انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** یادداشت کی بجائے تحریر سے روایت کرنا اگرکسی صحابی، تابعی، امام یاراوی حدیث کے پاس کوئی باوثوق تحریر ہو.... اس نے وہ تحریر خود اپنی یادداشت سے لکھی ہو اس کے پاس محفوظ ہو اور اسے پوری طرح یاد ہوکہ یہ تحریر اسی کی ہے اور وہ اسے پہچانتا ہو یااس نے وہ تحریر اپنے شیخ یااپنے باپ یادادا سے لی ہو اور اس تحریر پر راوی کے دستخط یااس کی توثیق کسی پیرایہ میں درج ہو.... اور نچلا راوی اب حدیث کواپنی یادداشت سے نہیں بلکہ اس تحریری دستاویز سے روایت کرے توجائز ہے؟ ہاں جائز ہے، حضرت عبداللہ بن عمروابن العاص (۶۷ھ) آنحضرتﷺ سے جومجموعہ احادیث لکھا تھا اور وہ صحیفہ جس کا نام ‘‘الصادقہ’’ تھا؛ پھرآپ کی اولاد میں منتقل ہوتا رہا، آپ کے پوتے اور پڑپوتے اس دستاویز سے ہی ان احادیث کوآگے روایت کرتے رہے۔ یحییٰ بن سعید القطان، عمروبن شعیب کی روایت کواسی لیے کمزور سمجھتے رہے کہ وہ اپنے دادا عبداللہ بن عمروکے تحریر کردہ مجموعے سے احادیث کو روایت کرتے ہیں (یادداشت سے نہیں) لیکن اکثر اہلِ علم اس طرح روایت کرنے کوناجائز نہیں سمجھتے، امام ترمذیؒ لکھتے ہیں: ‘‘قدتکلم یحییٰ بن سعید فی حدیث عمروبن شعیب وقال ھوعندنا واہٍ ومن ضعّفہ فانما ضعفہ من قبل ان یحدث من صحیفۃ جدہٖ عبداللہ بن عمروواما اکثر اہل العلم فیحتجون بحدیث عمروبن شعیب ویثبتونہ’’۔ (جامع ترمذی:۱/۸۲،۴۳) ترجمہ: یحییٰ بن سعید نے عمروبن شعیب کی حدیث میں کلام کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کی روایت ہمارے ہاں کمزور ہے اور جس نے بھی اسے ضعیف کہا اس لیے کہا ہے کہ وہ اپنے دادا عبداللہ بن عمرو کے صحیفہ (الصادقہ) سے حدیث روایت کرتے تھے؛ لیکن اکثراہلِ علم عمروبن شعیب کی حدیث سے حجت پکڑتے ہیں اور اسے ثابت مانتے ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اکثراہلِ علم کے ہاں باوثوق تحریر سے حدیث روایت کرنا ناجائز نہ سمجھا جاتا تھا، حضرت عبداللہ بن عمروبن العاصؓ اس کتاب "الصادقہ" کے بارے میں فرماتے ہیں کہ "الصادقہ" وہ کتاب ہے جومیں نے حضوراکرمؐ سے لکھی تھی۔ (سنن دارمی:۱/۱۲۷)