انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت عمار بن یاسر ؓ نام،نسب،خاندان عمارنام،ابوالیقظان کنیت، والد کانام یاسر ؓ اوروالدہ کا نام سمیہ تھا،پورا سلسلہ نسب یہ ہے: عماربن یاسربن عامر بن مالک بن کنانہ بن قیس بن الحصین بن الودیم بن ثعلبہ بن عوف بن حارثہ بن عامرالاکبر بن یام بن عنس بن مالک العنسی القحطانی ۔ (اسدالغابہ تذکرہ عمار بن یاسر ؓ) حضرت عمار ؓ کے والد حضرت یاسر ؓ قحطانی النسل تھے، یمن ان کا اصلی وطن تھا، اپنے ایک مفقودالخبر بھائی کی تلاش میں دوسرے دو بھائی حارث اورمالک کے ساتھ مکہ پہنچے،وہ دونوں واپس لوٹ گئے،لیکن انہوں نے یہیں طرحِ اقامت ڈال دی اوربنو مخزوم سے حلیفانہ تعلق پیدا کرکے ابوحذیفہ بن المغیرہ مخزومی کی ایک لونڈی سمیہ نام سے شادی کرلی جس سے حضرت عمار ؓ پیدا ہوئے، ابو حذیفہ نے حضرت عمارؓ کو ان کے بچپن ہی میں آزاد کرکے تاحیات دونوں باب بیٹے کو لطف ومحبت سے اپنےساتھ رکھا۔ (طبقات ابن سعد قسم اول جزوثالث : ۱۷۷) اسلام ابوحذیفہ کی وفات کے بعد ہی اسلام کا غلغلہ بلند ہوا، حضرت عمارؓ اورحضرت صہیب ابن سنان ؓ ایک ساتھ ایمان لائے تھے، فرماتے ہیں کہ میں نے صہیب کو ارقم بن ابی ارقم ؓ کے دروازہ پر دیکھ کر پوچھا "تم کس ارادہ سے آئے ہو" بولے "پہلے تم اپنا ارادہ بیان کرو"میں نے کہا:"محمد سے مل کران کی کچھ باتیں سننا چاہتا ہوں" بولے "میرا بھی مقصد یہی ہے" غرض دونوں ایک ساتھ داخل ہوئے اور ساقیِ اسلام ﷺ کے ایک ہی جام نے دونوں کو نشہ توحید سے مخمور کردیا، حضرت عمارؓ کے ساتھ یا کچھ آگے پیچھے ان کے والدین بھی مشرف بہ اسلام ہوئے۔ (طبقات ابن سعد قسم اول جزوثالث : ۱۱۷۷) صحیح بخاری کی ایک روایت ہے کہ حضرت عماربن یاسر ؓ جس وقت ایمان لائے،تو انہوں نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے علاوہ صرف پانچ غلام اوردوعورتوں کو آنحضرت ﷺ کے ساتھ دیکھا،(بخاری باب فضائل الصدیق ؓ) یہ وہ حضرات تھے جنہوں نے اپنے اسلام کو ظاہر کردیا تھا ورنہ صحیح روایت کی بنا پر اس وقت تک تیس اصحاب سے زیادہ اس دائرہ میں داخل ہوچکے تھے،جنہوں نے مشرکین کے خوف سے اعلان نہیں کیا تھا۔ (فتح الباری:۷/ ۱۷ واسد الغابہ:۴/۴۴) حضرت عمارؓ گو ایک بے یارومددگار غریب الوطن تھے،دنیاوی وجاہت وطاقت بھی حاصل نہ تھی اورسب سے زیادہ ان کی والدہ ماجدہ حضرت سمیہ ؓ اس وقت تک بنی مخزوم کی غلامی سے آزاد نہیں ہوئی تھیں، تاہم جوشِ ایمان نے ایک دن سے زیادہ مخفی ہوکر رہنے نہ دیا، مشرکین نے ان کو اوران کے خاندان کو لاچار ومجبور دیکھ کر سب سے زیادہ مشقِ ستم بنالیا، طرح طرح کی اذیتیں دیں، ٹھیک دوپہر کے وقت تپتی ہوئی ریت میں لٹایا دہکتے ہوئے انگاروں سے جلایا، اورگھنٹوں پانی میں غوطے دیئے لیکن جلوۂ توحید نے کچھ ایسا وارقہ کردیا تھا کہ ان تمام سختیوں کے باوجود ان کو اسلام سے برگشتہ نہ کرسکے۔ (ابن سعد قسم اول جز ثالث : ۱۷۷) حضرت عمار ؓ کی والدہ حضرت سمیہ ؓ کو ابو جہل نے نہایت وحشیانہ طریقے پر اپنے نیزہ سے شہید کیا؛ چنانچہ تاریخ اسلام کی یہ پہلی شہادت تھی،جو استقلال واستقامت کےساتھ راہِ خدا میں واقع ہوئی،ان کے والد حضرت یاسر ؓ اوربھائی حضرت عبداللہ ؓ بھی اسی گرداب اذیت میں جان بحق ہوئے۔ (اصابہ تذکرہ سمیہ ؓ ام عمارہ ؓ) ایک دفعہ مشرکین نے حضرت عمارؓ کو دہکتے ہوئے انگاروں پر لٹادیا، آنحضرت ﷺ اس طرف سے گذرے تو ان کے سرپر دستِ مبارک پھیر کر فرمایا "اے آگ تو ابراہیم علیہ وسلم کی طرح عمار ؓ پر ٹھنڈی ہوجا" اسی طرح جب ان کے گھر کی طرف سے گذرتے اورخاندانِ یاسر ؓ کو مبتلائے مصیبت دیکھتے تو فرماتے" اے آلِ عمارؓ تمہیں بشارت ہو جنت تمہاری منتظر ہے"۔ (مستدرک حاکم:۳/ ۳۸۸) ایک دفعہ حضرت یاسرؓ نے آنحضرت ﷺ سے گردشِ زمانہ کی شکایت کی ،ارشاد ہوا"صبرکرو،پھر دعافرمائی، اے خدا آلِ یاسر ؓ کو بخشدے۔ (طبقات ابن سعد قسم اول جزء ثالث :۱۷۸) ایک روز مشرکین نے ان کو پانی میں اس قدر غوطے دیئے کہ بالکل بدحواس ہوگئےیہاں تک کہ اس حالت میں ان جفا کاروں نے جو کچھ چاہا ان کی زبان سے اقرار کرالیا،اس کے بعد گو اس مصیبت سے گلو خلاصی ہوگئی، تاہم غیرت ملی نے عرق عرق کردیا،دربارِ نبوت میں حاضر ہوئے تو آنکھوں سے آنسوؤں کا دریا جاری تھا، آنحضرت ﷺ نے پوچھا،عمار ؓ کیا خبر ہے؟ عرض کیا یا رسول اللہ! نہایت ہی بُری خبر ہے،آج مجھے اس وقت تک مخلصی نہ ملی جب تک میں نے آپ کی شان میں بُرے الفاظ اوران کے معبودوں کے حق میں کلماتِ خیر استعمال نہ کئے،ارشاد ہوا، تم اپنا دل کیسا پاتے ہو؟ عرض کیا، میرا دل ایمان سے مطمئن ہے، سرورِ کائنات ﷺ نے نہایت شفقت کے ساتھ ان کی آنکھوں سے آنسو کے قطرے پونچھ کر فرمایا، کچھ مضائقہ نہیں اگر یہ پھر ایسا ہی کرو، اس کے بعد ہی قرآن پاک میں یہ آیت نازل ہوئی: مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ (نحل:۱۰۶) جوشخص ایمان لانے کے بعد خدا کا انکار کرے مگر وہ جو مجبور کیا گیا ہو اوراس کا دل ایمان سے مطمئن ہے اس سے کوئی مواخذہ نہیں۔ (طبقات ابن سعد قسم اول جزء ثالث :۱۷۸) ایک مرتبہ حضرت سعید بن جبیر ؓ نے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے پوچھا کہ کیا قریش مسلمانوں کو اس قدر اذیت پہنچاتے تھے کہ وہ اپنا مذہب چھوڑ دینے پر مجبور ہوجائیں؟ بولے، خداکی قسم ہاں!