انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت اسماعیل بن علیہؒ نام ونسب اسماعیل نام،ابو بشر کنیت تھی،والد کا نام ابراہیم بن مقسم اور والدہ کا نام علیہ تھا، علیہ قبیلہ بنو شیبان کی لونڈی تھیں، لیکن بڑی صاحبِ علم تھیں انہیں کی نسبت سے اسماعیل ابنِ عُلیہ کہلاتے ہیں۔ ان کی والدہ کے بارے میں امام نووی نے لکھا ہے کہ: امراۃ نبیلۃ عا قلۃ (تہذیب التہ الاسماء، واللغات:۱/ ۱۲۰) وہ بڑی سمجھ دار اور عقل مند خاتون تھیں: خطیب بغدادی ان کے علم وفضل کی مزید تفصیل بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: کانت امراۃ نبیلۃ عاقلۃ برزۃ لھا دار بالعوقۃ تعرن بھا وصالح المری وغیرہ من وجوہ البصرۃ وفقھا ئھا یدخلون علیھا فتبرز لھم تحا دثھم وتسائلھم (وہ بڑی سمجھدار اورعقل مند خاتون تھیں ان کا مکان عوقہ میں تھا جو ان کے نام سے مشہور تھا ، وہاں صالح مری اوربصرہ کے دوسرے ممتاز لوگ اورفقہاء ان کے پاس استفادہ کے لئے آتے تھے ،وہ برآمد ہوکر ان سے بات چیت اورسوال وجواب کرتی تھیں۔ ولادت ان کے والد ابراہیم بھی غلام تھے اورکپڑے کے تاجر تھے، اس سلسلہ میں وہ برابر بصرہ آیا جایا کرتے تھے،وہاں آمد ورفت کے دوران انہوں نے عُلیہ بنت حسان سے شادی کرلی اوربصرہ ہی میں مستقل طور پر بود وباش اختیار کرلی، اور یہیں ۱۱۰ھ میں اسماعیل بن عُلیہ پیدا ہوئے،ان کی والدہ اپنے فضل وکمال کے باوجود چونکہ باندی تھیں، اس لئے وہ ان کی طرف اپنی نسبت پسند نہیں کرتے تھے، یہاں تک کہ وہ فرماتے تھے: من قال ابن علیہ فقد اغتا بنی (تاریخ بغداد:۶/۲۳۲) جو کوئی مجھ کو ابن علیہ کہتا ہے وہ گویا میری غیبت کرتا ہے۔ غالباً اسی وجہ سے انہوں نے خود اپنی کنیت ابو البشر رکھی تھی،مگر ابن علیہ کے مقابلہ میں یہ کنیت مشہور نہ ہوسکی۔ تعلیم و تربیت تاریخوں میں تفصیل تو نہیں ملتی مگر قرائن بتاتے ہیں کہ ابتدائی تعلیم ان کی والدہ نے خود ہی دی ہوگی،اس کے بعد جب کچھ ہوشیار ہوئے تو ان کی والدہ بصرہ کے ایک مشہور محدث عبد الوارث التیمی کے پاس لے گئیں اور کہا کہ اپنے بچہ اسمعیل کو لیکر آئی ہوں، اور پھر اسماعیل کو محدث مذکور کے حوالہ کردیا،علیہ نے ان سے خواہش ظاہر کی کہ اس میں آپ جیسی صلاحیت پیدا ہوجائے۔ عبدالوارث کا بیان ہے کہ میں اسماعیل کو اپنے ساتھ لیکر جاتا اور جہاں کہیں مجلس دیکھتا ان کو آگے بڑھادیتا اورخود بعد میں شیخ مجلس کے پاس پہنچتا اس طرح عبدالوارث نے گویا ان کو مختلف شیوخ سے رُوشناس کرایا،ابراہیم خولی جو اس روایت کو نقل کرتے ہیں ان کا بیان ہے کہ ابن علیہ جب بصرہ سے جانے لگے تو لوگ ان کو عبدالوارث سے زیادہ ثقہ فی الحدیث سمجھنے لگے تھے۔ فضل وکمال یوں تو اسماعیل کو ہر فن پر عبور تھا؛ لیکن علمِ حدیث میں خصوصی کمال اورامتیازی مہارت رکھتے تھے،امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ بصرہ میں اتقان وتثبت ابن علیہ پر ختم ہے۔ (شذرات لذہب:۱/۳۳۳) مشہور شیخ حدیث عند ربیان کرتے ہیں کہ میری نشو ونما علمِ حدیث کی فضا میں ہوئی ہے، اس علم میں کوئی شخص ایسا نہیں تھا جسے ابن عُلیہ پر فضیلت حاصل ہو۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۹۵) امام ابو داؤد الطیالسی کا قول ہے،کوئی شخص ایسا نہیں ہے جس نے خطانہ کی ہو، البتہ ابن علیہ اوربشربن المفضل اس کلیہ سے مستثنے ہیں۔ (تہذیب التہذیب:۱/۲۷۶) یحییٰ بن المدینی نے بھی اسماعیل کے تثبت فی الحدیث کا اعتراف کیا ہے،وہ کہتے ہیں کہ چار کے علاوہ اکثر محدثین سے تصحیف وغلطی ہوئی ہے، وہ چاریہ ہیں،یزید بن زریع، ابن علیہ، بشر بن المفضل، عبدالوارث بن سعید۔ ہشیم بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ بصرہ کے چند حفاظِ حدیث جمع ہوئے تو اُن سے کوفہ کے محدثین نے کہا کہ تم اسمٰعیل بن عُلیہ کے علاوہ جس کو چاہو سامنے لاؤ ہم کو ان سے علم وفضل میں کم نہ پاؤ گے،مگر ابن علیہ کے علم وفضل کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔ (ایضاً:۲۳۰) امام شعبہ انہیں سید المحدثین کہتے تھے اورابن ناصر الدین قابلِ اعتماد ومتقن قرار دیتے تھے،ابن علیہ کی روایات میں کوئی خطا نہیں پائی گئی، یزید بن ہارون کہا کرتے تھے کہ میں بصرہ گیا تو مجھ کو وہاں کوئی ایک شخص بھی نہیں ملا جس کو فنِ حدیث میں ابن علیہ سے افضل سمجھا جاتا ہو (تاریخِ بغداد:۶/۲۳۰) قتیبہ بیان کرتے ہیں کہ عام طور پر حفاظِ حدیث چار شمار کئے جاتے تھے،اسمعیل بن علیہ، عبدالوارث ، یزید بن زریع اوروہیب۔ کان ابن علیہ ثقۃ ماموناً صدوقا مسلما ورعاً وثقاً (تہذیب التہذیب:۱/۲۷۶) ابن علیہ ثقہ سچے متقی اور قابلِ اعتماد تھے۔ جلالتِ علمی ابنِ علیہ کی عظمت اورجلالتِ شان کا یہ عالم تھا کہ کبار محدثین روایت حدیث میں ان کی مخالفت کرتے ڈرتے تھے،عفان بیان کرتے ہیں کہ ایک دن ہم لوگ حماد بن سلمہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ انہوں نے کوئی حدیث پڑھی اوراس میں ان سے ایک خطا ہوگئی، کسی شخص نے ان سے کہا کہ اس حدیث میں تو آپ کی مخالفت کی گئی ہے،دریافت فرمایا کس نے مخالفت کی ہے جواب ملا حماد بن زید نے،ابن سلمہ یہ سن کر خاموش ہوگئے اور کوئی توجہ نہیں کی، اس کے بعد حاضرین مجلس میں سے کسی نے کہا ابن علیہ بھی تو اس حدیث میں آپ کے مخالف ہیں، یہ سنتے ہی حماد بن سلمہ کھڑے ہوگئے اورگھر میں تشریف لے گئے،پھر باہر آکر فرمایا کہ تو بس اس حدیث میں ابن عُلیہ ہی کا قول معتبر ہے ۔