انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** کعب بن زہیر اسلمی کا ایمان لانا(ذی الحجہ۸ہجری) وہ شعرا جو حضور اکرم ﷺ کی ہجو کیا کرتے ان میں کعب بن زہیر اسلمی بھی پیش پیش رہتے، کعب بن زہیر عرب کے عظیم ترین شاعر تھے، یہ ان مجرموں کی فہرست میں شامل تھے جن کے متعلق فتح مکّہ کے موقع پر حضور اکرم ﷺ نے حکم دیاتھا کہ اگر وہ خانۂ کعبہ کے پردہ کو پکڑے ہوئے پائے جائیں تو بھی ان کو قتل کردیاجائے ؛لیکن یہ کسی نہ کسی طرح بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے، ان کے حقیقی بھائی حضرت بجیر بن زہیر حضور اکرم ﷺ کے ساتھ غزوۂ طائف کے بعد مکّہ واپس تشریف لائے تو انھوں نے اپنے بھائی کعب کو لکھا کہ " جن لوگوں نے آنحضرت ﷺ کو ایذائیں پہنچائیں یا آپﷺ کی ہجو میں سبقت کی ان کی گردنیں ماری جارہی ہیں اور جو لوگ گرفت سے بچ گئے ہیں وہ ادھر اُدھر سر چھپائے پھرتے ہیں، لہذا اگر تمہیں اپنی جان عزیز ہے تو جس قدر جلدہوسکے مدینہ پہنچ کر حضور ﷺ سے معافی طلب کرو کیونکہ جو کوئی شخص بھی توبہ کرکے آپﷺ کے پاس آتا ہے تو آپﷺ اسے معاف کردیتے ہیں، اگر تم اس کے لئے تیار نہیں تو اپنی نجات کے لئے کوئی اور جگہ تلاش کرلو" جب بجیر کا یہ مکتوب کعب کے پاس پہنچا تو ان پر زمین تنگ ہوگئی، اپنی جان کے لالے پڑتے نظر آئے ، کعب کے لئے جب کوئی چارۂ کار نہ رہا تو وہ مدینہ پہنچے اور قبیلہ جہینہ کے ایک آدمی کے پاس ٹھہرے جس سے ان کی جان پہچان تھی، وہ شخص کعب کو صبح کی نماز کے وقت حضور اکرم ﷺ کے پاس لے گیا، اس نے حضور ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی اور پھر کعب کو حضور ﷺ کی طرف اشارہ کرکے بتایا کہ وہ رسول اﷲ ہیں، ان کے سامنے کھڑے ہوکر امان مانگ لو، پھر کعب رسول اﷲ ﷺ کے سامنے جاکر کھڑے ہوئے، پھر بیٹھ گئے اور اپنا ہاتھ رسول اﷲ ﷺ کے ہاتھ پر رکھ دیا، آپﷺ انہیں پہچانتے نہ تھے، کعب نے کہا … یا رسول اﷲ! کعب بن زہیر تائب اور مسلمان ہوکر آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ہے اور امان کا طالب ہے، کیا اسے قبول فرمائیں گے اگر میں اسے آپﷺ کے پاس لے آوں، حضور اکرم ﷺ نے فرمایا ہاں، اب کعب نے بتلایا کہ یا رسول اﷲ ! میں ہی کعب بن زہیرہوں، ابن اسحا ق کا بیان ہے کہ یہ سنتے ہی ایک انصاری صحابی اچھل کر کعب پر آئے اور حضور اکرمﷺ سے پوچھے … یا رسول اﷲ! مجھے اور اس دشمنِ خدا کو چھوڑ دیجیے میں اس کی گردن تلوار سے اڑا دوں، حضور ﷺ نے فرمایا " اسے جانے دو ، یہ تائب ہوکر آیا ہے ، اسے پچھلی زندگی سے کوئی تعلق نہیں، یہ سن کر کعب بن زہیر انصار پر ناراض ہوگئے کہ کسی مہاجر نے ان کے خلاف کوئی بات نہ کہی تھی ، اس موقع پر کعب بن زہیر نے اپنا مشہور قصیدہ لامیہ حضور ﷺ کے سامنے پیش کیا جس کا پہلا شعر یہ ہے ،