انوار اسلام |
س کتاب ک |
قرض حسنہ، سودی قرضے اوربینک سے لون اورقرض سے متعلق مسائل مالِ مرہون سے استفادہ آج کل مکانات کے سلسلہ میں یہ رواج کثرت سے ہوگیا ہے کہ لوگ قرض دینے والے کے پاس مکان بطورِ رہن کے رکھتے ہیں اور وہ صاحب بِلاکرایہ اس میں رہتے ہیں؛ بلکہ بسااوقات دوسروں کوکرایہ پربھی دیتے ہیں اور کرایہ وصول کرتے رہتے ہیں، قرض کی رقم پھر اس کے علاوہ وصول کی جاتی ہے..... یہ طریقہ غلط اور نادرست ہے؛ اسلامی قانون کے مطابق رہن رکھی جانے والی چیز کی حیثیت محض ایک ضمانت کی ہوتی ہے اور رہن رکھے جانے کے بعد بھی وہ شئے اس کے اصل مالک ہی کی ملک ہوتی ہے؛ اسی طرح اس شئی میں جوکچھ اضافہ یانفع ہو وہ اصل مالک کی ملک قرار پاتی ہے، جس کے پاس کوئی چیز رہن رکھی جائے اس کونہ اس سے فائدہ اُٹھانے کا حق حاصل ہے اور نہ کسی تصرف کا؛ کیونکہ اگراس کواستفادہ کا موقع دیا جائے توقرض کے بدلے قرض کی ادائیگی ہوئی اور یہ استفادہ قرض کے سہارے مزید فائدہ اُٹھانا ہے، جس کی حدیث میں ممانعت آئی ہے؛ اگرخود مالک نے مکان میں رہنے کی اجازت دے دی ہوتوفقہاء متقدمین اس سے استفادہ کی اجازت دیتے تھے اور اس کی شرعی اصطلاح کے مطابق کہتے تھے؛ لیکن چونکہ اس زمانے میں اس کی حیثیت قرض دہندہ کی طرف سے ایک طرح کی شرط کی ہوتی ہے اور فقہاء کا اُصول ہے المعروف کالمشروط کہ جوچیز عرف ورواج کی حیثیت اختیار کرلےوہ شرط کا درجہ اختیار کرلیتی ہے اس لیے فقہاء متاخرین نے اس کوقطعاً نادرست لکھا ہے، علامہ ابن عابدین شامی رحمہ اللہ نے فتح القدیر سے نقل کیا ہے کہ رہن کی اشیاء سے کسی طرح کا فائدہ اُٹھانا بھی جائز نہیں ہے؛ گوکہ مقروض اس کی اجازت دے دے، اس لیے کہ یہ سود کی اجازت دینا ہے..... عام طور پرایسا ہوتا ہے کہ لوگ قرض دے کرنفع حاصل کرنا چاہتے ہیں؛ اسی لئےاگر ایسا نہ ہوتووہ اسے درہم نہ دیں اور یہ شرط کے درجہ میں ہے اس لیے کہ جوچیز مروج ہوجاتی ہے وہ شرط کی حیثیت اختیار کرلیتی ہے؛ اس لیے کسی صورت بھی رہن کی اشیاء سے استفادہ جائز نہ ہوگا، وباللہ التوفیق۔ (جدیدفقہی مسائل:۱/۴۲۴۔ فتاویٰ عثمانی:۳/۴۲۴)