انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** مصر کی امارت حضرت علیؓ نے اور دوسرے صحابہؓ نے محمد بن ابی بکرؓ کا نام لیا وہ پہلے ہی سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے حامی اور عبداللہ بن سبا کے فریب میں آئے ہوئے تھے حضرت عثمان غنیؓ نے محمد بن ابی بکرؓ کو مصر کی امارت کا فرماں لکھ کردے دیا، اورحضرت علی کرم اللہ وجہہ نے بلوائیوں کے سرداروں کو رخصت کیا، اورکہا کہ جاؤ اب تمہاری ضد پوری ہوگئی،حضرت طلحہ اور حضرت زبیرؓ نے بھی بہت کچھ سمجھا بجھا کر لوگوں کو رخصت کردیا،تیسرے یا چوتھے روز کیا دیکھتے ہیں کہ باغیوں کی ساری کی ساری جماعت تکبیر کے نعرے بلند کرتی ہوئی مدینہ میں داخل ہوئی اور حضرت عثمانؓ کے گھر کا محاصرہ کرلیا، حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے کہا کہ تم لوگ یہاں سے چلے گئے تھےپھر کیسے واپس آگئے،انہوں نے کہا کہ خلیفہ نے اپنے غلام کے ہاتھ عبداللہ بن سعدؓ کے پاس مصر کی جانب ایک خط روانہ کیا تھا کہ ہم جب وہاں پہنچیں تو وہ ہم کو قتل کردے،ہم نے وہ خط پکڑلیا ہے،اس کو لے کر آئے ہیں،ساتھ ہی مصری وکوفی قافلے بھی واپس آگئے ہیں کہ اپنے بھائیوں کے ساتھ رنج وراحت میں شرکت کریں،حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ واللہ یہ تم لوگوں کی سازش ہے اور تمہاری نیت نیک نہیں ہے،ان لوگوں نے کہا خیر جو کچھ بھی ہو اس خلیفہ کو قتل کرنا ضروری ہے،آپ اس کام میں ہماری مدد کریں،حضرت علیؓ نے برہم ہوکر فرمایا میں بھلا تمہاری مدد کیسے کرسکتا ہوں یہ سن کر ان لوگوں نے کہا کہ پھر آپ نے ہم کو کیوں لکھا تھا؟ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ میں نے تم کو کبھی کچھ بھی نہیں لکھا یہ سُن کر وہ آپس میں حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے،حضرت علی کرم اللہ وجہہ اس کے بعد مدینہ سے باہر مقام احجارالزیت میں تشریف لے گئے اور بلوائیوں نے حضرت عثمان غنیؓ کو تنگ کرنا شروع کردیا،اب تک بلوائی لوگ حضرت عثمان غنیؓ کے پیچھے نمازیں پڑھتے تھے،اب انہوں نے اُن کے پیچھے نمازیں پڑھنی چھوڑدیں اوردوسرے لوگوں کو بھی زبردستی حضرت عثمانؓ کے پیچھے نماز پڑھنے سے روکنا شروع کیا۔ حضرت عثمان غنیؓ نے یہ رنگ اورمدینہ کی گلیوں کو بلوائیوں سے پُر دیکھ کر مختلف ممالک کے والیوں کو خطوط لکھے اورامداد طلب کی یا یہ خبریں خود بخود ہی ان ممالک میں پہنچیں ،چنانچہ مصر،شام،کوفہ،بصرہ سے نیک دل لوگوں اور صحابہ کرام نے مدینہ کی طرف لوگوں کو روانہ ہونے اورخلیفہ وقت کی مدد کرنے کی ترغیب دی،حضرت معاویہؓ نے حبیب بن مسلمہ فہری کو اورعبداللہ بن سعدؓ نے معاویہ بن خدیج کو روانہ کیا کوفہ سے قعقاع بن عمرو ایک جماعت کے ساتھ روانہ ہوئے،اسی طرح بصرہ سے بھی ایک جماعت روانہ ہوئی ان خبروں کے پہنچنے اوران امدادی جمعیتوں کے روانہ ہونے میں ضرور کچھ نہ کچھ تامل واقع ہوا؛کیونکہ ان میں سے کوئی بھی حضرت عثمانؓ غنی کی شہادت سے پہلے مدینہ میں نہ پہنچ سکا سب نے راستہ ہی میں واقعہ شہادت کا حال سُنا اور راستہ ہی سے اپنے اپنے صوبوں کی طرف واپس روانہ ہوگئے ،تیس دن تک حالت محاصرہ میں حضرت عثمان غنیؓ نمازوں کے لئے مسجد میں آتے رہے اس کے بعد بلوائیوں نے ان کا گھر سے نکلنا اور گھر میں پانی کا جانا بند کردیا، حضرت عثمانؓ نے ہر چند کہا کہ تم عینی شاہد پیش کرو کہ میں نے یہ خط لکھا ہے جس کو تم نے بہانہ بنایا ہے ،یا مجھ سے قسم لے لو،مجھ کو اس کا کوئی علم نہیں ہے،بلوائیوں نے کسی کی کوئی معقول بات پسند نہ کی،ایک عام افرا تفری کا زمانہ تھا،حضرت عثمان غنیؓ پر بلوائیوں نے پانی کا جانا بند کردیا،تو ان کو بڑی تکلیف ہوئی،پھر ایک ہمسایہ کے ذریعہ پوشیدہ طور پر پانی گھر میں پہنچتا رہا۔