انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** معتز باللہ کی معزولی اور موت خلیفہ معتز ترک سرداروں کے قبضہ میں تھا، وہ جوچاہتے تھے کرتے تھے، خزانہ بالکل خالی ہوگیا تھا، بڑے بڑے سرداروں نے خزانہ پرخوب تصرف کرلیا تھا، فوج کے آدمی خلیفہ پراپنے وظائف کا تقاضا کرتے تھے، خلیفہ سخت مجبور تھا، آخر ایک روز ترکوں نے جمع ہوکر امیرالمؤمنین کے دروازے پرجاکر شوروغل مچایا اور کہا کہ ہم کوکچھ دلوائیے؛ ورنہ ہم صالح بن وصیف کوجوآج کل آپ پرقبضہ کیے ہوئے ہے، قتل کرڈالیں گے۔ صالح بن وصیف ایک ترک سردار تھا، خلیفہ اس سے بہت ہی ڈرتا تھا، اس شورش کودیکھ کرمعتز اپنی ماں فتحیہ رومی کے پاس گیا کہ کچھ مال ہوتو اس ہنگامہ کوفروکردو، فتحیہ کے قبضے میں بہت سامال تھا؛ مگر اس نے دینے سے انکار اور ناداری کا عذر کیا، ترکوں نے صالح بن وصیف اور محمد بن بغاصغیر اور بابکیال کواپنا شریک بنالیا اور ان سرداروں کی معیت میں مسلح ہوکر قصرِ خلافت کے دروازے پرآئے اور معتز کوبلایا، خلیفہ معتز نے کہلا بھیجا کہ میں نے دواپی ہے، بیمار اور بہت کمزور ہوں، باہر نہیں آسکتا، یہ سن کرترک قصر خلافت میں زبردستی گھس گئے اور خلیفہ معتز کی ٹانگ پکڑ کرگھسیٹ تے ہوئے باہر لائے، اس کومارا، گالیاں دیں اور صحن مکان میں برہنہ سردھوپ میں کھڑا کردیا؛ پھرہرایک شخص جوگزرتا تھا، اس کے منہ پرطمانچہ مارتا تھا؛ یہاں تک کہ جب خلیفہ کی بے عزتی حد کوپہنچ گئی تواس نے کہا کہ اب اپنی خلافت سے دست برداری لکھ دو، معتز نے اس سے انکار کیا توقاضی القضاۃ حسین بن ابی شوراب کوبلایا اور ارکینِ سلطنت طلب کیے گئے، ایک محضر لکھا، اس پرقاضی صاحب اور تمام اراکینِ سلطنت سے دستخط کرائے اور معتز کومعزول کرکے ایک تہ خانے میں بے آب ودانہ بند کردیا، وہیں اس کا دم نکل گیا۔ یہ واقعہ ماہِ رجب سنہ۲۵۵ھ کا ہے اور معتز کی موت ۸/شعبان سنہ۲۵۵ھ کوواقع ہوئی، اس کے بعد لوگوں نے بغداد سے معتز کے چچا زاد بھائی محمد بن واثق کوبلاکرتختِ سلطنت پربٹھایا اور مہتدی باللہ کا خطاب دیا، خلیفہ معتز کی ماں اپنے بیٹے کی گرفتاری وبے حرمتی کا حال دیکھ کرایک سرنگ کے راستے فرار ہوگئی اور سامرا میں کسی جگہ چھپ گئی تھی، جب مہتدی خلیفہ ہوگیا توماہِ رمضان سنہ۲۵۵ھ میں صالح بن وصیف سے جوخلیفہ مہتدی کا نائب السلطنت بنا ہوا تھا، امان طلب کرکے ظاہر ہوئی، صالح نے اس کے مال ودولت کا سراغ لگایا تواس کے پاس سے ایک کروڑ تین لاکھ دینار اور اس سے بہت زیادہ کے جواہرات نکلے؛ حالانکہ پچاس ہزار دینار معتز مانگتا تھا اور اتنے ہی میں فوج کی شورش اس وقت فروہوسکتی تھی، صالح نے فتحیہ کے تمام مال واسباب پرقبضہ کرکے ہا کہ اس کمبخت عورت نے پچاس ہزار دینار کے عوض میں اپنے بیٹے کوقتل کرادیا؛ حالانکہ اس کے قبضہ میں کروڑوں دینار تھے، اس کے بعد صالح نے فتحیہ کومکہ کی طرف بھیج دیا، وہ معتمد کے تخت نشین ہونے تک مکہ میں رہی؛ پھرسامرہ میں چلی آئی اور سنہ۲۶۴ھ میں مرگئی۔