انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** خلیفہ امین کی معزولی وبحالی اوپر ذکر ہوچکا ہے کہ خلیفہ ہارون الرشید نے عبدالمالک بن صالح کوقید کردیا تھا امین نے تختِ خلافت پربیٹھتے ہی اُس کوآزاد کیا، جب طاہر کے مقابلہ میں بغداد کی فوجوں کوشکستیں ہونے لگیں توعبدامالک بن صالح نے دربارِ خلافت میں حاضر ہوکر کہا کہ خراسانیوں کے مقابلہ پراہلِ عراق کی بجائے شامیوں کوبھیجنا چاہیے، وہ خراسانیوں کا مقابلہ کرسکتے ہیں اور میں ان کی اطاعت وفرمانبرداری کا ذمہ دار ہوتا ہوں، یہ سن کرخلیفہ امین نے عبدالمالک کوشام وجزیرہ کی سندِگورنری مرحمت فرماکرروانہ کیا، عبدالمالک نے رُقہ میں پہونچ کررؤساءِ شام سے خط وکتابت شروع کی اور تھوڑے ہی دونوں میں شام کا ایک بڑا لشکر فراہم کرلیا، حسین بن علی بن عیسیٰ بھی عبدالملک کے ساتھ تھا اور عبدالمالک کی فوج میں اُس حصہ فوج کا سردار تھا جوخراسانیوں پرمشتمل تھا، عبدالمالک اسی عرصہ میں بیمار ہوکر فوت ہوا اور شامیوں اور خراسانیوں میں خانہ جنگی شروع ہوئی، شام کے لوگ اپنے اپنے گھروں کوچل دیئے۔ حسین بن علی تمام خراسانی لشکر کولیے ہوئے بغداد کی طرف روانہ ہوا، اہلِ شہر اور رؤساء بغداد نے اس کا استقبال کیا، رات کے وقت خلیفہ امین نے حسین بن علی کواپنے دربار میں طلب کیا، حسین نے جانے سے انکار کیا اور صبح ہوتے ہی اپنے ہمراہیوں کوخلیفہ امین کی معزولی پر آمادہ کیا اور بغداد کے پل پرآیا؛ یہاں امین کی فوج نے مقابلہ کیا؛ مگرشکست کھائی، حسین بن علی نے قصرِ خلافت پرحملہ کرکے امین اور اس کی والدہ زبیدہ خاتون کوگرفتار کرکے قصرِ منصور میں لاکر قید کردیا اور خلافتِ مامون کی لوگوں سے بیعت لی، اگلے دن لوگوں نے حسین بن علی سے اپنے روزینے طلب کیے؛ مگرحسب منشاء نہ پائے اور آپس میں سرگوشیاں کرنے لگے، رفتہ رفتہ اہلِ بغداد امین کی معزولی اور گرفتاری پرافسوس کرنے لگے اور متحد ہوکر حسین بن علی کے مقابلہ پرآمادہ ہوگئے، حسین بن علی نے ان لوگوں کا مقابلہ کیا، بڑی خونریز جنگ ہوئی جس میں حسین بن علی شکست کھاکر گرفتار ہوا اہلِ شہر نے قصرِ منصور میں جاکر امین اور زبیدہ کوآزاد کیا، امین کولاکر تختِ خلافت پربٹھایا اور دوبارہ بیعت کی، حسین پابہ زنجیر امین کے روبرو پیش کیا گیا، امین نے ملامت کرکے اس کوآزاد کردیا اور کہا کہ تم اب اپنی خطا کی تلافی اس طرح کرو کہ طاہر بن حسین کے مقابلے پرجاؤ اور اس کوشکست دے کرناموری حاصل کرو، حسین کوخلعت گراں بہا عطا ہوا اور نہایت عزت واحترام کے ساتھ رخصت کیا گیا، اہلِ بغداد اس کومبارکباد دیتے ہوئے پُل تک آئے، جب لوگوں کا مجمع کم ہوگیا توحسین بن علی پل کوعبور کرکے وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا اور اپنی بغاوت کا اعلان کرتا گیا، امین نے اس کے تعاقب میں سواروں کوبھیجا، بغداد سے تین میل کے فاصلے پرسواروں نے حسین کوجالیا، خفیف سی لڑائی کے بعد حسین بن علی مارا گیا، اس کا سراُترار کرلوگ امین کے سامنے لائے یہ واقعہ ۱۵/رجب سنہ۱۹۶ھ کووقوع پذیر ہوا؛ اسی روز حسین بن علی کے قتل ہونے پرفضل بن ربیع جوامین کا وزیراعظم تھا، ایسا روپوش ہوا کہ کسی کواس کی اطلاع نہ ملی، فضل بن ربیع کے اس طرح غائب ہونے اور دھوکا دیئے جانے سے امین کواور بھی زیادہ پریشانی کا سامنا ہوا۔