انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** دوسرے مذاہب میں طاقت کا استعمال دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ کسی زمانہ میں بھی کوئی متمدن حکومت اور کوئی تبلیغی مذہب طاقت کے استعمال سے باز نہ رہ سکا مگر قرآن کریم نے اس کی جو حدود اور شرائط مقرر کیں وہ اسی کا امتیاز ہیں،یہودی پیغمبروں اور حکمرانوں کی تو ساری تاریخ ہی جنگوں کا ایک سلسلہ ہے، حضرت شموئیل ؑ ، حضرت داود ؑ اور حضرت سلیمان ؑ سب ہی میدان جنگ میں اپنے حریفوں سے نبرد آزما نظر آتے ہیں، دشمنوں سے متعلق تورات کا حکم یہ ہے : تم ان کے کل بچوں کو قتل کردو ااورہر منکوحہ عورت کو جان سے ماردو ؛لیکن غیر منکوحہ لڑکیوں کو اپنے لئے زندہ رکھو۔ (متی : ۳۱، ۱۸ - ۱۹) ہند و مذہب جس کی اہنسا کی تعلیم کا بڑا شہرہ ہے اس کی مقدس کتاب رگ وید کے دو اقتباسات ملاحظہ ہوں: " وہ اندرا جس نے ورترا کو قتل کیا اور قصبے کے قصبے اور گاؤں کے گاؤں تباہ کرڈالے۔ (منڈل ۲، منتر ۲۰) کوروؤں اور پانڈووں کی جنگ جس نے تمام بھارت کو آتش کدہ بنادیاتھا اور جو چار سو سال تک جاری رہی اس میں کرشن جی بھی حصہ لینے پر مجبور ہوئے۔ اور ہاں وہ شہزادہ امن (حضرت مسیح علیہ السلام ) جن کی اپنے وقت کے خاص حالات میں تعلیم یہ تھی کہ : " اگر کوئی تمھارے دائیں گال پر طمانچہ مارے تو بایاں گال بھی اس کے سامنے کردو" کیا اس کے پرستار حالت بدلنے پر اس تعلیم پر عمل کرسکے ؟ مسیحیت نے جونہی بیابانوں اور غاروں سے باہر قدم نکالا اور چوتھی صدی عیسوی میں رومی حکومت کی مسند پر جلوہ آراء ہوئی تو مسیح کی بھیڑوں نے بھیڑیوں کا چولہ بدلا، رومی بت پرستوں کو خون سے بپتسمہ دیا، اور اپنے یہودی حریفوں کے کشتوں کے کشتے لگادئیے۔ پھر صلیبی جنگیں جن میں دو سو سال تک یوروپین عیسائی مجاہدین شام کی مقدس سرزمین کو اپنے گھوڑوں کی ٹاپوں سے روندتے رہے اور بیت المقدس میں انسانی خون کے چشمے بہتے رہے کیا مسیحیت کے دامن سے ان کے دھبوں کو کسی طرح دھویاجاسکتاہے؟