انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** عقل کی نظر میں عقلی حیثیت سے فرشتوں کا عقیدہ بھی اسی طرح قبول اور انکار کےقابل ہے جس طرح عقلیات کے دوسرے عقائد اور نظرئیے ہیں جن کی تصدیق یا تکذیب عقل کی پہنچ سے باہر ہے، اس لیے اس عقیدہ کو یہ کہہ کر کوئی رد کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا کہ یہ خلاف عقل ہے بلکہ جس طرح قیاسیات اور عقلی نکتہ پردازی سے دوسرے عقلی مباحث کا فیصلہ کیاجا تا ہے، ویسا ہی یہاں بھی کہاجاسکتا ہے، اشیاء میں خصائص اور لوازم کے وجود اور ان کے اسباب و علل کا مسئلہ عقلاء میں ہمیشہ اختلافات کا دنگل بنارہا اور یہ معمہ اب بھی اسی طرح ہے جس طرح پہلے تھا، اس کا حل سائنس کی مادی تحقیقات اورتجربوں کی طاقت سے باہر ہے،اور فلسفہ بھی اس کی گتھی کےسلجھانے سے عاجز ہے، اس لیے اگر حکمائے ملحدین کی شاہراہ سے الگ ہٹ کر اس کےحل کی کوئی صورت مذہب والوں نے نکالی ہے تو وہ محل اعتراض نہیں ہوسکتی اور نہ خلاف عقل کہی جاسکتی ہے، کائنات کے حوادث میں جس طرح مادی علل واسباب کارفرماہیں، اسی طرح ان سے بالاتر روحانی علل واسباب بھی ساتھ ساتھ کارفرما ہیں اور ان دونوں قسم کے اسباب کی مواقفت سے حوادث کا وجود ہوتا ہے، یہی سبب ہے کہ انسان اکثر مادی علل و اسباب موجود ہونے یا نہ ہونے کے باوجود کامیاب یا ناکام ہوتا ہے اور اس کا نام نصیب واتفاق رکھتا ہے حالانکہ مسئلہ علل واسباب کو مان لینے کے بعد نصیب واتفاق کوئی چیز نہیں رہ جاتا، یہی روحانی علل و اسباب ہیں جن کاتعلق اللہ تعالی نے اپنی مرضی سے ان فرشتوں کے سپرد کردیا ہے جو فرما نبردار چاکروں کی حیثیت سے نظام عالم کو چلارہے ہیں، ہمارے اور دوسرے متکلمین اور حکماء کی اصطلاحات میں فرق یہ ہے کہ وہ ملائکہ کی تعبیر اسباب وعلل کے "قوائے طبعی" سے کرتے ہیں اور ہم "قوائے روحانی" سے۔ اس تقریر کا یہ منشاء نہیں ہے کہ اشیاء کے خواص وطبائع اور اس مادہ کی ملکیت میں مقرر طبعی اصول وقوانین موجود نہیں بلکہ یہ مقصدہے کہ اللہ تعالی نے اپنے ازلی اندازہ (تقدیر)کے مطابق ہرچیز کے خصائص اور اصول وقوانین مقرر کرکے ملائکہ کو حکم دیا ہے کہ وہ اس کو ان ہی اصول وطبائع مقررہ کے مطابق چلاتے رہیں۔ (سیرۃ النبیﷺ :۴/۲۹۰، مصنف:علامہ شبلی نعمانیؒ، علامہ سیدسلیمان ندوی)