انوار اسلام |
س کتاب ک |
انبیاء علیہم السلام کی حیات کس طرح ہے؟ بقاء روح توظاہر ہے اس میں کوئی شک نہیں، جمیع مسلمانوں بلکہ جملہ انسانوںکی ارواح بالاتفاق باقی رہتی ہیں، فنا نہیں ہوتیں؛ پس انبیاء علیہم السلام یاشہداء پراحیاء کا اطلاق خصوصیت سے اس لئے ہوتا ہے کہ حیات سے مراد عدم تعطل اور موت بمعنی تعطل ہے، عام محاورات میں بھی تعطل پرموت کا لفظ اطلاق کیا جاتا ہے، ارواحِ انبیاء علیہم السلام چونکہ قبر میں معطل نہیں؛ بلکہ عبادات مثل اذان، نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ وغیرہ افعال میں مشغول ہیں؛ لہٰذا ان پرحیات کا لفظ اطلاق کیا گیا اور جولوگ دنیا میں اعمالِ خیر سے معطل تھے، برزخ میں بھی ان کی ارواح خیر سے معطل رہتی ہیں، اس تعطل پرموت کا لفظ اطلاق کیا جاتا ہے، نفوسِ سعیدہ کے لئے بڑی لذت عبادت میں ہی ہے؛ اگریہی نعمت ان سے قبر میں سلب کرلی جائے تو یہی امر ان کے لئے عذاب ثابت ہوگا؛ کیونکہ لذت اور عبادت کا سلب ہوجانا بھی ایک بڑا عذاب ہے؛ پس بموجب ارشادِ نبویؐ قُرَّۃُ عَیْنِیْ فِی الصَّلَاۃِان ارواح سعیدہ کوقبور میں بھی عبادات کی نعمت عطا فرماکر اُن کی آنکھیں ٹھنڈی کی جاتی ہیں، جیسے دنیوی حیات میں اعمالِ خیر کے ہزارہا مراتب ہیں، ایسے ہی دنیا میں تفاوتِ اعمال کی وجہ سے برزخی زندگی میں بھی تعطل اور اشتغال فی اعمال الخیر کے مختلف مراتب ہیں، اس تقریر سے حضور ﷺ کے اس ارشاد کا مطلب بھی واضح ہوجاتا ہے کہ جب کوئی شخص مجھ پرسلام کہتا ہے اس وقت اللہ تعالیٰ مجھ پرمیری روح کورد کرتے ہیں تومیں سلام کا جواب دیتا ہوں، اس کا مقصد یہی ہے کہ حضور ﷺ ہروقت معارفِ الہٰیہ میں مستغرق رہتے ہیں، جب کوئی سلام کہتا ہے اس کی طرف توجہ فرماتے ہیں، معارف الہٰیہ سے توجہ ہٹاکر عالم دنیا کی طرف توجہ کرنے کوردِّروح سے تعبیر کیا گیا، جیسا کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے بروقت نہ جاگنے کے عذر میں حضور ﷺنے فرمایا: إِنَّ اللَّهَ قَبَضَ أَرْوَاحَكُمْ حِينَ شَاءَ وَرَدَّهَا عَلَيْكُمْ حِينَ شَاءَ۔ (بخاری، كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ،بَاب الْأَذَانِ بَعْدَ ذَهَابِ الْوَقْتِ،حدیث نمبر:۵۶۰، شاملہ، موقع الإسلام) قبضِ ارواح سے مراد یہ ہے کہ نوم کی وجہ سے دنیوی افعال سے معطل ہوجاتی ہیں اور رَدْ سے مراد ہے افعالِ دنیا میں اشتغال وعدم تعطل، غرضیکہ انبیاء، شہداء اور اولیاء چونکہ قبور میں افعالِ خیر سے معطل نہیں، اس لئے ان پراحیاء کا اطلاق کیا گ یا، باقی یہ اعتراض فضول ہے کہ قبور سے اذان وغیرہ کی آواز کیوں سنائی نہیں دیتی یااولیاء قبور سے نکل کرحج وغیرہ کرتے دکھائی کیوں نہیں دیتے، اس لئے کہ عالمِ برزخ کی مشابہت عالمِ رؤیا کے ساتھ ہے، وجود عینی اور وجود ذہنی کی طرح وجود منامی اور وجود برزخی بھی ایک مستقل وجود ہے؛ جیسا کہ نائم کے پاس بیٹھنے والے کوکوئی علم نہیں ہوتا کہ اس وقت نائم رؤیا میں کیا دیکھ رہا ہے؛ حالانکہ اسے رؤیا میں کبھی عذاب ہورہا ہے، سانپ کاٹ رہا ہے، یاکوئی قتل کررہا ہے، یاخواب میں جماع کررہا ہے، یاپھل وغیرہ عمدہ عمدہ طرح طرح کے کھانے کھارہا ہے، یاخواب میں حج، زکوٰۃ، اذان، صلوٰۃ وصوم وغیرہ افعال ادا کررہا ہے؛ مگرپاس بیٹھنے والے کواس کا ذرہ برابر بھی احساس نہیں ہوتا، ایسے ہی عالم برزخ کے افعال واعمال اور عذاب قبر وغیرہ تفصیلات اس عالم کے رہنے والوں پرمخفی ہیں۔ ھٰکذا افاد مولانا الشاہ محمد انور الکشمیری قدس اللہ سرہ العزیز، فقط واللہ تعالیٰ اعلم۔ (احسن الفتاویٰ:۴/۱۸۱، زکریا بکڈپو، دیوبند۔ فتاویٰ دارالعلوم دیوبند:۵/۳۹۷، مکتبہ دارالعلوم دیوبند، یوپی)