انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** ۸۔ایاس بن معاویہؒ نام ونسب ایاس نام،ابو واثلہ کنیت،نسب نامہ یہ ہے، ایاس بن معاویہ بن قرہ بن ایاس بن ہلال بن رئاب بن عبید بن سواۃ بن ساریہ بن ذبیان بن ثعلبہ بن سلیم بن اوس بن فرینہ مزنی۔ فضل وکمال ایاس اس عہد کے مشہور قضاۃ میں تھے۔ حدیث حدیث میں ان کا کوئی قابل ذکر پایہ نہ تھا،تاہم اس سے بالکل تہی دامن بھی نہ تھے ابن سعد لکھتے ہیں کہ، احادیث (ابن سعد،جلد۷،ق۲،ص۵) میں انہوں نے اپنے والد معاویہ،انس بن مالکؓ ،سعید بن مسیب،سعید بن جبیر اورابی مجلز وغیرہ سے خوشہ چینی کی تھی اور ایوب،داؤد بن ابی ہند حمید الطویل،حماد،شعبان،شعبہ اورمعاویہ بن عبدالکریم وغیرہ ان کے تلامذہ میں ہیں۔ (تہذیب :۱/۳۹) فقہ فقہ ان کا خاص فن تھا،اس میں وہ امتیازی درجہ رکھتے تھے،عجلی اُن کو فقیہ لکھتے ہیں ۔ (ایضاً) عہدۂ قضا اپنے فقہی کمال کی وجہ سے وہ اموی دور میں بصرہ کے عہدہ قضا پر مامور ہوئے،ان کے تقرر کے وقت حضرت حسن بصریؒ ان کے پاس تشریف لے گئے، انہیں دیکھ کر ایاس رونے لگے ۔ (ابن سعد،جلد۷،ق۲،ص۵) فہم وفراست ایاس کو فہم و فراست سے غیر معمولی حصہ ملا تھا اوروہ عقل وہ دانش کا پیکر تھے،ابن سعد لکھتے ہیں ، کان عاقلا من الرجال فطنا (ایضا)ابن سیرین کے سامنے جب ان کا ذکر آتا تو کہتے تھے،وہ مجسم فہم ہیں (تہذیب التہذیب :۱/۳۹)ان کے عہد کے لوگ کہتے تھے کہ ہر صدی میں ایک بڑا عاقل پیدا ہوتا ہےاور اس صدی کے عاقل ایاس ہیں (تہذیب التہذیب:۱/۳۵۰) ابن عماد حنبلی لکھتے ہیں کہ ان کی ذکاوت اورفطانت ضرب المثل تھی،ابوتمام کا ایک شعر ہے۔ (شذرات الذہب :۱/۱۶۰) اقدام عمر وفی شجاعۃ غنترفی حلم احنف فی ذکاء ایاس ذہانت وذکاوت کے بعض واقعات قضا میں مہارت بڑی حد تک ذہانت اورذکاوت پر منحصر ہے،اس لیے ایاس اس عہد کے ممتاز ترین قضاۃ میں تھے،اس موقع پر ان کی ذہانت کے بعض واقعات نقل کیے جاتے ہیں۔ ایک شخص نے ایک شخص کے پاس کچھ مال امانت رکھوایا تھا،جب اُس نے واپس مانگا تو امانت دار نے انکار کردیا، مال کے مالک نے ایاس کی عدالت میں دعوی کیا ،انہوں نے کہا اس وقت لوٹ جاؤ اس واقعہ کو پوشیدہ رکھنا، اس شخص کو یہ نہ معلوم ہونے پائے کہ تم میرے پاس آئے تھے، دودن کے بعد پھر آنا، اس کو لوٹا کر ایاس نے امانت دار کو بلوایااور اس سے کہا کہ میرے پاس بہت سا مال آگیا ہے میں اس کو تمہارے پاس رکھوانا چاہتا ہوں تمہارا گھر محفوظ ہے،اس نے کہا ہاں ،ایاس نے کہا تو مال رکھنے کے لیے کوئی جگہ منتخب کرلو،اوردو بار بردار لے کر آؤ،اس گفتگو کے بعد ایاس نے مال کے مالک کو بلواکر کہا کہ اب جاکر تم اس شخص سے اپنا مال مانگو، اگر دے دے تو فبہا ورنہ اس سے کہنا کہ میں جاکر قاضی کو اطلاع دے دوں گا، اس شخص نے جاکر کہا کہ میرا مال دو، ورنہ میں قاضی کو جاکر اطلاع دیتا ہوں، یہ سن کر اس نے کل روپیہ واپس کردیا اورصاحب مال نے آکر قاضی ایاس کو اطلاع دے دی کہ میرا مال مجھ کو مل گیا اس کے بعد سابق قرار داد کے مطابق وہ شخص ایاس کے پاس روپے لینے کے لیے آیا، انہوں نے اس کو ڈانٹ کر نکال دیا۔ (الطرق الحکمیہ ابن قیم جوزی :۲۵) قضاۃ سے واقفیت کسی شعبہ اورصنف کے اشخاص کا اس شعبہ کے متعلق ایک کمال یہ بھی ہے کہ وہ اپنے ہم پیشہ اشخاص کی خصوصیات پر پوری نظر رکھتے ہوں، ایاس اس عہد کے تمام مفتیوں اور قضاۃ کے محاسن معائب اورخصوصیات سے پورے طور سے واقف تھے،حبیب بن شہید کا بیان ہے کہ ایک شخص ایاس کے پاس ایک مقدمہ میں مشورہ کے لیے آیا کہ وہ اس میں کسی کی طرف رجوع کرے،انہوں نے کہا اگر تم اس کا صحیح فیصلہ چاہتے ہو تو عبدالملک بن یعلی کے پاس جاؤ، وہ صحیح معنوں میں قاضی ہیں اوراگر محض فتویٰ لینا ہے، تو حسن بصری کے پاس جاؤ، وہ میرے اور میرے باپ کے استاد ہیں اوراگر صلح مقصود ہے تو حمید الطویل کی طرف رجوع کرو وہ اس طریقہ سے صلح کرادیں گے، کہ تم سے کہیں گے کہ تم اپنے حق کا کچھ حصہ لے لو اورکچھ چھوڑدو اوراگر مقدمہ بازی کرنا ہے تو صالح الدوسی کے پاس جاؤ،وہ تم کو رائے دیں گے کہ دوسرے کے حق سے بالکل انکار کردو، اپنے حق سے زیادہ کا مطالبہ کرو اورجو لوگ موجود نہیں ہیں ان کو گواہ بناؤ۔ (تہذیب التہذیب:۱/۳۹۰) صحت عقائد اورمبتد عین سے مناظرہ ایاس بایں ہمہ ذہانت عقائد میں جدت، اختراع اور موشگافیوں کو سخت ناپسند کرتے تھے اوران کی ذہانت اس کی تردید میں صرف ہوتی تھی،وہ مبتدعین خصوصا قدریوں سے مناظرہ کیا کرتے تھے،قدریہ کا عقیدہ ہے کہ خدا عادل ہے،یہاں تک تو بالکل صحیح ہے؛لیکن اس اصول کے نتیجہ میں وہ ان افعال کو بظاہر ظلم معلوم ہوتے ہیں،خدا کی جانب منسوب نہیں کرتے اوراس میں یہاں تک شدت برتتے ہیں کہ خدا کی قدرت مسلوب ہوجاتی ہے ایک مرتبہ ان میں اور قدریوں میں مناظرہ ہوا انہوں نے قدریہ سے پوچھا ظلم کسے کہتے ہیں،انہوں نے کہا کسی کا ایسی چیز کو لے لینا جو اس کی نہیں ہے،انہوں نے کہا کہ خدا کی تو تمام چیزیں ہیں،یعنی جب وہ تمام چیزوں کا مالک ہوا تو پھر اس کے کسی فعل پر ظلم کا اطلاق صحیح نہیں ہے۔ (تہذیب التہذیب :۱/۳۹۱) بعض اقوال ان کے بعض اقوال نہایت دلچسپ ہیں،کہتے تھے کہ جس میں کوئی عیب نہیں و احمق ہے کسی نے پوچھا آپ میں کیا عیب ہے کہا فضول گوئی (ابن سعد،جلد۷،ق۲،ص۵) کہتے تھے کہ میں نے انسان کی تمام فضیلتوں کو آزمایا ان سب میں اشرف زبان کی سچائی ہے۔ (تہذیب التہذیب :۱/۳۹۱) وفات ۱۲۲ھ میں وفات پائی۔ (ایضاً:۳۹۰)