انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** آزمائش سے گزرنے والے چند صحابہ کرام اس دور ابتلا میں دار و رسن کی آزمائش سے گذرنے والے چند صحابہ کرام کے نام حسب ذیل ہیں: حضرت عثمانؓ بن عفان بنی اُمیہ کے معزز اور دولت مند شخص تھے؛ لیکن ان کا چچا ان کو رسی سے باندھ کر مارتا اور دین اسلام ترک کرنے کے لئے کہتا؛ لیکن انھوں نے تمام تکالیف برداشت کیں؛ لیکن اسلام کو نہ چھوڑا ، ان کی والدہ گھر چھوڑ کر اپنے بھائی عامر بن کریز کے پاس چلی گئیں اور سال بھر وہیں رہیں، پھر مایوس ہوکر گھر آگئیں۔ حضرت زبیرؓ بن عوام کا چچا بھی انھیں بوری میں لپیٹ کر لٹکا دیتا اور نیچے سے دھونی دیتا اور اسلام چھوڑنے کے لئے کہتا ؛لیکن وہ اپنے دین پر ثابت قدم رہے۔ حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف تاجر کی حیثیت سے دور دور تک جانے پہچانے جاتے تھے؛ لیکن ان پر بھی اس قدر مظالم کئے گئے کہ مجبور ہوکر حبشہ کی طرف ہجرت کئے ۔ حضرت مصعبؓ بن عمیر مکہ کے حسین اور خوش پوشاک شخص تھے ، اسلام قبول کرنے کے بعد ان کے چچا زاد بھائی عثمان بن طلحہ نے انھیں نماز پڑھتے دیکھ کر بہت اذیتیں دیں اور قید کردیا؛ لیکن وہاں سے نکل بھاگے اور حبشہ کی جانب ہجرت کر گئے۔ حضرت سعدؓ بن ابی وقاص نے نوجوانی کے عالم میں اسلام قبول کیا تو ماں ناراض ہو گئیں اور تین دن تک کھانا پینا چھوڑ دیا؛ لیکن حضرت سعدؓ استقلال سے دین پر جمے رہے۔ حضرت بلال ؓ حبشی غلام تھے اور اُن کا مالک اُمیہ بن خلف تھا جو انھیں دہکتے ہوئے انگاروں پر لٹا کر سینہ پر وزنی پتھر رکھ دیتا تھا اور ننگے جسم پر ببول کے کانٹے چبھوتا تھا، تنگ و تاریک کمرے میں بند کردیتا اور غلاموں کو حکم دیتا کہ انہیں باری باری کوڑے مارتے رہیں ، غرض کہ ہر قسم کا ظلم ان پر کیا کرتا تھا لیکن انھوں نے اسلام سے منہ نہ موڑا ، حضرت ابوبکرؓ صدیق نے ایک دن حضرت بلالؓ پر ظلم ہوتے ہوئے دیکھ لیا اور اُمیہ بن خلف (مالک ) سے منہ مانگے دام چالیس اوقیہ نقد ادا کر کے خرید کر انھیں آزاد کردیا ، تقدیر کا کرنا ایسا ہوا کہ غزوۂ بدر میں یہی مالک اُمیہ بن خلف اپنے غلام حضرت بلالؓ کے ہاتھوں قتل ہو۱۔ حضرت ابو فکیہہؓ بھی حضرت بلالؓ کے ساتھ ہی خفیہ طور پر ایمان لائے تھے، اُمیہ نے اپنے آدمیوں کے ذریعہ رسی باندھ کر لے جانے اور تپتی ریت پر لٹانے کے لئے کہا، گرم ریت پر لٹائے جانے کی وجہ پیاس سے زبان باہر نکل جاتی، حضرت ابو بکرؓ کو ان مظالم کا حال معلوم ہوا تو انھیں خرید کر راہِ خدا میں آزاد کردیا۔ حضرت زنیرہؓ بنی عدی کی کنیز تھیں ، اسلام لانے سے پہلے حضرت عمرؓ اس پر بہت ظلم کرتے اور اسلام چھوڑدینے کے لئے دباؤ ڈالتے ، ابو جہل نے ایک بار اتنا مارا کہ بینائی چلی گئی جس پر مشرکین نے انھیں طعنہ دیا کہ لات و عزّیٰ نے اندھا کر دیا ، انھوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے چاہا تو ان کی بینائی لوٹ کر آ سکتی ہے چنانچہ ایسا ہی ہوا اور ان کی بینائی واپس آگئی ، حضرت ابو بکر ؓ نے انھیں بھی خرید کر آزاد کر دیا، حضرت حمامہؓ : کو بھی سخت تکالیف دی جاتی تھیں جنھیں حضرت ابو بکرؓ نے خرید کر آزاد کیا، حضرت لُبینہؓ بنی موسل کی باندی تھیں ، اسلام لانے کے جرم میں حضرت عمرؓ ان کو بری طرح پیٹا کرتے اور جب مارتے مارتے تھک جاتے تو کہتے " اے لُبینہ میں نے تجھ کو رحم کی وجہ سے نہیں بلکہ اس وجہ سے چھوڑا ہے کہ خود تھک گیا ہوں، حضرت ابوبکر صدیقؓ نے ان کو خرید کر آزاد کردیا۔ حضرت نہدیہ ؓ : یہ بھی ایک باندی تھیں، اسلام قبول کرنے کے بعد ان کو بڑی بڑ ی مصیبتیں جھیلنے پڑیں، ان کو بھی حضرت ابوبکرصدیقؓ نے خرید کر آزاد کردیا، حضرت اُم عبیسؓ : یہ بنی زہرہ کی باندی تھیں، مسلمان ہونے کے بعد ان کو بھی بہت تکلیفیں دی گئیں، انھیں بھی حضرت ابوبکر صدیقؓ نے خرید کر آزاد کردیا، حضرت عامر بن فہیرہ : یہ طفیل بن عبداﷲ کے غلام تھے ، ابتداء ہی میں اسلام قبول کرلیاتھا، مشرکین نے ان کو طرح طرح کی تکلیفیں دیں مگر انھوں نے اسلام نہیں چھوڑا، ان کو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے خرید کر آزاد کردیا، حضرت خبّابؓ بن ارت : اسلام قبول کرنے والوں میں چھٹے مسلمان ہیں، غلام بنا کرمکہ میں فروخت کئے گئے تو اُمّ اتمار بنت سباع نے خریدا، پیشہ کے لحاظ سے لوہار تھے اور تلواریں بنا کر فروخت کرتے تھے، بعثت نبوی کے بعد اسلام قبول کئے تو انہیں اذیت ناک سزائیں دی جانے لگیں، دہکتے انگاروں پر ننگی پیٹھ پر لٹا کر سینہ پر بھاری پتھر رکھے جاتے ؛لیکن صبر و شکر سے ان مصائب کو جھیلتے رہے اور اسلام سے منہ نہ موڑا۔ غرض کہ جو مسلمان غلام بھی ظلم و ستم کا شکار ہوتا اور حضرت ابو بکرؓ کواطلاع ہوتی تو فوراً منہ مانگے دام دے کر اسے خریدتے اور اسے راہِ خدا میں آزاد کر دیتے، اسی لئے آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا جتنا نفع مجھ کو ابو بکرؓ کے مال نے دیا اور کسی کے مال نے اتنا نفع نہیں پہنچایا۔