انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت عقیل بنؓ ابی طالب نام ونسب عقیل نام ،ابویزید کنیت،سلسلہ نسب یہ ہے، عقیل بن ابی طالب بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدمناف القرشی الہاشمی، ماں کا نام فاطمہ تھا، آپ حضرت علیؓ کے سوتیلے بھائی اورعمر میں ان سے بیس سال بڑے تھے۔ (اسد الغابہ:۳/۴۳۲) بدر میں گرفتاری عقیل کا دل ابتدا سے اسلام کی طرف مائل تھا؟ ؛لیکن مشرکین مکہ کے خوف سے علی الاعلان اسلام نہیں قبول کرسکتے تھے؛چنانچہ بدر میں بادل ناخواستہ مشرکین کے ساتھ شریک ہوئے اور جب ان کو شکست ہوئی تو دوسرے مشرکین کے ساتھ یہ بھی گرفتار ہوئے، آنحضرتﷺ نے حضرت علیؓ کو بھیجا کہ دیکھو میرے گھرانے والوں میں کون کون لوگ گرفتار ہوئے،آپ نے تحقیقات کرکے عرض کیا کہ نوفل،عباس اور عقیل گرفتار ہوئے ہیں یہ سن کر آنحضرتﷺ خود بہ نفس نفیس تشریف لائے اور عقیل کے پاس کھڑے ہوکر فرمایا کہ ابو جہل قتل ہوگیا، عقیل بولے اب تہامہ میں مسلمانوں کا کوئی مزاحم باقی نہیں رہا، عقیل کے ہاتھ مال ودولت سے خالی تھے، اس لیے حضرت عباسؓ نے اپنی جیب سے ان کا فدیہ دے کر ان کو آزاد کرایا۔ (ابن سعد،جزء۴،ق۱:۲۹) اسلام وہجرت اورغزوات آزاد ہونے کے بعد مکہ واپس گئے اور۸ھ میں باقاعدہ اسلام لاکر ہجرت کا شرف حاصل کیا اورغزوۂ موتہ میں شریک ہوکر پھر مکہ واپس گئے،وہاں جاکر بیمار پڑگئے،اس لیے فتح مکہ،طائف اورحنین میں شرکت سے معذور رہے، (اسد الغابہ:۳/۴۲۲) ؛لیکن بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حنین میں شریک ہوئے؛بلکہ جب مسلمانوں کو ابتدا میں شکست ہوئی اور مہاجرین وانصار کے پاؤں اکھڑ گئے تو اس وقت بھی یہ ثابت قدم رہے۔ (اصابہ:۴/۲۵۵) عہد مرتضوی خلفائے ثلثہ کے زمانہ میں کہیں پتہ نہیں چلتا،حنین کے بعد امیر معاویہؓ اورجناب امیرؓ کے اختلافات کے زمانہ میں نظر آتے ہیں،یہ گو حضرت علیؓ کے بھائی تھے ؛لیکن اپنی ضروریات کی بنا پر حضرت امیر معاویہؓ سے تعلقات رکھتے تھے اور مدینہ چھوڑ کر شام چلے گئے تھے، اس کا سبب یہ تھا کہ عقیل مفلس ،مقروض اور روپیہ کے حاجت مند تھے اور جناب امیرؓ کے یہاں یہ شے عنقا تھی اور امیر معاویہؓ کا خزانہ ہر شخص کے لیے کھلا ہوا تھا، اس لیے افلاس و ناداری نے امیر معاویہؓ کا ساتھ دینے پر مجبور کردیا تھا، امیر معاویہؓ کے پاس جانے سے پہلے ایک مرتبہ قرض کی ادائیگی کی فکر میں حضرت علیؓ کے پاس بھی گئے تھے، انہوں نے بڑی پذیرائی کی،حسنؓ کو حکم دیا، انہوں نے لاکر کپڑے بدلائے،شام کو دستر خوان بچھاتوصرف روٹی، نمک اورترکاری آئی، عقیلؓ نے کہا بس یہی سامان ہے ،حضرت علیؓ نے فرمایاہاں، عقیل نے مطلب بیان کیا کہ میرا قرض ادا کردو، حضرت علی ؓ نے پوچھا کس قدر ہے،کہا۴۰ ہزار آپ نے جواب دیا، میرے پاس اتنا روپیہ کہاں، تھوڑا صبر کیجئے جب چار ہزار میرا وظیفہ ملے گا تو آپ کو دیدوں گا، عقیل نے کہا تم کو کیا دشواری ہے بیت المال تمہارے ہاتھ میں ہے، مجھ کو وظیفہ کے انتظار میں کب تک رکھو گے، حضرت علیؓ نے فرمایا میں مسلمانوں کا امین ہوں، آپ چاہتے ہیں کہ خیانت کرکے ان کا مال آپ کے حوالہ کردوں یہ جواب سن کر عقیل چلے گئے اور امیر معاویہؓ کے پاس پہنچے،امیر معاویہؓ نے پوچھا تم نے علیؓ اوران کے ساتھیوں کو کیسا پایا، جواب دیا، وہ لوگ رسول کے صحیح صحابی ہیں،بس صرف اس قدر کمی ہے کہ آنحضرتﷺ ان میں نہیں ہیں اور تم اور تمہارے ساتھی ٹھیک ابو سفیان کے حواریوں کی طرح ہو، مگر اس موازنہ کے بعد بھی دوسرے دن امیر معاویہؓ نے دربار میں انہیں بلوا کر پچاس ہزار درہم دلوائے۔ (اسد الغابہ:۳/۴۲۳) عقیل کے شام جانے کے بعد امیر معاویہؓ لوگوں کے سامنے ان کو مثال میں پیش کرکے ان کو اپنی حمایت پر آمادہ کرتے تھے اور کہتے تھے کہ اگر میں حق پر نہ ہوتا تو علیؓ کے بھائی ان کو چھوڑ کر میرا ساتھ کیوں دیتے،ایک مرتبہ لوگوں کے سامنے یہی دلیل پیش کر رہے تھے، عقیل بھی موجود تھے، انہوں نے جواب دیا کہ میرا بھائی دین کے لیے بہتر ہے اور تم دنیا کے لیے، یہ دوسری بات ہے کہ میں نے دنیا کو دین پر ترجیح دی ،رہا آخرت کا معاملہ تو اس کے لیے اللہ سے حسن خاتمہ کی دعا کرتا ہوں۔ (اسد الغابہ:۳/۴۲۳) وفات امیر معاویہؓ کے اخیر عہد یایزید کے ابتدائی زمانہ میں وفات پائی۔ (اصابہ:۴/۶۵۵) اہل وعیال عقیلؓ نے مختلف اوقات میں متعدد شادیاں کیں، ان بیویوں اوراولادوں کے نام یہ ہیں۔ بیوی اولاد ام سعید خلیلہ ام بنین ام ولد اسماء بنت سفیان یرید سعید علی،محمد،رملہ جعفر،اکبر،ابوسعید،احول مسلم،عبداللہ،عبدالرحمن،عبداللہ،الاصغر ان کے علاوہ جعفر ،اصغر،حمزہ،عثمان،ام ہانی، اسماء،فاطمہ،ام قاسم، زینب اور ام نعمان وغیرہ، مختلف لونڈیوں کے بطن سے تھیں۔ ذریعہ ٔمعاش آنحضرتﷺ نے خیبر کی پیداوار سے ڈیڑھ سووسق سالانہ مقرر فرمایا تھا۔ استعدادعلمی ہجرت کے بعد پھر مکہ لوٹ گئے تھے اور عرصہ تک وہاں مقیم رہے ،اس لیے صحبت نبویﷺ سے فیضیاب ہونے کا بہت کم موقع ملا، اسی لیے رسول کے عزیز ہونے کی حیثیت سے علم میں ان کا جو پایہ ہونا چاہیے تھا، وہ نہ پیدا ہوسکا، تاہم حدیث کی کتابوں میں ان کی دوچار روایتیں موجود ہیں، محمد، حسن بصری اورعطا آپ کے زمرۂ رواۃ میں ہیں۔ (مستدرک حاکم:۳/۵۷۶) مذہبی علوم کے علاوہ علوم جاہلی میں ممتاز حیثیت رکھتے تھے،چنانچہ علم الانساب کے جو عربوں کا خاص علم تھا، بڑے ماہر تھے، ایام عرب کی داستانیں بھی ان کو ازبر تھیں اوران علوم میں لوگ ان سے استفادہ کرتے تھے، چنانچہ مسجد نبویﷺ میں نماز کے بعد یہ بیٹھتے تھے اور لوگ ان سے مستفید ہوتے تھے۔ (مسند احمد بن حنبل:۱/۲۰۱) آنحضرتﷺ کی محبت آنحضرتﷺ ان سے بہت محبت کرتے تھے،فرمایا کرتے تھے کہ ابوزید مجھ کو تمہارے ساتھ دوہری محبت ہے ایک قرابت کے سبب سے دوسری اس وجہ سے کہ میرے چچا تم کو محبوب رکھتے تھے۔ (تہذیب الکمال:۲۷۰) پابندی سنت عقیل شادی و مسرت کے موقعوں پر بھی جبکہ لوگ عموماً کچھ نہ کچھ بے اعتدالی کرجاتے ہیں، مسنون طریقوں کا لحاظ رکھتے تھے،ایک مرتبہ نئی شادی کی،صبح کو احباب مبارک باد دینے آئے اور عرب کے قدیم دستور کے مطابق ان الفاظ میں تہنیت پیش کی کہ "بالرفاء والبنین" اگرچہ ان الفاظ میں کوئی خاص قباحت نہیں تھی؛لیکن چونکہ مسنون طریقہ تہنیت موجود تھا، اس لیے کہا کہ یہ نہ کہو ؛بلکہ "بارک اللہ لکم وبارک اللہ علیکم " کہو کہ ہم کو اسی کا حکم ملا ہے۔ (استعیاب :۲/۵۲۳)