہ معمولی معمولی درجہ کے آدمیوں کے یہاں بھی ضرور حاضری دیتے تھے،یعلی بن حکم نامی ایک غلام ان کا ہم محلہ تھا وہ مرگیا،اس کے صرف ایک ماں تھی،ایوب اس کے یہاں تین دن تک برابر گئے اوراس کے دروازے پر بیٹھتے تھے۔ (ایضاً:۱۶) وفات ۱۳۱ھ میں بصرہ میں طاعون کے مرض میں وفات پائی ،۶۳ سال کی عمر تھی،ایک سرخ چادر انہوں نے عرصہ سے کفن کے لیے مخصوص کردی تھی اوراس کو وہ احرام کی حالت میں اور رمضان کی تیسویں شب کو اوڑھتے تھے؛ لیکن یہ چادر مرنے سے پہلے چوری ہوگئی تھی۔ (ایضاً) جلبہ سرپر پٹے تھے جو سال میں ایک مرتبہ (غالباً حج کے موقع پر)منڈوایا کرتے تھے،سر اور داڑھی،دونوں کے بال سپید ہوگئے تھے،ان میں کبھی کبھی سرخ خضاب کرتے تھے۔