انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** شمع رسالت کے پروانے ادھر چند جاں نثاروں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد ایک حلقہ بنالیا حضرت ابو دجانہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منہ کرکے اپنی پشت کو سپر بنالیا پشت کو سپربنانے میں یہ مدعا تھا کہ جو تیر آئے وہ ان کے جسم پر لگے اگر منھ کفار کی طرف اور پشت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہوتی تو ممکن تھا کہ تیر کو آتے ہوئے دیکھ کر فطری طور پر جھجک پیدا ہو اوراپنے جسم کو بچائیں،اورمباد اتیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ جائے؛چنانچہ ان کی پشت تیروں سے چھلنی ہوگئی اوروہ اسی طرح کھڑے رہے حضرت سعدؓ بن وقاص اورحضرت ابو طلحہؓ، حضرت زبیرؓ، حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے لئے دیوارِ آہنی کی طرح ڈٹ کر کھڑے ہوگئے اورتیرو تلوار چلا چلا کر دشمنوں کو روکتے رہے،حضرت طلحہؓ دشمنوں کی تلواروں کو اپنے ہاتھ پر روکتے تھے،یہاں تک کہ اُن کا ہاتھ زخموں کی کثرت سے بیکار ہوگیا تھا،حضرت زیاد بن سکنؓ انصاری معہ اپنے پانچ ہمراہیوں کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہوئے، حضرت عمارہ بن زیاد بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت میں پروانہ وار شہید ہوئے،ام عمارہ جن کا نام نسیبہ بنت کعبؓ تھالشکر اسلام کےپیچھے پیچھے لڑائی دیکھنے کی غرض سے گئی تھیں جب لڑائی کا رنگ دوپہر کے بعد یکا یک تبدیل ہوا تو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچ گئیں ابن قیمہ نے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر وار کیا تو ام عمارہ نے تلوار لے کر ابن قیمہ پر پے درپے کئی وار کئے،مگرچونکہ دوہری زرہ پہن رہا تھا اس پر اثر نہ ہوا اس نے ام عمارہ کے تلوار کا ایک ہاتھ مارا تو شانہ کے قریب ان کا ہاتھ زخمی ہوگیا۔