انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** سرکاری محاصل زراعت اور غلہ کی پیداوار پربجائے نقد روپیہ وصول کرنے کے عموماً بٹائی (مقاسمہ) کا قاعدہ جاری تھا، پیداوار کا ۲/۵، حصہ سرکاری خزانہ کے لیے لیا جاتا تھا اور ۳/۵، چھوڑ دیا جاتا تھا اور لگان سرکاری صرف چوتھائی حصہ لیا جاتا تھا، بعض زمینوں کی پیداوار پرصرف ۱/۵، لیا جاتا تھا اور ۴/۵، کاشت کار کے قبضہ میں رہتا تھا، انگوروں اور کھجوروں وغیرہ کے باغات پراسی مقاسمہ کے اصول کومدنظر رکھ کرنقد لگان لگادیا جاتا تھا اور نقدی کی شکل میں وصول ہوتا تھا، بعض صوبے مثلاً بحرین، عراق، جزیرہ وغیرہ میں بہ کثرت ایسے کاشتکار تھے کہ ان کی زمینوں پرخلافتِ راشدہ کے زمانہ میں بہ وقت فتح معاہدہ کے ذریعہ سے پیداوار پرمحصول مقرر کیا گیا تھا، وہ گویا استمراری بندوبست تھا، ان کاشت کاروں پرکوئی اضافہ نہیں ہوسکتا تھا، محصول تشخیص کرنے کے وقت اکثر زمینیں بلامحصول چھوڑ دی جاتی تھیں اور کاشت کاروں کوذرا ذرا سے بہانوں پرمحصول معاف کردیا جاتا تھا، حکومت کی نظر اس بات پرزیادہ رہتی تھی کہ کاشت کار خوش حال اور فارغ البال رہیں؛ تاکہ علاقہ کی آبادی اور سرسبزی میں فرق نہ آنے پائے، ملک کا بہت بڑا رقبہ ایسا تھا کہ اس پرپیداوار کا صرف دسواں حصہ مقرر تھا، ذمی جن سے فوجی خدمت نہیں لی جاتی تھی اور ان کے جان ومال کی حفاظت سلطنت کے ذمہ تھی، فوجی مصارف کے لیے نہایت معمولی ٹیکس ادا کرتے تھے، جواپنی خوشی سے فوجوں میں بھرتی ہوجاتے، ان پرٹیکس یعنی جزیہ نہیں لگایا جاتا تھا، مسلمانوں سے ایک اور ٹیکس صدقات کے نام سے وصول کیا جاتا تھا، مال دار مسلمانوں سے زکوٰۃ کے نام سے ایک ٹیکس وصول ہوتا تھا، اس کوانکم ٹیکس سمجھنا چاہیے۔