انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** نجاست کی قسمیں اور اس کے احکام اللہ تعالی نے فرمایا:وَثِیَابَکَ فَطَھِّْر (المدثر:۴) ترجمہ:اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھئے۔حوالہ نجاست کسے کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی بغیر پاکی کے نماز قبول نہیں فرماتے ۔ لَا تُقْبَلُ صَلَاةٌ بِغَيْرِ طُهُورٍ (مسلم، بَاب وُجُوبِ الطَّهَارَةِ لِلصَّلَاةِ ۳۲۹) بند نجاست کہتے ہیں:بدن ، کپڑے اور جگہ کا اس حال میں ہونا کہ جسے شریعت گندا سمجھتی ہو اور اس سے پاکی حاصل کرنے کا حکم دیتی ہو۔حوالہ (المصباح المنير ۱۶۵/۹) بند پھر نجاست کی دوقسمیں ہیں:(۱) نجاست حکمیہ (۲) نجاست حقیقیہ (۱) نجاست حکمیہ:انسان کا ایسی حالت میں ہونا کہ جس حالت میں نماز جائز نہیں ہوتی نجاست حکمیہ کو حدث بھی کہا جاتا ہے۔اور حدث کی دو قسمیں ہیں: (الف) حدث اکبر (ب) حدث اصغر ۔ (الف) حدث اکبر کہتے ہیں:انسان کا ایسی حالت میں ہونا کہ جس میں غسل واجب ہوتا ہو، اور اس حالت میں نماز اور تلاوت جائز نہیں ہوتی۔ حوالہ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنْتُمْ سُكَارَى حَتَّى تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ وَلَا جُنُبًا إِلَّا عَابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُورًا (النساء: ۴۳) اسی طرح اس حالت میں قرآن کریم کی تلاوت بھی جائز نہیں ہوتی عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تَقْرَأْ الْحَائِضُ وَلَا الْجُنُبُ شَيْئًا مِنْ الْقُرْآنِ (ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي الْجُنُبِ وَالْحَائِضِ أَنَّهُمَا لَا يَقْرَأَانِ الْقُرْآنَ ۱۲۱) بند (ب) حدث اصغر:انسان کا ایسی حالت میں ہونا کہ جس حالت میں وضو واجب ہوتا ہو۔ اس حالت میں نماز جائز نہیں ہوتی ؛ لیکن اس حالت میں زبانی قرآن کی تلاوت جائز ہے ۔حوالہ عن أَبي هُرَيْرَةَعَنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ أَحَادِيثَ مِنْهَا وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تُقْبَلُ صَلَاةُ أَحَدِكُمْ إِذَا أَحْدَثَ حَتَّى يَتَوَضَّأَ(مسلم، بَاب وُجُوبِ الطَّهَارَةِ لِلصَّلَاةِ ۳۳۰ موقع الإسلام) عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ كَانَ فِي قَوْمٍ وَهُمْ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ فَذَهَبَ لِحَاجَتِهِ ثُمَّ رَجَعَ وَهُوَ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَتَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَلَسْتَ عَلَى وُضُوءٍ فَقَالَ لَهُ عُمَرُ مَنْ أَفْتَاكَ بِهَذَا أَمُسَيْلِمَةُ (موطا مالك بَاب الرُّخْصَةِ فِي قِرَاءَةِ الْقُرْآنِ عَلَى غَيْرِ وُضُوءٍ ۴۲۰) عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، وَابْنِ عُمَرَ ، قَالَ :كَانَا يَقْرَآنِ أَجْزَاءَهُمَا مِنَ الْقُرْآنِ بَعْدَ مَا يَخْرُجَانِ مِنَ الْخَلاَءِ ، قَبْلَ أَنْ يَتَوَضَّأَ. (مصنف ابن ابي شيبة في الرجل يَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَهُوَ غَيْرُ طَاهِرٍ ۱۰۳/۱) بند (۲) نجاست حقیقی:یہ وہ گندگی ہوتی ہے جس سے مسلمان کا پاک ہونا ضروری ہوتا ہے اور نجاست حقیقی کی بھی اسی طرح دو قسمیں ہوتی ہیں: (الف) نجاست غلیظہ (ب) نجاست خفیفہ۔ (الف) نجاست غلیظہ:جس کا نجاست ہونا ایسی دلیل سے ثابت ہو جس میں کوئی شبہ نہ ہو۔ نجاست غلیظہ کی مثالیں (۱) بہتا ہوا خون۔حوالہ قُلْ لَا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَى طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَنْ يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنْزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (الانعام:۱۴۵) بند (۲) شراب ۔حوالہ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (المائدة:۹۰) عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيِّ أَنَّهُ سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّا نُجَاوِرُ أَهْلَ الْكِتَابِ وَهُمْ يَطْبُخُونَ فِي قُدُورِهِمْ الْخِنْزِيرَ وَيَشْرَبُونَ فِي آنِيَتِهِمْ الْخَمْرَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنْ وَجَدْتُمْ غَيْرَهَا فَكُلُوا فِيهَا وَاشْرَبُوا وَإِنْ لَمْ تَجِدُوا غَيْرَهَا فَارْحَضُوهَا بِالْمَاءِ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا (ابوداود بَاب الْأَكْلِ فِي آنِيَةِ أَهْلِ الْكِتَابِ ۳۳۴۲ موقع الإسلام) عَنْ مُجَاهِدٍ ، قَالَ :إِذَا أَصَابَ ثَوْبَكَ خَمْرٌ فَاغْسِلَهُ هُوَ أَشَدُّ مِنَ الدَّمِ(مصنف ابن ابي شيبة فِي الْقَيْءِ وَالْخَمْرِ يُصِيبُ الثَّوْبَ ۱۹۳/۱) بند (۳) مردار کا گوشت اور اس کی کھال۔ حوالہ إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (البقرة:۱۷۳) بند (۴) ان جانوروں کا پیشاب جن کا گوشت کھا یا نہیں جاتا ۔ حوالہ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ مَرَّ بِقَبْرَيْنِ يُعَذَّبَانِ فَقَالَ إِنَّهُمَا لَيُعَذَّبَانِ وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي كَبِيرٍ أَمَّا أَحَدُهُمَا فَكَانَ لَا يَسْتَتِرُ مِنْ الْبَوْلِ (بخاري بَاب الْجَرِيدِ عَلَى الْقَبْرِ۱۲۷۴) عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ قَالَ أَتَى عَلَىَّ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم - وَأَنَا عَلَى بِئْرٍ أَدْلُو مَاءً فِى رِكْوَةٍ لِى فَقَالَ يَا عَمَّارُ مَا تَصْنَعُ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ بِأَبِى وَأُمِّى أَغْسِلُ ثَوْبِى مِنْ نُخَامَةٍ أَصَابَتْهُ فَقَالَ « يَا عَمَّارُ إِنَّمَا يُغْسَلُ الثَّوْبُ مِنْ خَمْسٍ مِنَ الْغَائِطِ وَالْبَوْلِ وَالْقَىْءِ وَالدَّمِ وَالْمَنِىِّ يَا عَمَّارُ مَا نُخَامَتُكَ وَدُمُوعُ عَيْنَيْكَ وَالْمَاءُ الَّذِى فِى رِكْوَتِكَ إِلاَّ سَوَاءٌ (دارقطني باب نَجَاسَةِ الْبَوْلِ وَالأَمْرِ بِالتَّنَزُّهِ مِنْهُ وَالْحُكْمِ فِى بَوْلِ مَا يُؤْكَلُ لَحْمُهُ: ۴۶۸) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكْثَرُ عَذَابِ الْقَبْرِ مِنْ الْبَوْلِ (ابن ماجه بَاب التَّشْدِيدِ فِي الْبَوْلِ ۳۴۲) بند مذکورہ روایات میں مطلقاً بول کونجس کہا گیا ہے؛ لیکن چونکہ بول مایوکل اللحم کی بعض روایات اس سے متعارض ہیں اس لیے انہیں اس حکم سے مستثنیٰ رکھا گیا، یعنی اُس میں تخفیف پیدا ہوگئی جس کی وجہ سے اُسے نجاستِ خفیفہ میں شمار کیا گیا۔ (۵) کتے کی غلاظت (۶) درندوں کی غلاظت اور ان کا تھوک (۷) مرغی اور بطخ کی بیٹ ۔ حوالہ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِحَاجَتِهِ فَقَالَ الْتَمِسْ لِي ثَلَاثَةَ أَحْجَارٍ قَالَ فَأَتَيْتُهُ بِحَجَرَيْنِ وَرَوْثَةٍ فَأَخَذَ الْحَجَرَيْنِ وَأَلْقَى الرَّوْثَةَ وَقَالَ إِنَّهَا رِكْسٌ (ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي الِاسْتِنْجَاءِ بِالْحَجَرَيْنِ ۱۷)عن معمر قال سألت حمادا عن خرء الدجاج يصيب الثوب فقال إذا يبس فليفركه (مصنف عبد الرزاق باب خرء الدجاج وطين المطر ۳۷۶/۱ الناشر :المكتب الإسلامي بيروت) بند (۶) ہر وہ چیز جو انسان کے بدن سے نکلنے پر وضو ٹوٹ جاتا ہے ۔ حوالہ مذکورہ روایات سے معلوم ہوا کہ جن چیزوں سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، وہ خود ناپاک ہوتی ہیں یاناپاکی سے گذر کر آنے کی وجہ سے ناپاک ہوجاتی ہیں جيسا کہ علامہ كاسانی رحمہ الله نے اس كو اپنی كتاب میں تفصيل سے ذكر فرمايا: حوالہ أَنْوَاعُ الْأَنْجَاسِ فَمِنْهَا مَا ذَكَرَهُ الْكَرْخِيُّ فِي مُخْتَصَرِهِ : أَنْ كُلَّ مَا يَخْرُجُ مِنْ بَدَنِ الْإِنْسَانِ مِمَّا يَجِبُ بِخُرُوجِهِ الْوُضُوءُ أَوْ الْغُسْلُ فَهُوَ نَجِسٌ ، مِنْ الْبَوْلِ وَالْغَائِطِ وَالْوَدْيِ وَالْمَذْيِ وَالْمَنِيِّ ، وَدَمِ الْحَيْضِ وَالنِّفَاسِ وَالِاسْتِحَاضَةِ وَالدَّمِ السَّائِلِ مِنْ الْجُرْحِ وَالصَّدِيدِ وَالْقَيْءِ مِلْءَ الْفَمِ ، لِأَنَّ الْوَاجِبَ بِخُرُوجِ ذَلِكَ مُسَمًّى بِالتَّطْهِيرِ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى فِي آخِرِ آيَةِ الْوُضُوءِ : ﴿ وَلَكِنْ يُرِيدُ لِيُطَهِّرَكُمْ ﴾ وَقَالَ فِي الْغُسْلِ مِنْ الْجَنَابَةِ : ﴿ وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوا ﴾ وَقَالَ فِي الْغُسْلِ مِنْ الْحَيْضِ : ﴿ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ ، حَتَّى يَطْهُرْنَ ﴾ وَالطَّهَارَةُ لَا تَكُونُ إلَّا عَنْ نَجَاسَةٍ . وَقَالَ تَعَالَى ﴿ : وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمْ الْخَبَائِثَ ﴾ ،الخ (بدائع الصنائع ( فَصْلٌ في الطَّهَارَة الْحَقِيقِيَّة ۲۷۲/۱)۔ بند نجاست غلیظہ کا حکم: (الف) نجاست غلیظہ جب تک بقدر درہم ہو معاف ہے:اگر نجاست غلیظہ درہم کی مقدار سے بڑھ جائے تو اس کا پانی یا اس جیسی ازالہ کرنے والی چیز سے دھونا فرض ہے ، اس کے ساتھ نماز درست نہیں ہوتی۔ حوالہ عَبْد الرَّحْمَنِ بْنُ الْأَسْوَدِ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ يَقُولُ أَتَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْغَائِطَ فَأَمَرَنِي أَنْ آتِيَهُ بِثَلَاثَةِ أَحْجَارٍ فَوَجَدْتُ حَجَرَيْنِ وَالْتَمَسْتُ الثَّالِثَ فَلَمْ أَجِدْهُ فَأَخَذْتُ رَوْثَةً فَأَتَيْتُهُ بِهَا فَأَخَذَ الْحَجَرَيْنِ وَأَلْقَى الرَّوْثَةَ وَقَالَ هَذَا رِكْسٌ (بخاري بَاب لَا يُسْتَنْجَى بِرَوْثٍ: ۱۵۲)عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا ذَهَبَ أَحَدُكُمْ إِلَى الْغَائِطِ فَلْيَذْهَبْ مَعَهُ بِثَلَاثَةِ أَحْجَارٍ يَسْتَطِيبُ بِهِنَّ فَإِنَّهَا تُجْزِئُ عَنْهُ (ابوداود بَاب الِاسْتِنْجَاءِ بِالْحِجَارَةِ: ۳۶) قولہ عن عائشۃ رضی اللہ عنہا قلت: فی حدیث عائشۃ دلیل علی کفایۃ الأحجار وعدم وجوب الإستنجاء بالماء،(اعلاء السنن باب ان قدر الدرهم من النجاسة عفو۴۰۳/۱) ومذہب جمہور السلف والخلف والذی أجمع علیہ أہل الفتویٰ من أہل الأمصار أن الجمع بین الماء والحجر أفضل، ( عمدة القاري باب الاستنجاء بالماء ۱۵۳/۴) أی لیس بواجب، وفی ردالمحتار ناقلا عن شرح المنیۃوَلَنَا أَنَّ الْقَلِيلَ عَفْوٌ إجْمَاعًا ، إذْ الِاسْتِنْجَاءُ بِالْحَجَرِ كَافٍ بِالْإِجْمَاعِ(شامي: ۴۶۸/۲) ولما جاز الاکتفاء بالأحجار وظاہر أنہا لاتزیل أثرالنجاسۃ، بل تخففہا وتجففہا ثبت أن النجاسۃ قدر موضع الاستنجاء معفوعنہا، تجوز الصلاۃ معہا، وموضع الاستنجاء مقدر بالدرھم،قال فی الکفایۃ: قال النخعی رحمہ اللہ استقبحوا ذکر المقاعد فی مجالسہم، فکنوا عنہ بالدرہم (۱/۱۷۷، مع الفتح) وفی رحمۃ الأمۃ (صفحہ نمبر:۷)قال أبوحنفیۃ: إن صلی ولم یستنج صحت صلاتہ، وجعل محل الاستنجاء مقدارا یعتبر بہ سائر النجاسات علی جمیع المواضع، وحدہ بالدرہم البغلی وقال بوجوب إزالۃ النجاسۃ فی محل الاستنجاء إذا زادت علی مقدار الدرہم قلت: وفی قولہ صلی اللہ علیہ وسلم فإنہا تجزیٔ عنہ دلالۃ علی أن الأمر بثلاثۃ أحجار لیس تعبدا، بل ہوأمر إرشاد مبناہ علی الکفایۃ، فإن الأقل منہا لایکفی عادۃ فإن أجزأ واحد وإثنان یجوز الاقتصار علیہ، نظر إلی قولہ صلی اللہ علیہ وسلم فإنہا تجزیٔ عنہ فافہم، فإن مدارک الحنفیۃ دقیقۃ جدا۔(اعلاء السنن باب ان قدر الدرهم من النجاسة عفو۴۰۳/۱) بند (ب) نجاست خفیفہ:وہ نجاست ہے جس کے ناپاک ہونے کا بالکلیہ طور پر یقین نہیں کیا جاسکتا:اس لئے کہ اس کے پاک ہونے پر دلالت کرنے والی دلیل موجود ہے۔ نجاست خفیفہ کی مثالیں: گھوڑے کا پیشاب، اور ان جانوروں کا پیشاب جن کا گوشت کھا یا جاتا ہے، جیسے اونٹ ، گائے ،بکری۔حوالہ عن عطاء ، قال :ما أكل لحمه فلا بأس ببوله.(مصنف ابن ابي شيبة في بول البعير والشاة يصيب الثوب ۱۱۵/۱) بند اور اس پر ندے کی بیٹ جس کا گوشت نہیں کھایا جاتا -حوالہ عن أبي عثمان ، قال :كنا جلوسا مع عبد الله إذ وقع عليه خرء عصفور ، فقال له :هكذا بيده ، نفضه(مصنف ابن ابي شيبة الذي يصلي وفي ثوبه خرء الطير ۱۱۷/۱) بند نجاست خفیفہ کا حکم: نجاست خفیفہ اگر زیادہ نہ ہوتو معاف ہے اور زیادہ کی مقدار کا اندازہ چوتھائی کپڑا اور بدن سے لگایا گیا ہے۔ حوالہ فَقُدِّرَ بِمَا هُوَ كَثِيرٌ فِي الشَّرْعِ فِي مَوْضِعِ الِاحْتِيَاطِ وَهُوَ الرُّبْعُ (بدائع الصنائع ( فَصْلٌ في بَيَان الْمِقْدَارِ الَّذِي يَصِيرُ بِهِ الْمَحَلُّ نَجِسًا۳۵۰/۱) بند اسی طرح پیشاب کے چھینٹے سوئی کے نا کے برابر ہوں تو معاف ہے۔ حوالہ عن عامر ؛ وقد ذكر عدة منهم أبو جعفر ؛ أنهم كانوا لا يعيدون الصلاة من نضح البول والدم.( مصنف ابن ابي شيبة في الرجل يصلي وقد أصاب خفه قطرة من بول ۳۸۶/۱) بند جو نجس کپڑا یا نجس بستر سونے والے کے پسینے یا پیر کی تری سے بھیگ جائے ،اگر بدن یا پیر میں نجاست کا اثر ظاہر ہوتا ہے تو بدن اور پیر کے ناپاک ہونے کا حکم لگا یا جائے گااور اگر بدن یا پیر میں نجاست کے اثرات ظاہر نہ ہوں تو کپڑا ناپاک نہ ہوگا ، اگر پاک سوکھے کپڑے کو تر ناپاک کپڑے میں اسی طرح لپیٹا جائے کہ اس تر کپڑے کو نچوڑا جائے تو پانی نہ نکلے تو وہ پاک کپڑا نجس نہ ہوگا۔ حوالہ أَلَا تَرَى إلَى مَا ذَكَرُوا مِنْ أَنَّهُ لَوْ مَشَى وَرِجْلُهُ مُبْتَلَّةٌ عَلَى أَرْضٍ أَوْ لَبِدٍ نَجِسٍ جَافٍّ لَا يَتَنَجَّسُ ، وَلَوْ كَانَ عَلَى الْقَلْبِ وَظَهَرَتْ الرُّطُوبَةُ فِي رِجْلِهِ تَتَنَجَّسُ كَذَا فِي الْخُلَاصَة(فتح القدير بَابُ الْأَنْجَاسِ وَتَطْهِيرِهَا: ۳۵۳/۱) بند جب گندگی پر ہوا چلے پھر تر کپڑے کو لگ جائے ، اگر اس کپڑے میں نجاست کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں تو کپڑا نجس ہو جائے گااور اگر کپڑے میں نجاست کے اثرات ظاہر نہ ہوئے ہوں تو کپڑا نجس نہ ہوگا۔ حوالہ عن أُمّ وَلَدٍ لِابْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ قَالَتْ كُنْتُ امْرَأَةً لِي ذَيْلٌ طَوِيلٌ وَكُنْتُ آتِي الْمَسْجِدَ وَكُنْتُ أَسْحَبُهُ فَسَأَلْتُ أُمَّ سَلَمَةَ قُلْتُ إِنِّي امْرَأَةٌ ذَيْلِي طَوِيلٌ وَإِنِّي آتِي الْمَسْجِدَ وَإِنِّي أَسْحَبُهُ عَلَى الْمَكَانِ الْقَذِرِ ثُمَّ أَسْحَبُهُ عَلَى الْمَكَانِ الطَّيِّبِ فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا مَرَّتْ عَلَى الْمَكَانِ الْقَذِرِ ثُمَّ مَرَّتْ عَلَى الْمَكَانِ الطَّيِّبِ فَإِنَّ ذَلِكَ طَهُورٌ (مسند احمد حديث ام سلمة زوج النبي صلي الله عليه وسلم۲۶۷۲۸) بند