انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** معتز باللہ معتز باللہ بن متوکل علی اللہ بن معتصم باللہ بن ہارون الرشید سنہ۲۳۲ھ میں بمقام سامرہ ایک رومیہ اُم ولد فتحیہ نامی کے بطن سے پیدا ہوا، محرم سنہ۲۵۱ھ سامرا میں خلیفہ بنایا گیا، ایک سال مستعین باللہ سے جنگ آزمارہ کرمستعین کوخلع خلافت پرمجبور کرنے میں کامیاب ہوا، نہایت خوبصورت شخص تھا،’ جس سال یہ تخت نشین ہوا؛ اسی سال اشناس ترکی مرا تھا، اس نے پچاس ہزار دینار چھوڑے تھے، جومعتز نے ضبط کرکے اپنا کاروبار چلایا، معتز جب تختِ خلافت پربیٹھا تواس کی عمر انسی سال کی تھی، اس نے احمد بن اسرائیل کووزیربنایا، محمد بن عبداللہ بن طاہر کوبغداد کی پولیس پرمامور رکھا، محمد بن عبداللہ بن طاہر خراسان کا گورنر تھا؛ مگرخراسان میں اس کا نائب رہتا تھا اور وہ خود بغداد میں مقیم تھا، معتز کوترکوں ہی نے تختِ خلافت پربٹھایا تھا، وہ بالکل ترکوں سے دبا ہوا تھا، بغداد میں جولشکر رہتا تھا، اس میں خراسانی اور عراقی لوگ تھے، اس لشکر کووظیفے اور تنخواہیں محمد بن عبداللہ تقسیم کیا کرتا تھا، معتز نے اس تمام لشکر کی تنخواہیں اور وظیفے دینے بند کردیے۔ ماہِ رجب المرجب سنہ۲۵۲ھ میں خلیفہ معتز نے اپنے بھائی موید کوولی عہدی سے معزول کردیا اور جیل خانے بھجواکر قتل کرادیا رمضان سنہ۲۵۲ھ میں لشکر بغداد نے تنخواہ وظائف نہ ملنے کے سبب سے بغاوت کی اور محمد بن عبداللہ بن طاہر کے مقابلہ پرآمادہ ہوگئے، بڑی مشکل سے یہ فساد محمد بن عبداللہ نے فرو کیا؛ اسی سال فوج کے ترکوں اور عربوں میں فساد ہوا، طرفین میں خوب خانہ جنگی برپا رہی، عربوں کا ساتھ اہلِ بغداد نے دیا؛ مگرترکوں نے آخر دھوکے سے عربوں اور ان کے سرداروں کوقتل اور جلاوطن کیا؛ اسی سال خلیفہ معتز نے حسین بن ابی شوراب کوقاضی القضاۃ کا عہدہ عطا کیا؛ چونکہ رعب خلافت اب اُٹھ چکا تھا، اس لیے جابہ جا صوبہ داروں نے اپنے آپ کوخود مختار سمجھنا شروع کردیا اور خارجیوں اور علویوں نے خروج شروع کردیے، مساور بن عبداللہ بن مساور بجلی خارجی نے ولایت موصل پرقبضہ کرکے اپنی خود مختاری کا اعلان کیا اور جوسردار خلیفہ کی طرف سے اس کے مقابلہ کوگیا، شکست دے کربھگادیا۔ سنہ۲۵۳ھ میں ترکوں نے وصیف وبغا اور سیما طویل اپنے سپہ سالاروں سے کہا کہ ہم کوچار چار مہینے کی پیشگی تنخواہیں دلوادو؛ انھوں نے کہا کہ خزانہ خالی پڑا ہے، تم کونتخواہیں کہاں سے دی جائیں، ترکوں نے شورش برپا کی، ان سرداروں نے خلیفہ معتز سے عرض کیا، معتز خود مجبور تھا، کیا کرسکتا تھا، ترکوں نے وصیف کوپکڑ کرقتل کردیا، چند روز کے بعد بابکیال اور بغاصغیر میں رقابت پیدا ہوگئی، خلیفہ معتز بابکیال کے حال پرزیادہ مہربان رہنے لگا، بغا نے خلیفہ کے قتل کرنے کا ارادہ کیا، اس ارادے کی اطلاع معتز کوہوگئی اور بابکیال کے آدمیوں نے بغاصغیر کوقتل کردیا۔