انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** خاتمہ مناقب صحابیات رضی اللہ عنھن یہ ایک مختلف فیہ مسئلہ ہے کہ صحابہ کرام میں سب سے افضل کون ہیں؟ عام اہلِ سنت والجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ خلفائے راشدین تمام صحابہ میں افضل ہیں اور خود خلفاء میں فضیلت کے مدارج ترتیب خلافت کی رو سے قائم ہوئے ہیں؛ لیکن علامہ ابن خرم ظاہری کے نزدیک ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنھن تمام صحابہ سے افضل ہیں اور اس مسئلہ کوانہوں نے اپنی کتاب ملل والنحل میں نہایت تفصیل کے ساتھ لکھا ہے اور اسی سلسلہ میں اُن آیات واحادیث کے جوابات بھی دیئے ہیں، جن سے بظاہر یہ ثابت ہوتا ہے کہ عورتوں کا درجہ عموماً مردوں سے کم ہے؛ لیکن اس وقت ہم ان مباحث میں پڑنا نہیں چاہتے؛ بلکہ مذہبی اور اخلاقی حیثیت سے جووجوہ فضیلت قائم ہوسکتی ہیں، اُن کوپیشِ نظر رکھ کرصحابیات کے مناقب میں صحیح حدیثیں نقل کردیتے ہیں، جن سے ثابت ہوگا کہ جن وجوہ کی بناپر صحابہ کرام کے فضائل کی بنیاد قائم ہوئی ہے ان میں ان کے ساتھ صحابیات بھی شامل ہیں۔ اسلام میں سب سے بڑی فضیلت تقدم فی الاسلام ہے اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس فضائل میں یہ فضیلت سب سے نمایاں ہے؛ لیکن اس فضیلت میں ان کے ساتھ دوعورتیں بھی شامل ہیں یعنی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اور سمیہ رضی اللہ عنہا یااُم ایمن رضی اللہ عنہا؛ چنانچہ بخاری مناقب ابوبکر رضی اللہ عنہ میں حضرت عمار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا مَعَهُ إِلَّاخَمْسَةُ أَعْبُدٍ وَامْرَأَتَانِ وَأَبُوبَكْرٍ۔ (بخاری، كِتَاب الْمَنَاقِبِ،بَاب إِسْلَامُ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،حدیث نمبر:۳۵۶۸، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواس حالت میں دیکھا ہے کہ آپ کے ساتھ صرف پانچ غلام دوعورتیں اور حضرت ابوبکر تھے۔ تقدمِ فی الاسلام کے بعد سب سے بڑی فضیلت تقدم فی الہجرت ہے اور اس فضیلت میں تمام مہاجرات اولات صحابہ کی شریک ہیں؛ چنانچہ علامہ ابن خرم ظاہری ملل ونحل میں لکھتے ہیں: فلسنا نشك أن المهاجرات الأولات من نساء الصحابة رضي الله عنهم يشاركن الصحابة في الفضل ففاضلة ومفضولة وفاضل ومفضول ففيهن من يفضل كثيراً من الرجال وفي الرجال من يفضل كثيراً منهن وماذكر الله تعالى منزلة من الفضل إلاوقرن النساء مع الرجال فيها كَقَوْلِهِ تَعَالىٰ: إِنَّ الْمُسْلِمِيْنَ وَالْمُسْلِمَأَتِ۔ (الفصل في الملل والأهواء والنحل،الكلام في وجوه الفضل والمفاضلة بين الصحابة:۱/۴۷۹، شاملہ، موقع الوراق) ترجمہ:ہم کواس میں شک نہیں ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی بی بیوں میں مہاجراتِ اولات فضیلت میں صحابہ کی شریک ہیں ان میں کسی عورت کوکسی عورت پراور کسی مرد کوکسی مرد پرفضیلت حاصل ہے، عورتوں میں بعض عورتیں بہت سے مردوں پرفضیلت رکھتی ہیں اور اسی طرح مردوں میں بعض مرد بہت سی عورتوں پرفضیلت رکھتے ہیں، خدا نے فضیلت کا کوئی درجہ ایسا نہیں بیان کیا جس میں مردوں کے ساتھ عورتوں کونہ شامل کیا ہو، مثلاً خدا کا یہ قول کہ مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں۔ اسلام میں سب سے پہلی ہجرت حبشہ کی ہجرت ہے اور اس ہجرت میں ایک صحابیہ کوایسا شرف حاصل ہوا جس پرتمام مہاجرینِ حبشہ کوناز تھا؛ چنانچہ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب ہم کومدینہ کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کا حال معلوم ہوا توہم نے بھی اپنی قوم کے ۵۳/ یا۵۲/ آدمی کے ساتھ ہجرت کا ارادہ کیا اور اس غرض سے کشتی پرسوار ہوکر مدینہ کی طرف روانہ ہوئے، سوء اتفاق سے کشتی حبش میں جاپڑی اور ان لوگوں کی ملاقات حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور ان کے رفقاء سے ہوگئی؛ چنانچہ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں سے کہا کہ ہم کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں