انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** دولت عبیدیین مصر وافریقیہ میں ابو عبداللہ خلافتِ عباسیہ کے شروع ہوتے ہی علویوں نے اس کی مخالفت میں کوششیں شروع کردی تھیں جن کا حال دوسری جلد میں بیان ہوچکا ہے، علویوں نے بار بار خروج کیا اورباربار ناکامی کا منھ دیکھا،محبتِ اہلِ بیت اور سلطنتِ عباسیہ کی مخالفت کا اشاعتی کام خفیہ طریقہ سے تمام عالم اسلام میں علویوں نے پھیلادیا تھا، مگر عباسیوں کی مستعدی اوران کے ہواخواہوں کی کوششوں نے علویوں کو کامیاب نہیں ہونے دیا، اسی پوشیدہ اورسازشی کام کی ابتدا عبداللہ بن سبا یہودی نے کی تھی،اُسی کو اس سازشی کا م کا آپستاد اورموجد کہنا چاہئے، اس کام میں مجوسیوں،یہودیوں،پربریوں نے بھی نو مسلمانوں کے لباس میں علویوں کی امداد کی ،جب سلطنتِ عباسیہ کی وسیع سلطنت کا شیرازہ ڈھیلا ہونے لگا تو بعض یہودی الاصل اورمجوسی النسب لوگوں نے اپنے آپ کو علوی بتا کر فائدہ اُٹھانا چاہا، بربر کا علاقہ مرکز سلطنت بغداد سے زیادہ فاصلہ پر تھا اور بربری لوگوں کے مخصوص خصائل سے بآسانی فائدہ اُٹھایا جاسکتا تھا، لہذا تیسری صدی ہجری کے آخر حصے میں محمد حبیب نامی ایک شخص نے جو سلمیہ علاقہ حمص میں سکونت پذیر تھا، اپنے آپ کو امام جعفر صادقؒ کے زمانے سے ان کی داعی یمن،افریقہ اورمراقش میں مصروفِ کار تھے اور لوگوں کو اس خیال کی طرف متوجہ کررہے تھے کہ عنقریب امام مہدی کا ظہور ہونے والا ہے اور وہ علوی فاطمی ہوں گے،محمد حبیب نے اپنے رازداروں میں سے ایک شخص رستم بن حسن بن حوشب کو یمن کی طرف بھیجا کہ وہاں جاکر لوگوں کو اس بات کی تعلیم دے کر امام مہدی بہت جلد ظاہر ہونے والے ہیں؛چنانچہ رستم نے یمن میں جاکر اپنے کام کو نہایت خوبی کے ساتھ انجام دیا اورایک جمعیت بھی فراہم کرلی۔ اس کے بعد محمد حبیب کے پاس بصرے کا ایک شخص ابو عبداللہ حسن بن محمد بن زکریا جو شیعہ خیال کا آدمی تھا اورہمیشہ علویوں کی حمایت وطرفداری میں کوشاں رہتا تھا،آیا محمد حبیب نے اس کو مناسب تعلیم دے کر اورجوہرِ قابل پاکر ہدایت کی کہ تم اول یمن پہنچ کر رستم بن حسن کی صحبت میں چند روز رہو اور دعوت وتبلیغ کے قاعدے اس سے سیکھو اورپھر وہاں سے علاقہ بربر کی طرف جاؤ اور وہاں اپنا کام شروع کرو، وہاں زمین تیار ہے،تم جاکر تخم ریزی شروع کرو، تم کو ضرور کامیابی ہوگی،ابو عبداللہ شیعی کو محمد حبیب نے یہ بھی بتادیا تھا کہ ہمارا بیٹا عبید اللہ امام مہدی ہے اور تم اسی کے داعی بناکر بھیجے جاتے ہو،ابو عبداللہ اول یمن پہنچا، وہاں چند روز رہ کر اور رستم بن حسن اور دوسرے داعیوں سے دعوت وتبلیغ کے اصول اچھی طرح سیکھ کر رخصت ہوا، موسم حج میں مکہ پہنچا، وہاں شہرِ کتامہ کے سرداروں اوررئیسوں سے جو حج کرنے آئے تھے ملا، پھر