انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
زکوۃ باؤنڈز،شیرز،پراویڈنٹ فنڈ،ڈپازٹ وغیرہ پر زکوٰۃ پراویڈنٹ فنڈ میں زکوٰۃ پراویڈٹ فنڈ کی رقم کا وہ حصہ جوتنخواہ سے کاٹ لیا جاتا ہے، اجرت ہے اور اس پرجواضافی رقم ملازمت کے اختتام پردی جاتی ہے وہ انعام ہویااُجرت، ملازم ابھی اس کا مالک نہیں اس لیے اس پرگزرے ہوئے دنوں کی زکوٰۃ واجب ہونے کی کوئی وجہ نہیں؛ البتہ فنڈ کا وہ حصہ جوملازمت کے درمیان تنخواہ سے کاٹ کرجمع ہورہا ہے، یہ چونکہ آزاد کی اُجرت ہوکر دین ضعیف قرار پاتی ہے، جس پرملازمین کوملکیت توحاصل ہے، ید، وقبضہ حاصل نہیں؛ لہٰذا اس رقم پرگزرے ہوئے دنوں کی زکوٰۃ واجب نہیں ہونی چاہیے۔ (ملخص جدید فقہی مسائل:۱/۲۱۵) کمپنی اور مشترک کاروبار کے حصہ داروں کی زکوٰۃ مشترکہ تجارت اور کمپنی فیکٹری وغیرہ کے حصہ داروں کی زکوٰۃ مجموعہ رقم اور مال پرواجب نہیںہوتی ہے؛ بلکہ ہرحصہ دار کی زکوٰۃ اس کے حصہ کے حساب سے ادا کرنا واجب ہوگا؛ لہٰذا جس کا حصہ نصاب کوپہنچے گا؛ اس پراپنے حصہ کی زکوٰۃ ادا کرنا واجب ہوگا اور جس کا حصہ نصاب کونہیں پہنچتا ہے اور اسکے پاس اس کے علاوہ اتنا مال نہیں ہے جس کوملاکرنصاب مکمل ہوسکتا ہے توایسے حصہ دار پرزکوٰۃ ہی واجب نہیں ہے اور جس کے پاس شرکت کے حصہ کے علاوہ اتنا مال ہے جس کوملاکرنصاب مکمل ہوجاتا ہے تواس پرزکوٰۃ واجب ہوجاتی ہے؛ لیکن وہ اپنے حصہ کی زکوٰۃ اپنے طور پرنکالا کریگا۔ (ایضاح النوادر:۲/۳۸، ناشر:مکتبہ الاصلاح ، مرادآباد) بیٹے کا مال اپنے کاروبار میں لگاکر ماہوار اسے متعینہ رقم دینے کا حکم آپ اپنے بچے کے مال کوتجارت میں لگاسکتے ہیں، اس صورت میں وہ آپ کا شریک ہوگا؛ لیکن اس شرکت کی حیثیت سے اسے نقصان سے بری رکھنا یاسوروپیہ ماہوار مقرر کردینا شرعاً درست نہیں، تجارت چونکہ ایسا اَمر ہے جس میں نفع اور نقصان دونوں کا احتمال ہے؛ لہٰذا آپ کوبحیثیت باپ اپنے بیٹے کا مال تجارت میں لگانے کا اختیار ہےاور اس کے بعد وہ نفع ونقصان دونوں میں شریک ہوگا، ہاں! اگرآپ بنظرِشفقت اپنے حصے میں سے سوروپے ماہوار اس کے لیے مقرر کردیں تویہ الگ بات ہے یاایسا کریں کہ سوروپیہ ماہوار اس کے حصہ نفع میں سے علی الحساب دیتے رہیں، سال دوسال میں حساب سے جوصورت بنے اس کے مطابق کرلیں: وَمَاتَرَدَّدَ مِنْ الْعُقُودِ بَيْنَ نَفْعٍ وَضَرَرٍ كَالْبَيْعِ وَالشِّرَاءِ تَوَقَّفَ عَلَى الْإِذْنِ۔ (رد المحتار على الدر المختار:شرح تنوير الابصار:۲۵/۲۳۶، شاملہ، موقع الإسلام۔ دیگرمطبوعہ:۶/۱۷۳، طبع سعید) (فتاویٰ عثمانیہ:۳/۷۳) باؤنڈز کی زکوٰۃ باؤنڈز اصل میں قرض کی سند اور اس کی دستاویز ہے؛ گوآج کل باؤنڈز کی بھی خریدوفروخت ہونے لگی ہے؛ مگرشرعا یہ ناجائز اور حرام ہے، فقہ کی اصطلاح میں باؤنڈز کی حیثیت دین قوی کی ہے، اس لیے قرض کی وصولی کے بعد گذشتہ سالوں کی زکوٰۃ بھی ادا کرنی ہوگی، سود کی شکل میں جورقم حاصل ہو وہ توحرام ہونے کی وجہ سے کل کی کل واجب التصدق ہے؛ لیکن اگراس شخص نے صدقہ نہ کیا ہو توپھراس کا حکم بھی زکوٰۃ کے باب میں دوسرے اموالِ حرام کا سا ہوگا، مال حلال کے ساتھ اس طرح مل جائے کہ سودی رقم کا حساب بھی محفوظ نہ رہے توامام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی رائے کے مطابق دوسرے اموال کے ساتھ ملاکر اس پربھی زکوٰۃ واجب ہوگی۔ (جدید فقہی مسائل:۱/۲۱۱) شیرز کی زکوٰۃ شیرز کی زکوٰۃ کے سلسلہ میں عام طور پریہ بحث کی جاتی تھی کہ شیرز کی نوعیت صنعتی ہے یاتجارتی؟ اگراس کی نوعیت صنعتی ہو یعنی اس کے ذریعہ مشنریز اور آلات خرید کئے جاتے ہوں اور پھران سے مال تیار کیا جاتا ہو تواصولی طور پرمشنریز کی صورت میں جوسرمایہ محفوظ ہے اس پرزکوٰۃ واجب نہیں ہونی چاہیے؛ البتہ جوحصص تجارت میں مشغول کئے جائیں ان پرزکوٰۃ واجب ہونی چاہیے؛ لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج کل حصص بجائے خود ایک تجارت بن گئے ہیں اور بڑے پیمانے پراس کی خریدوفروخت عمل میں آتی ہے؛ اسی لیے عصرِ حاضر کے محقق علماء نے شیرز کومطلق ایک تجارت تسلیم کیا ہے اور یہی موجودہ ماہرینِ اقتصادیات کی رائے ہے؛ لہٰذا شیرز بجائے خود سامانِ تجارت ہے اور اس میں زکوٰۃ واجب ہے، جن لوگوں نے اس نیت سے حصص خریدے ہوں کہ حصص کوباقی رکھتے ہوئے کمپنی جونفع دے اس سے استفادہ کرنا ہے، ان کوتوزکوۃ حصص کی اصل قیمت کے لحاظ سے ادا کرنی ہوگی، جوخود کمپنی کوتسلیم ہو اور جن لوگوں نے حصص اس مقصد کے لیے خرید کیا ہو کہ قیمت بڑھنے کے بعد اسے فروحت کردیں گے ان لوگوں کوموجودہ مارکٹ کی قیمت کے لحاظ سے حصص کی زکوٰۃ ادا کرنی چاہیے، مثلاً کمپنی کے نزدیک اس کی قیمت پچیس روپئے ہے اور بازار میں اس وقت یہ حصص ڈھائی سوروپئے کے حساب سے فروخت کئے جارہے ہیں توپہلی صورت میں پچیس روپئے کے حساب سے اور دوسری صورت میں ڈھائی سوروپئے کے حساب سے قیمت لگاکر زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی۔ (جدید فقہی مسائل:۱/۲۱۱،۲۱۲)