(تہذیب التہذیب:۱/۲۷۶) (معلوم ہوتا ہے کہ گھر کے اندر روایت کی تحقیق کی غرض سے گئے تھے) امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ جب امام مالک کی وفات ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے میرے لئے سفیان بن عیینہ کو ان کی جگہ عنایت کردیا،پھر جب حضرت حماد بن زید کا انتقال ہوا تو خدا نے ان کا قائم مقام میرے لئے ابن علیہ کو بنادیا (تاریخ بغداد:۶/۲۲۱،وتہذیب :۱/۲۷۶) یعنی ابن علیہ امام احمد کے خاص اساتذہ میں ہیں۔ ایک مرتبہ یزید بن ہارون نے اپنے حلقۂ درس میں ایک حدیث نقل کی اور سلسلۂ اسناد نقل کرنے کے بعد کہا کہ اس روایت کی تخریج حضرت علیؓ نے کی ہے،ایک شخص نے عرض کیا کہ ابن علیہ تو اس کو مجاہد سے مروی مانتے ہیں،یزید بن ہارون نے یہ سُن کر کچھ التفات نہیں کیا اور پھر خرجہ علی کا اعادہ فرمایا،اصل میں وہ غلط فہمی سے ابن علیہ کو ابن عیینہ سمجھے،اس لئے شخص مذکور نے پھر زور دار انداز میں ابن علیہ کا نام لیا ،راوی کا بیان ہے کہ جب یزید بن ہارون کے کانوں میں ابن علیہ کا نام آیا تو سخت پریشان ہوئے اور دو مرتبہ ابن علیہ کہہ کر خاموش ہوگئے۔ (تہذیب التہذیب:۱/۲۷۶) مذکورہ بالا واقعات سے ابن علیہ کی جلالتِ علمی بلندی شان اور علوئے مرتبت کا پورا پورا اندازہ ہوجاتا ہے۔ قوتِ حافظہ اورفہم حدیث ابن علیہ زمانۂ طالب علمی ہی سے اپنے ہم درسوں میں فہم حدیث کے لحاظ سے ممتاز تھے، حاتم بن وردان کا بیان ہے کہ یحییٰ،اسماعیل وہیب اورعبدالوہاب،یہ چاروں ایک ساتھ حضرت ایوب کی مجلس درس میں شریک ہوتے تھے،درس سے فارغ ہوکر جب یہ اٹھتے تو سب اسماعیل بن علیہ کے گرد جمع ہوجاتے اورشیخ کی روایتوں کے بارے میں ان سے سوال کرتے کہ یہ روایت کس طرح کی ہے، اس بارے میں کیا کہا اوراس سے شیخ کی کیا مراد تھی،اسماعیل ان سب کو جواب دیتے تھے۔ (تاریخ بغداد:۶/۲۳۲) ابن علیہ اپنا سارا ذخیرہ روایت سفینوں کی بجائے سینہ میں محفوظ رکھتے تھے،محدث وہیب کا قول ہے کہ اسماعیل بن ابراہیم کا حفظ اور عبدالوہاب کی کتاب دونوں برابر ہیں،زید بن ایوب کہتے ہیں کہ میں نے ابن علیہ کے پاس کبھی کوئی کتاب نہیں دیکھی لیکن اس کے باوجود تثبت واتقان کا یہ عالم تھا کہ ان سے کوئی غلطی سرزد نہیں ہوتی تھی،علی بن الدینی کا قول اوپر گذر چکا ہے کہ "محدثین سے تصحیف بھی ہوئی اورخطائیں بھی لیکن چار محدثین ایسے ہیں جن سے کوئی خطایا تصحیف نہیں ہوئی۔ جرح ابن علیہ کی تحدیث وروایت کی توصیف وتعریف کرتے ہوئے امام دارمی نے اتنی جرح کی ہے کہ ابن علیہ کی کوئی غلطی اس کے علاوہ نہیں معلوم ہوسکی کہ حضرت جابر سے انہوں نے تدبیر غلام کی جو روایت کی ہے اس میں غلام کے نام کو مولیٰ کا نام دے دیا اور مولےٰ کے نام کو غلام کا۔ (ایضاً) شیوخ اساتذہ ابن علیہ نے بکثرت علمی سرچشموں سے اکتساب فیض کیا جس میں اکابر تابعین کرام شامل ہیں، مشاہیراساتذہ کے نام یہ ہیں، ایوب السختیانی،علی بن جدعان،محمد بن المنکدر،عبداللہ بن ابی نجیح، عطاء بن السائب،حمید الطویل (ایضاً:۲۳۳) عبدالعزیز بن صہیب ،ابنِ عون،سلیمان التیمی،داؤد بن ابی ہند،سہیل بن صالح،لیث بن ابی سلیم (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۹۵)یزید بن حمید،عبداللہ بن عوف (تاریخ بغداد:۶/۲۲۹) عاصم الاحول،ابی ریحانہ،جریری،معمر،یونس بن عبید (تہذیب الاسماء:۱/۱۲۰) تلامذۃ اسی طرح ابن علیہ کے منبع علم سے بھی بکثرت تشنگانِ علم سیراب ہوئے،ان کے حلقہ تلامذہ پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اس میں آسمانِ علم وفضل کے کیسے کیسے درخشان تارے شامل ہیں،ممتاز تلامذہ کے نام یہ ہیں: ابراہیم بن طہمان،حماد بن یزید،عبدالرحمن بن مہدی،احمد بن حنبل،یحییٰ بن معین،علی بن المدینی،زہیر بن حرب، داؤد بن رشید، احمد بن نیع، بندا دبن بشار، محمد بن المثنیٰ، یعقوب الدورتی،حسن بن عرفہ (تاریخ بغداد:۶/۲۲۹) موسیٰ بن سہل، اسحاق بن راہویہ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۹۵) بقیہ،ابنِ وہب،ابو معمر،ابو خثیمہ،ابن ابی شیبہ،علی بن حجر، ابن المنیر۔ (تہذیب التہذیب:۱/۲۷۵) ان کے علاوہ ابن جریج اورامام شعبہ جیسے اکابر اتباعِ تابعین نے بھی ابنِ علیہ سے روایتِ حدیث کی ہے،درآنحالیکہ یہ دونوں ان کے شیوخ سے شمار کئے جاتے ہیں امام ذہبی اورحافظ ابن حجر نے موسیٰ بن سہیل بن کثیر الوشا کو ابن علیہ کا آخری شاگرد بتلایا ہے۔ (ایضاً،وتذکرۃ الحفاظ:۱/۲۹۵) فقہ حدیث کی طرح ابن علیہ کو فقہ میں بھی تبحر اورکمال حاصل تھا،امام شعبہ انہیں "ریحانۃ الفقھاء" کہا کرتے تھے۔ سوال سے گھبراتے نہیں تھے بہت سے اساتذہ طلبہ کے سوالات سے گھبراجاتے ہیں،مگر ابن علیہ کبھی بھی گھبراتے نہیں تھے ؛بلکہ سوالات کو پسند کرتے تھے،امام احمد بن حنبل فرماتےہیں کہ زید بن حباب نے ایک دفعہ مجھ سے کہا کہ مجھے ابن علیہ سے استفادہ کا موقع دیجئے میں نے ابن علیہ کی روایات کے مجموعے ان کے سامنے لاکر پیش کردئے، ابن حباب ان میں سے لوگوں کی رایوں کی چھوٹی چھوٹی باتیں نوٹ کرنے لگے، جیسے ابن عون عن محمدیا خالد عن ابی قلابۃ وغیرہ، اس کے بعد پھر وہ ابن علیہ کے پاس گئے اوران احادیث کے بارے میں سوال کرنے لگے، ابن علیہ ان سے بہت خوش ہوئے اس لئے کہ: کان یحب اذ ا سئل ان یسئل عن الاحادیث المسندۃ والاسناد (تاریخ بغداد:۶/۲۳۴) وہ اس بات کو بہت پسند کرتے تھے کہ ان سے احادیث مسندۃ اوران کی اسناد کے بارے میں سوال کیا جائے۔ عہدۂ قضا فقہی مہارت اور تبحر علمی کی وجہ سے متعدد عہدوں پر بھی فائز ہوئے ؛چنانچہ ان کو سب سے پہلے بصرہ کے صدقات کا انتظام سپرد کیا گیا، پھر بغداد کے محکمہ فوجداری کے ذمہ دار مقرر ہوئے اورآخر میں بغداد کے منصب قضا سے سرفراز ہوئے لیکن زیادہ عرصہ تک اس منصب پر قائم نہیں رہے ،عبداللہ بن مبارک کی ناخوشی کا علم ہوتے ہی اس عہدہ سے مستعفی ہوگئے۔ واقعہ کی تفصیل یہ بیان کی جاتی ہے کہ عبداللہ بن مبارک تجارت کرتے تھے اوراس میں انہیں کافی نفع بھی تھا، لیکن یہ پیشہ جلب زرد منفعت کے لئے نہیں تھا؛بلکہ علماء اورطلبہ کی خدمت اوران کی دنیوی ضروریات پوری کرنے کے لئے تھا؛چنانچہ ابن مبارک خود ہی فرماتے ہیں کہ اگر سفیان بن عیینہ،سفیان ثوری،فضیل ابن السماک اورابن علیہ،یہ پانچ حضرات نہ ہوتے تو میں تجارت نہ کرتا۔ ابن علیہ کے قاضی ہونے کے بعد جب ابن مبارک بغداد آئے اورانہیں اس کا علم ہوا تونہایت آزردہ خاطر ہوئے اورجو تحفے وہ ابن علیہ کے پاس معمولا بھیجا کرتے تھے انہیں موقوف کردیا اورجب ابن علیہ ابن مبارک کی خدمت میں ملاقات کے لئے حاضر ہوئے تو آپ نے کوئی التفات نہیں کیا، ابن علیہ تھوڑی دیر بیٹھ کر گھر واپس چلے گئے اوردوسرے دن اس مضمون کا ایک خط لکھا: میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اورآپ کے لطف وکرم کا منتظر تھا،لیکن آپ نے مجھ سے کلام ہی نہیں کیا،معلوم نہیں جناب کو میری کون سی حرکت ایسی ناگوار ہوئی؟ یہ خط پڑھ کر حضرت ابن مبارک نے فرمایا کہ یہ شخص بغیر سختی کے نہیں مان سکتا اورپھر جواب میں یہ تند وتیز اشعار لکھ کر بھیج دئے۔ یا جاعل الدین لہ باذیا یصطاد اموال المساکین اے دین کے ذریعہ غیروں کے اموال کا شکار کرنے والا باز احتلت للدنیا ولذاتھا بجیلۃ تذھب بالدین تونے دنیا اوراس کی لذتوں کو حاصل کرنے کیلئے ایک ایسا حیلہ اختیار کرلیا ہے جو دین کو تباہ کرکے رہے گا۔ فصیرت مجنونابھا بعدما کنت دواء للمجانین پہلے تم دنیا کے مجنونوں کا علاج کرتے تھے اب خود تم اس کے مجنون ہو گئے ہو۔ این دوایاتک فی سودھا لترک ابواب السلاطین اب بادشاہوں کے دروازے سے بے پروا ہوکر تمہارا روایت حدیث کرنا کہاں گیا۔ ان قلت اکرھت فذاباطل ذل حمار العلم فی الطین اگر تم یہ کہو کہ مجھے عہدۂ قضا کے قبول کرنے پر مجبور کیا گیا تو یہ عذر سراسر باطل ہے اب تو یہ کہنا زیادہ موزوں ہے کہ حمار کیچڑ میں گر گیا۔ ابن علیہ کے پاس جب عبداللہ بن مبارک کا یہ خط پہنچا تو آپ پر ایسی رقت طاری ہوئی کہ آپ اسے پڑھتے جاتے تھے اور روتے جاتے تھے، پورا خط پڑھنے کے بعد آپ فوراً مجلس قضا سے اٹھے اورہارون الرشید کے پاس جاکر اپنا استعفا پیش کرتے ہوئے فرمایا خدا کے لئے آپ میرے بڑھاپے پر رحم فرمائیے، کیونکہ اب میں اس عہدہ پر باقی نہیں رہ سکتا۔ خلیفہ ہارون الرشید نے کہا معلوم ہوتا ہے کہ اس مجنون (ابن مبارک)نے آپ کو بہکادیا ہے،ابن علیہ نے فرمایا بہکایا نہیں بلکہ انہوں نے تو فی الحقیقت ایک مصیبت سے مجھے نجات دلا دی ہے اورمیں تو دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو بھی اس سے رستگاری عطا فرمائے، ہارون الرشید نے آپ کا استعفا منظور کرکے آپ کی خدمت قضا سے سبکدوش کردیا، حضرت عبداللہ بن مبارک کو اس کی اطلاع ملی تو بہت خوش ہوئے اورحسب سابق رقم کی ایک تھیلی ابن علیہ کو بھیج دی۔ (تہذیب التہذیب:۱/۲۷۸،وتاریخ بغداد:۶/۲۳۵،۲۳۶) امام نووی کی رائے ہے کہ پہلے یہ بصرہ کے صدقات وزکوٰۃ کے والی بنائے گئے پھر ہارون الرشید کے آخری دور میں بغداد کے قاضی بنائے گئے۔ (تہذیب الاسماء واللغات:۱/۱۲۰) عبادت اورخوفِ خدا ابن علیہ کو قرآن مجید کی تلاوت اورعبادت سے بے حد شغف ؛بلکہ عشق تھا، ابن مدینی نے ایک رات ان کے ساتھ بسر کی تو انہوں نے دیکھا کہ حضرت ابنِ علیہ نے اسی شب میں تہائی قرآن مجید کی تلاوت کی۔ عفان کا بیان ہے کہ ابن علیہ کا شمار ان کے عہدِ شباب سے ہی بصرہ کے عبادت گزاروں میں ہوتا تھا۔ زہد واتقاء اوراحساسِ آخرت اس دور کی ایک عام خصوصیت تھی، ابن علیہ بھی ان صفات میں زمرۂ تابعین میں نمایاں تھے،حضرت ابن مبارک کا ان کی طرف میلان اورپھر ان کی مدد کرنا خود اس بات کا واضح ثبوت ہے،پھر ابن مبارک کی تنبیہ پر ان کا استعفا دیدینا غایت تقویٰ کی دلیل ہے، ابن علیہ بلا شبہ فلیضحکو اقلیلا والیبکوا کثیراً کی مجسم تصویر تھے،ان کی خشیت الہی کا یہ عالم تھا کہ برسوں وہ ہنسے نہیں ، ان کے تلامذہ کا بیان ہے کہ جب سے وہ بصرہ کے والی بنائے گئے، انہیں کبھی ہنستے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔ خلقِ قرآن کا فتنہ اورابن علیہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ابنِ علیہ خلقِ قرآن کے قائل تھے، اگرچہ ان کے کسی قول سے اس کی صراحت نہیں ملتی، تاہم ان کے بعض ملفوظات اس خیال کی تائید ضرور کرتے ہیں۔ اسی سلسلہ میں بیان کیا جاتا ہے کہ ایک دن ابن علیہ ہارون الرشید کے بیٹے محمد امین کے پاس گئے تو امین نے آپ کو بُرا بھلا کہا اورپھر پوچھا کیا آپ خلقِ قرآن کے قائل ہیں ؟ ابن علیہ نے اس پر ندامت کا اظہار کرتے ہوئے کہا میں آپ پر قربان جاؤں یہ ایک عالم کی لغزش ہے،اس واقعہ کی شہرت نے ابن ِ علیہ کے بعض معتقدین کے دل میں بھی ان کی طرف سے تکدر پیدا کردیا تھا۔ لیکن خطیب بغدادی اس واقعہ کی تردید میں لکھتے ہیں کہ ابن علیہ سے خلقِ قرآن کے عقیدہ کی نسبت صحیح نہیں ہےعبد الصمد یزید مردویہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابنِ علیہ سے خود سنا ہے کہ القران کلام اللہ غیر مخلوق حافظ ذہبی کا رجحان بھی ادھر ہی معلوم ہوتا ہے وفات جمعرات کے دن ۲۵ یا ۲۴ ذی قعدہ ۱۹۳ھ کو علم و عمل کی یہ سمع فروزاں گُل ہوگئی۔(شذرات الذہب :۱/۲۳۳)جنازہ کی نماز ان کے صاحبزادے ابراہیم نے پڑھائی (تہذیب الاسماء للنووی:۱/۱۲۰) اور بغداد کے مشہور قبرستان ابنِ مالک میں تدفین عمل میں آئی۔