انہیں کے ہمراہ کتامہ پہنچا اور دعوت وتبلیغ کے کام میں مصروف ہوکر لوگوں کو اپنے زہد وعبادت کی نمائش سے گرویدہ بنایا، ابو عبید اللہ شیعی ۱۵ ربیع الاول ۲۸۸ ھ کو شہر کتامہ میں وارد ہوا، اوربآسانی لوگوں کو امام مہدی کی آمد کا یقین دلانے لگا، چونکہ ابو عبداللہ شیعی سے پہلے بھی اس ملک میں علویوں کی داعی آ آکر اس قسم کے خیالات کی اشاعت کرچکے تھے،لہذا ابو عبداللہ کو زیادہ وقت پیش نہیں آئی، اہل کتامہ نے ابو عبداللہ شیعی کے لئے مقام فج الاخیار میں ایک مکان بنادیا،یہ وہاں رہ کر لوگوں کو وعظ وپند کے ذریعہ تعلیم دینے لگا،اس نے اہلِ کتامہ کو یقین دلایا کہ امام مہدی جس مقام پر آکر قیام کریں گے اُس مقام کا نام کتمان سے مشتق ہوگا، اس لئے مجھ کو یقین کامل ہے کہ وہ یہی مقام کتامہ ہے اورجو لوگ امام مہدی کے اعوان وانصار ہوں گے وہ بہترین خلائق ہوں گے،پس تم کو ان کا منتظر رہنا چاہئے اورتمہارا فرض ہے کہ ہم اوقات امام مہدی کی حمایت واعانت کے لئے مستعد رہو۔ ابو عبداللہ کے آنے اور اس قسم کی تعلیم دینے کی اطلاع ابراہیم بن احمد بن اغلب سلطان افریقہ کو ہوئی تو اُس نے ابو عبداللہ کے پاس ایک حکم بھیجا کہ تم اپنی اس گمراہ کن تعلیم کو بند کرو ورنہ تم کو سزادی جائے گی،یہ وہ زمانہ تھا کہ تمام اہلِ کتامہ اورارد گرد کے قبائل ابو عبداللہ کے دل سے معتقد ہوچکے تھے، ابو عبداللہ نے اپنے آپ کو طاقتور پاکر سلطان کے اس ایلیچی کو نہایت سخت جواب دے کر لوٹادیا، اہل کتامہ اس حال سے واقف ہوکر اپنے دل میں ڈر ے کہ اب ہم کو اپنے یہاں سے نکال دیں یا ابراہیم بن احمد حاکم افریقہ کے پاس بھیج دیں،چونکہ کتامہ کے بہت سے مولوی لوگ بھی ابو عبداللہ کے معتقد ہوگئے تھے،انہوں نے مخالفت کی اور ابو عبداللہ کی مدد کو ضروری بتایا، انہیں لوگوں کی کوششوں کا یہ نتیجہ نکلا کہ اسی علاقہ کے ،ایک عامل حسن بن ہارون غسانی نے ابو عبداللہ کو اپنی حمایت میں لے کر شہر تازروت میں بُلا لیا، اُدھر کتامہ والوں نے بھی ابو عبداللہ کی حمایت اورامداد پر مستعدی ظاہر کی اور ابو عبداللہ کی طاقت اب پہلے سے سہ چند ہوگئی حسن بن ہارون غسانی کی اسی زمانے میں ایک دوسرے سردار مہدی بن ابی کمارہ سے مخالفت ہوئی اور نوبت لڑائی تک پہنچی، مہدی بن ابی کمارہ کا ایک بھائی ابو عبداللہ شیعی کا معتقد تھااس نے ابو عبداللہ کے اشارے سے اپنے بھائی کو قتل کردیا، اس طرح ابو عبداللہ کی شان وشوکت اوربھی بڑھ گئی اورحسن بن ہارون اُس کو اپنا آقا سمجھنے لگا، ابراہیم بن احمد کے ایک زبردست سردار فتح بن یحییٰ نے فوج لے کر ابو عبداللہ پر حملہ کیا اور شکست کھا کر قیروان کی طرف بھاگ گیا، اس کے بعد ابو عبداللہ نے جا بجا اپنے داعی پھیلادئیے اورلوگوں کو جبراً وقہراً بھی ابو عبداللہ کا مرید و مطیع ہونا پڑا اور ملک مغرب کے ایک حصے پر ابو عبداللہ کی حکومت مضبوطی کے ساتھ قائم ہوگئی، یہ سب واقعات صرف ایک یا ڈیڑھ سال کے عرصہ میں وقوع پذیر ہوگئے۔ ۸۹ھ میں سلطان ابراہیم اغلبی کے بیٹے ابو العباس عبداللہ بن ابراہیم نے تخت نشین ہوکر اپنے بیٹے ابوحول کو ابو عبداللہ شیعی کے مقابلہ پر روانہ کیا، جیسا کہ اوپر سلطنتِ اغلبیہ کے حالات میں بیان ہوچکا ہے،اوّل ابو عبداللہ کو ابو خول کے مقابلے میں شکست و ناکامی ہوئی مگر کچھ ایسے حالات پیش آئے کہ ابوخوں کا خطرہ خود بخود دور ہوگیا اوروہ (ابو خول)مقتول ہوا، ابو عبداللہ نے کتامہ کے متصل مقام انکجان کے نواح میں ایک شہر دارالہجرت کے نام سے آباد کیا جب زیادۃ اللہ اغلبی خاندان کا آخری فرماں روا تخت نشین ہوا تو ابو عبداللہ کو شہروں کے فتح کرنے اوراپنی حکومت کے بڑھانے کا خوب موقع ملا اور وہ لوگوں کو یہ بتانے لگا کہ امام مہدی کا اب بہت ہی جلد ظہور ہونے والا ہے،ساتھ ہی اس نے اپنے بعض معتمدین کو سلمیہ علاقہ حمص کی طرف عبیداللہ بن محمد حبیب کے پاس بھیجا ،یہ وہ زمانہ تھا کہ محمد حبیب کا انتقال ہوچکا تھا اوراس کے انتقال کی خبر ابو عبداللہ شیعی کے پاس پہنچ گئی تھی۔ ابو عبداللہ کے فرستادوں نے عبیداللہ کے پاس پہنچ کر عرض کیا کہ ملک مغرب میں آپ کی حکومت قائم ہوچکی ہے، اب تشریف لے چلئے ؛چنانچہ عبید اللہ جو عبید المہدی کے نام سے مشہور ہوا، سلمیہ سے ان لوگوں کے ساتھ روانہ ہوگیا،عبید اللہ المہدی کے ہمراہ اُس کا بیٹا ابو القاسم اور ایک غلام بھی روانہ ہوا، ان سب نے سوداگروں کے ایک قافلہ کی شکل بنائی اور سیدھے راستوں کو چھوڑ کر پیچیدہ راہوں کو اختیار کیا،جاسوسوں نے یہ خبر عباسی خلیفہ مکتفی نے ابو عبداللہ شیعی کی ملک گیریوں اور عبید اللہ بن محإد حبیب کے اس طرح روانہ ہونے کے حالات سن کر ایک حکم عیسیٰ نوشتری گورنرمصر کے نام جاری کیا کہ اس حلیہ کا ایک شخص مصر کے نادر ہوکر ملک مغرب میں جائے گا، اس کو جہاں پاؤ گرفتار کرلو، عیسیٰ گورنر نے عبید اللہ کے قافلہ کو رفگتار کرلیا،مگر وہ دھوکا کھا گیا اور یہ یقین کرکے کہ یہ شخص عبید اللہ نہیں ہے،اس کو چھوڑدیا،عبید اللہ طرابلس پہنچا اور یہاں سے اپنے آنے کی خبر ابو عبداللہ کے پا س مقام کتامہ میں پہنچائی،مگر ابھی عبید اللہ اورابو عبداللہ کے درمیان زیا جاررہا ہے،لہذا زیادۃ اللہ نے جا بجا عبید اللہ کی گرفتاری کا بندوبست کردیا تھا، عبید اللہ نے طرابلس سے جس سخص کے ہاتھ اپنے آن کی خبر ابو عبداللہ کے پاس بھجوائی تھی وہ ابو عبداللہ کا بھائی ابو العباس تھا، جو مع دوسرے ہمراہیوں کے عبید اللہ کو لینے کے لئے بھیجا گیا،اور اس کے ساتھ سلمیہ سے آرہا تھا،ابو العباس اتفاقاً راستے میں قیروان کے اندر گرفتار ہوگیا، زیادۃ اللہ نے اس کو جیل خانہ میں بھیج دیا، عبید اللہ مہدی کو جب ابو العباس کے قیروان میں گرفتار ہوجانے کی خبر پہنچی تو وہ حواس باختہ ہوکر مقام قسطیلہ چلا گیا،مگر وہاں بھی قیام مناسب نہ سمجھ کر مقام سجلماسہ میں پہنچا، سجلما سہ کا حاکم زیادۃ اللہ اغلبی کا خادم الیسع بن مدار تھا اس نے اول عبید اللہ کو ایک نووارد سوداگر سمجھ کر خاطر مدارات کی،لیکن جب زیادۃ اللہ کا حکم پہنچا کہ یہی شخص عبدیاللہ ،اس کو گرفتار کرلو تو الیسع نے عبید اللہ کو گرفتار کرلیا، ابو العباس قیروان کے جیل خانے میں اور عبید اللہ مہدی سجلماسہ کے قید خانے میں تین چار سا تک قید کی سختیاں برداشت کرتے رہے، اس عرصہ میں ابو عبداللہ شیعی نے اپنی فتوحات کے سلسلے کو برابر جاری رکھا، یہاں تک کہ اُ س نے بیسیوں لڑائیوں اور معرکہ آرائیوں کے بعد شروع ۲۹۶ھ میں شہر قیروان کو فتح کر کے اپنے بھائی ابو العباس کو جیل خانے سے نکالا،اورسجلماسہکے قید خانے میں خفیہ طور پر ان فتوحات کی خوش خبری عبید اللہ مہدی کے پاس پہنچائی، ابو عبداللہ کی فوج میں کتامہ کے دوسردار خاص طور پر قابلِ تذکرہ تھے، ایک مکانات ومحلات اہل کتامہ پر تقسیم کردیئے، فتح کے بعد جمعہ آیا تو جامع مسجد کے خطیب نے پوچھا کہ خطبہ میں کس کا نام لیا جائے؟ ابو عبداللہ نے کہا کہ فی الحال کسی کا نام نہ لیا جائے، اس کے بعد قیروان میں اپنے بھائی ابو العباس کو حاکم مقرر کرکے سجلماسہ کی طرف بڑھا، راستے میں جو جو قبائل آئے، اکثر نے بخوشی اطاعت قبول کی،بعض راستے سے ہٹ گئے سجلماسہ کے قریب پہنچ کر ابو عبداللہ نے سجلماسہ کے حاکم الیسع بن مدارہ کے پاس ایک خط بھیجا،اس خط میں بہت منت وسماجت اورفرو تنی کے ساتھ درخواست صلح پیش کی، ا س منت وسماجت اورصلح کی استدعا کا سبب یہ تھا کہ عبید اللہ مہدی اس کی قید میں تھا، اس لئے ابو عبداللہ کو اندیشہ تھا کہ کہیں وہ عبیداللہ کو قتل نہ کردے ابو عبداللہ کا قاصد خط لے کر جب الیسع بن مدارار کے پاس پہنچا تو اس نے قاصد کو قتل کرادیا، خط کو چاک کرکے پھینک دیا اورفوجیں آراستہ کرکے مقابلے کے لئے نکلا، مقابلہ ہوا، اور الیسع کی فوج شکست کھا کر بھاگی، الیسع اوراس کے ہمراہی بھی فرار ہوئے،ابو عبداللہ نے فوراً شہر میں داخل ہوکر سب سے پہلے جیل خانے کا رخ کیا اور وہاں پہنچ کر عبید اللہ مہدی کو مع اس کے بیٹے ابو القاسم کے جیل خانے سے نکال گھوڑے پر سورا کیا،تمام اراکین لشکر ہمراہ تھے، ہذا مولاکم،ہذا مولاکم (یہ تمہارا امام ہے، یہ تمہارا امام ہے) اسی طرح اپنے خیمہ تک لایا، عبید اللہ کو تخت پر بٹھا یا،خود بھی بیعت کی دوسروں سے بھی بیعت کرائی، اسی حالت میں الیسع بن مدرار پابہ زنجیر گرفتار ہوکر پیش ہوا، ابو عبداللہ نے اُس کے قتل کا حکم دیا اور وہ قتل کیا گیا۔