بھیجا ہے اور یہیں اقامت کا حکم دیا ہے، تم لوگ بھی ہمارے ساتھ اقامت کرو ان لوگوں نے وہاں اقامت اختیار کی؛ یہاں تک کہ جب خیبرفتح ہوا توسب کے سب ایک ساتھ آئے اور خیبر ہی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے، اس موقع پران کویہ فضیلت حاصل ہوئی کہ جولوگ غزوۂ خیبر میں شریک نہ تھے ان میں ان کے سوارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کومالِ غنیمت میں حصہ نہیں دیا ان لوگوں سے بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا کہ ہم نے تم سے پہلے ہجرت کی ہے، حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا بھی ان ہی لوگوں کے ساتھ حبشہ سے آئی تھیں وہ ایک روز حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کی ملاقات کوگئیں توحضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی آگئے اور اُن کودیکھ کرپوچھا کہ یہ کون ہے؟ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا، ان کا نام سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایامبشر ہے یہ بحریہ (یعنی سمندر کی رہنے والی) ہے، حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا نے کہا کہ ہاں! ہم ہیں اب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم نے تم سے پہلے ہجرت کی ہے ہم تم سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مستحق ہیں یہ سن کر حضرت اسماء برہم ہوئیں اور کہا کہ عمر تم غلط کہتے ہوخدا کی قسم تم رسول اللہﷺ کےساتھ رہتے تھے اور آپ تمہارے بھوکے کوکھانا کھلاتے تھے اور تمہارے جاہل کونصیحت کرتے تھے اور ہم حبش کے دور ترین مبغوض زمین میں پڑے ہوئے تھے، ہم کوایذادی جاتی تھی، ہم خائف رہتے تھے اور یہ سب کچھ صرف خدا اور خدا کے رسول کی ذات کے لیے تھا، خدا کی قسم! تم نے جوکچھ کہا ہے جب تک اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ کروں گی نہ کھانا کھاؤں گی نہ پانی پیوں گی، خدا کی قسم! کسی قسم کا جھوٹ نہ بولوں گی، کجروی نہ اختیار کرونگی اور اس واقعہ میں کوئی اضافہ نہ کروں گی؛ چنانچہ جب آپ تشریف لائے توانہوں نے اس واقعہ کوبیان کیا اور آپ نے اس کوسن کرفرمایا وہ تم سے زیادہ میرے مستحق نہیں ہیں، عمر اور ان کے اصحاب کی صرف ایک ہجرت ہے اور تم اہلِ کشتی کی دوہجرتیں ہیں، حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ اور دوسرے کشتی والے جوق درجوق میرے پاس آتے تھے اور اس حدیث کوپوچھتے تھے ان کے لیے دنیا کی کوئی چیز اس سے زیادہ مسرت خیز اور باعظمت نہ تھی، حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ بار بار مجھ سے اس حدیث کوپوچھتے تھے۔ (مسلم، كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ،بَاب مِنْ فَضَائِلِ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ وَأَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ وَأَهْلِ سَفِينَتِهِمْ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ) فضیلت کی ایک بڑی وجہ محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور اس محبت کی وجہ سے بعض صحابیات کووہ درجۂ تقرب رسول حاصل ہوا جوصرف مخصوص صحابہ کوحاصل تھا، صحیح مسلم میں روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ازواجِ مطہرات کے سوا بجز حضرت اُم سلیم رضی اللہ عنہا (حضرت انس رضی اللہ عنہ کی ماں) کے کسی عورت کے پاس تشریف نہیں لے جاتے تھے؛ چنانچہ آپ سے اس کی وجہ پوچھی گئی توآپ نے فرمایا مجھے ان پررحم آتا ہے؛ کیونکہ ان کے بھائی میرے ساتھ شہید ہوئے تھے۔ (مسلم، كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ،بَاب مِنْ فَضَائِلِ أُمِّ سُلَيْمٍ أُمِّ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ وَبِلَالٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا) جس لطف ومحبت کے ساتھ آپ ان کے گھر تشریف لیجاتے تھے اسی لطف ومحبت کے ساتھ وہ آپ کی خدمت گذاری بھی کرتی تھیں، بخاری کتاب الاستیذان میں ہے کہ جب آپ ان کے گھر تشریف لیجاتے تھے تووہ آپ کے لیے بچھونا بچھادیتیں، آپ آرام فرماتے جب سوکر اُٹھتے تووہ آپ کا پسینہ ایک شیشی میں جمع کرلیتیں، مرتے وقت وصیت کی کہ کفن میں حنوط کے ساتھ عرقِ مبارک بھی شامل کیا جائے، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی خالہ اُم حرام رضی اللہ عنہا کوبھی اکثریہ شرف حاصل ہوتا تھا؛ چنانچہ معمول تھا کہ جب آپ قبا کوتشریف لیجاتے توان کے پاس ضرور جاتے وہ اکثرکھانا لے کرپیش کرتیں اور آپ نوش فرماتے آپ سوجاتے تووہ آپ کے بالوں سے جوئیں نکالتیں۔ (بخاری،كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ) مخصوص صحابیات کے علاوہ قومی حیثیت سے بھی بعض صحابیات رضی اللہ عنھن کوبعض معاشرتی فضائل حاصل ہیں اور اُن فضائل میں اس قبیلے کی تمام صحابیات شامل ہیں، مثلاً ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اُم ہانی رضی اللہ عنہا سے نکاح کی خواہش کی توانہوں نے یہ معذرت کی کہ میرا سن زیادہ ہوگیا اور میرے لڑکے ہیں (جن کی پرورش میرے لیے ضروری ہے) اس موقع پرآپ نے عموماً قریشی عورتوں کی یہ فضیلت بیان کی: نِسَاءُ قُرَيْشٍ خَيْرُ نِسَاءٍ رَكِبْنَ الْإِبِلَ أَحْنَاهُ عَلَى طِفْلٍ وَأَرْعَاهُ عَلَى زَوْجٍ فِي ذَاتِ يَدِهِ۔ (مسلم، كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ،بَاب مِنْ فَضَائِلِ نِسَاءِ قُرَيْشٍ،حدیث نمبر:۴۵۹۰، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:شترسوار عورتوں میں سب سے بہتر قریش کی عورتیں ہیں، بچپن میں اپنے یتیم بچے سے محبت رکھتی ہیں اور اپنے شوہر کے مال کی بہت زیادہ حفاظت کرتی ہیں۔ انصار کا قبیلہ اسلام میں ایک خاص درجہ فضیلت رکھتا ہے اور اس قبیلہ کے مرد اور عورت دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویکساں محبوب تھے؛ چنانچہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک بار انصار کی عورتیں اور انصار کے لڑکے ایک شادی کی تقریب سے واپس آرہے تھے آپ نے ان کودیکھا توکھڑے ہوگئے اور تین بار فرمایا کہ تم لوگ میرے نزدیک تمام لوگوں سے زیادہ محبوب ہے۔ دوسری روایت میں ہے کہ ایک انصاریہ صحابیہ رضی اللہ عنہا اپنے بچے کولیکر آئیں اور آپ نے ان سے گفتگو فرمائی اور اس مسئلہ میں دوبارہ فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم تمام لوگوں میں مجھے سب سے زیادہ محبوب ہو۔ (مسلم۔ بخاری، كِتَاب الْمَنَاقِبِ،بَاب قَوْلُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْأَنْصَارِ أَنْتُمْ أَحَبُّ النَّاسِ إِلَيَّ) ان فضائل کی بنیاد پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اجمعین نے بھی صحابیات رضی اللہ عنھن کی قدرومنزلت کوقائم رکھا؛ چنانچہ صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت اُم ایمن رضی اللہ عنہا کی ملاقات کوتشریف لے جایا کرتے تھے، آپ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت عمررضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ آؤچلیں، جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی ملاقات کوجایا کرتے تھے؛ اسی طرح ہم بھی اُن کی ملاقات کرآئیں؛ چنانچہ جب ان کے پاس پہنچے تووہ روپڑیں ان لوگوں نے کہا: کیوں روتی ہو؟ خدا کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاجودرجہ ہے وہ نہایت بہتر ہے، بولیں میں اس لیے نہیں روتی کہ میں اس سے ناواقف ہوں؛ بلکہ اس لیے روتی ہوں کہ وحی کا آسمانی سلسلہ ٹوٹ گیا اس پریہ دونوں بزرگ رضی اللہ عنہما بھی روپڑے۔ (مسلم، كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ،بَاب مِنْ فَضَائِلِ أُمِّ أَيْمَنَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا) عام صحابیات کے علاوہ ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنھن کوجوعزت حاصل تھی عورتوں کی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں مل سکتی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حرم محترم نے انتقال کیا توحضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سجدے میں گرپڑے، لوگوں نے کہا: آپ اس وقت سجدہ کرتے ہیں؟ بولے جب قیامت کی کوئی نشانی دیکھو توسجدہ کرلیا کرو؛ پھرازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہا کی موت سے بڑھ کقیامت کی کون سی نشانی ہوگی؟۔ (ابوداؤد، كِتَاب الصَّلَاةِ،بَاب السُّجُودِ عِنْدَ الْآيَاتِ) مقام سرف میں حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا نے وفات پائی توحضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بھی ساتھ تھےبولے کہ یہ میمونہ ہیں ان کا جنازہ اُٹھاؤ تومطلق حرکت وجنبش نہ دو۔ (نسائی، كِتَاب النِّكَاحِ،باب ذِكْرُ أَمْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النِّكَاحِ وَأَزْوَاجِهِ) بعض صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین عزت ومحبت کی وجہ سے ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہم اجمعین پراپنی جائدادیں وقف کرتے تھے؛ چنانچہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنھن کے لیے ایک باغ کی وصیت کی تھی جوچار ہزار پرفروخت کیا گیا۔ (ترمذی، كِتَاب الْمَنَاقِبِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،بَاب مَنَاقِبِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ الزُّهْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ) خلفاء ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنھن کا نہایت ادب واحترام کرتے تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانہ خلافت میں ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنھن کی تعداد کے لحاظ سے نوپیالے تیار کرائے تھے، جب ان کے پاس کوئی میوہ اور کوئی کھانے کی عمدہ چیز آتی تواُن پیالوں میں کرکے تمام ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنھن کی خدمت میں بھیجتے تھے۔ (مؤطا امام مالک، كِتَاب الزَّكَاةِ،بَاب جِزْيَةِ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمَجُوسِ) سنہ۲۳ھ میں جب حضرت عمرامیرالحجاج بن کرگئے توازواجِ مطہرات رضی اللہ عنھن کوبھی نہایت عزت کے ساتھ ہمراہ لے گئے، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کوسواریوں کے ساتھ کردیا تھا، یہ لوگ آگے پیچھے چلتے تھے اور کسی کوسواریوں کے قریب آنے نہیں دیتے تھے، ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنھن منزل پراترتی تھیں توحضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کسی کوقیام گاہ کے متصل آنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ (طبقات ابن سعد، تذکرۂ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ) عام مسلمان ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنھن کے ساتھ جوحسنِ عقیدت رکھتے تھے اس کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ لوگ عام طور پرحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں چھوٹے چھوٹے بچوں کولاتے تھے اور وہ ان کے لیے دعائے برکت فرماتی تھیں۔ (اداب المفرد، باب الطیرۃ من الجن) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بنت طلحہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے دامنِ تربیت میں پرورش پائی تھی، ان کا بیان ہے کہ لوگ دور دور سے میرے پاس آتے تھے اور چونکہ مجھ کوحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے تقرب حاصل تھا اس لیے بوڑھے بوڑھے لوگ میرے پاس آتے تھے، جوان لوگ مجھ سے بھائی چارہ کرتے تھے اور مجھ کوہدیہ دیتے تھے اور اطراف ملک سے خطوط بھیجتے تھے۔ (ادب المفرد، باب الکتابۃ الی النساء وجوابہن) غرض ان تمام واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام نے عورت اور مرد، دونوں کا درجہ یکساں بلند کیا اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اجمعین اور عام مسلمانوں نے اس درجہ کوقائم رکھا؛ لیکن صحابیات رضی اللہ عنھن کویہ درجہ صرف مذہب، اخلاق اور حسن معاشرت کی بناپر حاصل ہوا تھا اور آج بھی انہی چیزوں سے عورتیں اپنے درجے کوبلند کرسکتی ہیں۔