وہ ان کو مارتے تھے، بھوکا اورپیاسا رکھتے تھے،یہاں تک کہ ضعف اورکمزوری سے وہ اُٹھنے بیٹھنے سے بھی مجبور ہوجاتے تھے، اسی حالت میں وہ جو کچھ چاہتے تھے ضمیر کے خلاف ان سے اقرار کرالیتے تھے"(اسدالغابہ تذکرہ عمار ؓ)غرض حضرت عمارؓ بھی انہیں گرفتار ان مصائب میں تھے،جنہوں نے راہِ خدا میں صبرواستقامت کے ساتھ گوناگوں مصائب اورمظالم برداشت کیے،لیکن آئینہ دل سے توحید کا عکس زائل نہ ہوا، ضعیفی کے عالم میں جن لوگوں نے ان کی پیٹھ ننگی دیکھی تھی،وہ بیان کرتے ہیں کہ اس وقت تک کثرت کے ساتھ سیاہ لکیریں، تپتی ہوئی ریت اوردہکتے ہوئے انگاروں کے داغ ان کی پیٹھ میں موجود تھے۔ (ابن سعد قسم اول جز ثالث : ۱۷۷) ہجرت ان کے حبشہ کی ہجرت کے متعلق اربابِ سیر میں اختلاف ہے، بعضوں کا خیال ہے کہ وہ دوسری ہجرت میں شریک تھے،مدینہ کی ہجرت کا عام حکم ہوا تو حضرت عمارؓ نے بھی اس سرزمین امن کی راہ لی اورحضرت مبشر بن عبدالمنذر ؓ کے مہمان ہوئے،آنحضرت ﷺ نے یہاں حضرت حذیفہ ؓ بن الیمان انصاری سے بھائی چارہ کرادیا اورمستقل سکونت کیلئے ایک قطعہ زمین مرحمت فرمایا۔ (طبقات ابن سعد قسم اول جزء ثالث :۱۷۹) تعمیر مسجد مدینہ کی ہجرت کے چھ سات مہینوں کے بعد مسجدِ نبوی ﷺ کی بنا ڈالی گئی،سرورِ کائنات ﷺ نے صحابہ کرام ؓ کو جوش دلانے کے لیے خود کام میں حصہ لیا،حضرت عمارؓ اینٹ گارالالا کردیتے تھےاورزبان پر رجز جاری تھا: نحن المسلمون نبتنی المساجدا ہم مسلمان ہیں ہم مسجد بناتے ہیں۔ (طبقات ابن سعد قسم اول جزء ثالث : ۱۷۹) حضرت ابوسعید ؓ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ ایک ایک اینٹ اٹھاتے تھے اور عمار ؓ دودو اینٹ اٹھاتے تھے، ایک دفعہ آنحضرت ﷺ کی طرف سے گذرے تو آپ نے نہایت شفقت کے ساتھ ان کے سر سے غبار صاف کرکے فرمایا افسوس عمار ؓ!تمہیں باغی گروہ قتل کرے گا۔ (مستدرک حاکم:۳/۳۸۷) ایک دفعہ کسی نے ان کے سر پر اس قدر بوجھ لاددیا کہ لوگ چلا اُٹھے،آج عمار ؓ مرجائیں گے،آج عمارؓ مرجائیں گے،وہ اس سے پہلے بھی تکلیف مالایطاق کی شکایت کرچکے تھے، آنحضرت ﷺ نے سنا تو کچھ اینٹیں اتار کر پھینک دیں اورفرمایا،افسوس ابن سمیہ ؓ تمہیں گروہ باغی قتل کردے گا۔ (طبقات ابن سعد قسم اول جزء ثالث:۱۸۱) غزوات غزوۂ بدر سے غزوۂ تبوک تک جس قدر اہم معرکے پیش آئے، سب میں وہ جانبازی شجاعت کے ساتھ حضرت خیر الانام ﷺ کے ہمرکاب رہے،عہدصدیقی کی اکثر خونریز جنگوں میں بھی خوب دادِ شجاعت دی، حضرت عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ یمامہ کی جنگ میں ان کا ایک کان شہید ہوگیا،جو سامنے ہی زمین پر پھڑک رہا تھا،لیکن وہ بے پرواہی کے ساتھ حملے پر حملے کررہے تھے اورجس طرف رخ کرتے تھے صفیں کی صفیں تہ وبالا کردیتے تھے،ایک دفعہ مسلمانوں کے پاؤں پیچھے پڑنے لگے،انہوں نے ایک بلند چٹان پر کھڑے ہوکر للکارا، اے گروہِ مسلمانان! کیا جنت سے بھاگ رہے ہو؟ میں عماربن یاسر ؓ ہوں،آؤ میرے پاس آؤ (طبقات ابن سعد قسم اول جزء ثالث:۱۸۱)اس صدانے سحر کا کام کیا اورجنت کے شیدائی یکایک سنبھل کر ٹوٹ پڑے۔ کوفہ کی حکومت خلیفہ دوم ؓ نے ۲۰ ھ میں ان کو کوفہ کا والی بنایا اوراہل کوفہ کے نام حسب ذیل فرمان جاری فرمایا: "أما بعد فإن بعثت إليكم عمار بن ياسر أميرا وابن مسعود معلما ووزيرا وقد جعلت ابن مسعود على بيت مالكم وإنهما لمن النجباء من أصحاب محمد من أهل بدر فاسمعوا لهما وأطيعوا واقتدوا بهما وقد آثرتكم بابن أم عبد على نفسي وبعثت عثمان بن حنيف على السواد ورزقتهم كل يوم شاة فاجعل شطرها وبطنها لعمار والشطر الثاني بين هؤلاء الثلاثة" (طبقات ابن سعد قسم اول جزء ثالث :۱۸۲) اما بعد میں عمار بن یاسر ؓ کو امیر اور ابن مسعود ؓ کو معلم اوروزیر مقرر کرکے بھیجتا ہوں،خزانہ کا اہتمام وانصرام بھی ابن مسعود ؓ کے متعلق کیا ہے،یہ دونوں حضرت محمد ﷺ کے ان شریف اصحاب میں سےہیں جو غزوۂ بدر میں شریک تھے،اس لیے ان دونوں کی فرمانبرداری اطاعت اورپیروی کرو، میں نے ام عبد کے بیٹے (عبداللہ بن مسعود ؓ) کو اپنے سے الگ کرکے تمہارے پاس بھیج کر تم کو اپنے اوپر ترجیح دی ہے،عثمان بن حنیف کو عراق (کی پیمائش) پر مامور کرکے بھیجتا ہوں اوران کے رسد کے لے روزانہ ایک بکری مقرر کرتا ہوں جس کا ایک حصہ اورشکم عمار کے لیے مخصوص رہے گا اورباقی حصے ان تینوں میں تقسیم ہوں گے۔ حضرت عمار ؓ نے ایک سال ۹ ماہ تک نہایت خوش اسلوبی اوربیدارمغزی کے ساتھ اپنے فرائض منصبی انجام دیئے،لیکن اسی اثناء میں اہل بصرہ اور اہل کوفہ کی باہمی منافست اورحضرت عمارؓ کی غیر جانبداری نے کوفہ کے رئیسوں کو ان سے ناراض کردیا،واقعہ کی تفصیلی کیفیت یہ ہے: بصرہ کی کثرت آبادی کے لحاظ سے اس صوبہ کا رقبہ نہایت مختصر تھا،اس بنا پر عمروبن سراقہ نے بصرہ والوں کی طرف سے دربار خلافت میں درخواست کی کہ کوفہ کے وسیع علاقہ سے ماہ یاباسبندان کا پرگنہ بصرہ میں شامل کردیا جائے،کوفہ والوں کو خبر ہوئی تو وہ حضرت عمار بن یاسر ؓ والیِ کوفہ سے خواستگار ہوئے کہ وہ اس کی مخالفت کریں اورامہر مز اورایذج کے اضلاع پر بھی اپنا دعویٰ پیش کریں،کیونکہ ان دونوں کو اہلِ بصرہ کی اعانت وامداد کے بغیر ہم لوگوں نے فتح کیا تھا، لیکن حضرت عمارؓ نے سر مہری کے ساتھ اس کو ٹال دیا اورفرمایا، مجھے ان جھگڑوں کی کیا ضرورت ہے؟ اس پر ایک کوفی رئیس عطارد نے غضبناک ہوکر کہا"اے کن کٹے !پھر تو ہم سے خراج کس بنا پر طلب کرتا ہے؟ "حضرت عمارؓ صرف یہ کہہ کر خاموش ہو رہے " افسوس تم نے میرے سب سے زیادہ بہتر اورمحبوب کان کو گالی دی۔ (تاریخ طبری :۲۶۷۶) غرض حضرت عمارؓ نے اس معاملہ میں بالکل غیر جانبداری اختیار کرلی اورکوفہ والوں کے احتجاج کے باوجود رامہرمز،ایذج اورماہ کا علاقہ بصرہ میں شامل کردیا گیا، یہ نقصان ایسا نہ تھا جو والی کی طرف سے اہل کوفہ کے دلوں میں ناراضی کی گرہ نہ ڈالتا، اس کے بعد ہی شکوۃ شکایت اورسازش کا سلسلہ شروع ہوا اور امیر المومنین کو باورکرایا گیا کہ وہ اس منصب کی اہلیت نہیں رکھتے، انجام کار دارالخلافہ بلا کر اس عہدہ سے معزول کیے گئے،(تاریخ طبری :۷۶۷۷) حضرت عمرؓ نے معزولی کے بعد دوسرے روز بلاکر پوچھا کہ"تم میرے اس طریق عمل سے کچھ ناراض تو نہ ہوئے؟" بولے جب آپ پوچھتے ہیں تو حقیقت یہ ہے کہ میں نہ تو پہلے اپنی تقرری سے خوش ہوا تھا اورنہ اب اپنی معزولی سے ناراض ہوں۔ (ابن سعد قسم اول جز ثالث :۱۸۳) تحقیقات پر مامور ہونا خلیفہ ثالث ؓ کے عہدِ حکومت میں تمام ملک شورش وفتنہ پردازی کا آماجگاہ ہوگیا،۳۵ھ میں خلیفہ وقت نے اس شورش کے اصلی اسباب کی تحقیق وتفتیش کے لیے ایک تحقیقاتی کمیشن مرتب کیا، حضرت عمار بن یاسر ؓ بھی اس کے ایک رکن قرار پائے اورفتنہ پردازی کے اصل مرکز صوبہ مصر کی طرف روانہ کئے گئے۔ خلیفہ ثالث ؓ سے اختلاف تحقیقاتی کمیشن کے تمام ارکان نے بہت جلد اپنے متعلقہ مقامات سے واپس آکر قابلِ اطمینان رپوٹ پیش کردی،لیکن حضرت عمارؓ کی واپسی میں غیر معمولی تاخیر ہوگئی اوردارالخلافہ میں ان کی نسبت طرح طرح کے خیالات پیدا ہونے لگے،یہاں تک کہ عبداللہ بن ابی سرح والیِ مصر کے ایک خط نے توقف کی اصلی وجہ ظاہر کردی، اس خطہ کے فقرے یہ ہیں: ان عماراقداستمالہ قوم بمصر وقد انقطعواالیہ منہم عبداللہ بن السوداء خالد بن بلجم وسودان بن حمران وکنانہ بن بشر عمار کو مصر کی ایک قوم نے اپنا طرفدار بنالیا ہے، اوران میں سے عبداللہ بن اسودا اورخالد بن ملجم سود بن حمران اورکنانہ بن بشران کی طرف جاملے ہیں غرض وہ مصر سے واپس آئے تو انقلاب پسند جماعت کا اثر ان کے خیالات میں نمایاں تھا،(تاریخ طبری:۲۹۴۳) عام مجمعوں میں علانیہ حضرت عثمان ؓ کے طرزِ حکومت اورعمال کی بے اعتدالیوں پر نکتہ چینی کرتے تھے، یہاں تک کہ اسی حالت میں کبھی کبھی طرف دارانِ خلافت سے جھڑپ بھی ہوگئی، ایک دفعہ حضرت عثمان ؓ کے غلاموں نے ان کو اس قدر مارا کہ تمام جسم ورم کرگیا،شکم میں خراش آگئی اورپسلی کی ایک ہڈی کو سخت صدمہ پہنچا، بنی مخزوم نے جن سے جاہلیت میں حلف وموالات کا تعلق تھا یہ سن کر کاشانۂ خلافت کو گھیر لیا اوردھمکی دی کہ اگر عماربن یاسرؓ اس صدمہ سے جانبر نہ ہوں گے تو ہم ضرور انتقام لیں گے۔ (استیعاب :۲/۴۳۴) اس قسم کے واقعات سے اختلاف کی خلیج روز بروز زیادہ وسیع ہوتی گئی،یہاں تک کہ جب مصری مفسدین مدینہ پہنچے اورحضرت عثمان ؓ نے حضرت سعد بن وقاص ؓ کی معرفت کہلا بھیجا کہ وہ اپنے اثر سے ان کو واپس کردیں تو انہوں نے صاف انکار کردیا،( طبری) بعض روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ محاصرہ کی کاروائی میں شریک تھے۔ سفارتِ کوفہ حضرت عثمان ؓ کی شہادت کے بعد خلافت کا بارِ گراں حضرت علی ؓ کے سرڈالا گیا، حضرت عمارؓکو ان سے جو خاص انس و خلوص تھا اس کے لحاظ سے تمام مہماتِ امور میں وہ ان کے دست وبازو ثابت ہوئے،حضرت عائشہ ؓ، حضرت زبیر ؓ اورحضرت طلحہ ؓ وغیرہ نے جب شہید خلیفہ کے قصاص کا مطالبہ کرکے جنگی تیاریوں کے لیے بصرہ کا رخ کیا تو خلیفۂ چہارم کے حکم سے وہ حضرت امام حسن ؓ کے ساتھ کوفہ کی طرف روانہ ہوئے کہ اہل کوفہ کو خلافت کے تحفظ وحمایت پر آمادہ کریں۔ حضرت عمارؓ کوفہ پہنچے تو حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ جامع مسجد میں ایک مجمع کے سامنے غیر جانبداری کا وعظ بیان فرما رہے تھے، حضرت امام حسن ؓ نے ان سے فرمایا تم ابھی ہماری مسجد سے نکل جاؤ، اورمنبر پر کھڑے ہوکر ایک نہایت پرجوش تقریر کی،(اخبار الطوال :۱۴۶) حضرت عمارؓ بھی ان کے ساتھ منبر پر چڑھ گئے اورتقریر کرتے ہوئے فرمایا "صاحبو! بیشک میں جانتا ہوں کہ عائشہ ؓ دنیا اورآخرت میں حضرت سرورِ کائنات ﷺ کی حرمِ محترم ہیں، لیکن اس وقت خدا تمہاری آزمائش کررہا ہے کہ تم اس کی فرما نبرداری کرتے ہو یا عائشہ ؓ کا ساتھ دیتے ہو، (مسند احمد بن حنبل :۴/۲۶۵) حجر بن عدی نے حضرت عمار ؓ کی تائید کی اوردوسرے روز صبح کے وقت تقریباساڑھے نوہزار جانباز سپاہیوں کی ایک فوجِ گراں حضرت عمارؓ کے ساتھ ہوگئی۔ (اخبار الطوال :۱۴۷) جنگ جمل ماہ جمادی الاخریٰ ۳۶ھ میں دونوں طرف کی فوجیں مقام ذی قار میں مجتمع ہوئیں ،حضرت زبیر ؓ کو جب معلوم ہوا کہ حضرت عمارؓ بھی حضرت علی ؓ کے ساتھ ہیں تو انہیں نظر آنے لگا کہ وہ غلطی پر ہیں؛ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نےفرمایا تھا کہ حق عمار ؓ کے ساتھ ہے اورباغی گروہ ان کو قتل کرے گا،اس کے ساتھ ہی حضرت علی ؓ نے ایک ایسی بات یاددلائی کہ وہ اس وقت اس خانہ جنگی سے کنارہ کش ہوگئے۔ جمعرات کے روز جنگ شروع ہوئی،حضرت عمارؓ میسرہ پر متعین تھے،چونکہ انہیں یقین تھا کہ وہ حق کا ساتھ دے رہے ہیں، اس لیے غیر معمولی جوش سے لڑے، یہاں تک کہ حامیانِ خلافت کی فتح پر اس افسوس ناک جنگ کا خاتمہ ہوا۔ (اخبار الطوال:۴۹) جنگ صفین جنگ جمل کے بعد امیر معاویہ ؓ سے صفین کا معرکہ پیش آیا، حضرت عمار ؓ اس جنگ میں بھی حضرت علی ؓ کی طرف تھے، اس وقت ۹۱ برس کا ان کا سن تھا، لیکن حمایتِ حق کے جوش نے اکانوے برس کے بڈھے کو شجاعت وجانبازی کا مجسم پتلا بنادیا تھا، رعد کی طرح گرجتے ہوئے جس طرف گھس جاتے تھے صفیں کی صفیں درہم برہم کردیتے تھے،ایک دفعہ اثنائے جنگ میں حضرت امیر معاویہ ؓ کے علم بردار حضرت عمروبن العاص ؓ پر نظر پڑی تو بولے میں اسی علمبردار سے تین دفعہ رسول خدا ﷺ کی معیت میں لڑچکا ہوں اب یہ چوتھی مرتبہ ہے، خدا کی قسم اگر وہ ہم کو شکست دیتے ہوئے مقام ہجر تک بھی پسپا کردیں جب بھی میں یہی سمجھوں گا کہ ہم لوگ حق پر ہیں اور وہ غلطی پر۔ (طبقات ابن سعد قسم اول جزء ثالث:۱۸۵) شہادت ایک روز شام کے وقت جب آفتاب غروب ہورہا تھا اورجنگ پورے زور کے ساتھ جاری تھی، حضرت عمارؓ دودھ کے چند گھونٹ حلق سے فرو کرکے بولے " رسول خدا ﷺ نے مجھ سے فرمایا ہے کہ دودھ کا یہ گھونٹ تیرے لیے دنیا کا آخری توشہ ہے" اورکہتے ہوئے غنیم کی صف میں گھس گئے کہ آج میں اپنے دوستوں سے ملوں گا، آج میں محمد ﷺ اوران کے گروہ سے ملوں گام (طبقات ابن سعد قسم اول جزء ثالث :۱۸۴)کچھ ایسے عزم واستقلال سے حملہ آور ہوئے تھے کہ جس طرف نکل گئے پرے کاپراصاف ہوگیا اورجس پر وار کیا ڈھیر ہوکر رہ گیا،واقف کار مسلمان ان پر ہاتھ اٹھانے سے پہلو بچاتے تھے،لیکن اسی حالت میں ابن الغاویہ کے نیزہ نے ان کو مجروح کرکے زمین پر گرادیا اورایک دوسرے شامی نے بڑھ کر سرتن سے جدا کردیا، یہ دونوں قاتل جھگڑتے ہوئے امیر معاویہ ؓ کے دربار میں پہنچے ،کیونکہ ان میں کا ہر ایک اس کارنامہ کو اپنی طرف منسوب کرتا تھا، حضرت عمروبن العاص ؓ حاضرِ دربار تھے ،انہوں نے کہا"خدا کی قسم یہ دونوں جہنم کے لیے جھگڑ رہےہیں" امیر معاویہ ؓ نے برہم ہوکر کہا عمرو ! تمہاری یہ کیا حالت ہے؟ جو لوگ ہمارے لیے اپنی جانیں قربان کررہے ہیں،ان کو ایسا کہتے ہو،بولے خدا کی قسم ایسا ہی ہے، کاش آج سے بیس برس پہلے مجھے موت آگئی ہوتی۔ (طبقات ابن سعد قسم اول جزوثالث : ۱۸۵) حضرت عمروبن العاص ؓ کو حضرت عمار بن یاسرؓ کی شہادت سے سخت پریشانی لاحق ہوئی اوراس جنگ سے کنارہ کش ہونے کے لیے تیار ہوگئے، لیکن حضرت امیر معاویہ ؓ نے یہ کہہ کر تسلی دی کہ عمارؓ کے قاتل ہم نہیں ہیں ؛بلکہ وہ جماعت ہے جو ان کو میدان جنگ میں لائی۔ (طبقات ابن سعد قسم اول جزوثالث :۱۸۰ ،ومستدرک وحاکم:۳/۳۸۷) حضرت عمار ؓ کی شہادت سے درحقیقت حق وناحق کا فیصلہ ہوگیا، حضرت خزیمہ بن ثابت ؓ جنگ جمل اورمعرکۂ صفین میں شریک تھے،لیکن اس وقت تک کسی طرف سے اپنی تلوار بے نیام نہیں کی تھی،حضرت عمارؓ کی شہادت نے ثابت کردیا کہ انہیں حیدرکرار ؓ کا ساتھ دینا چاہئے؛ چنانچہ اس کے بعد تلوار کھینچ کر شامی فوج پر ٹوٹ پڑے اورشدید کشت وخون کے بعد شہادت حاصل کی۔ (طبقات ابن سعد قسم اول جزو ثالث:۱۸۷) تجہیز و تکفین حضرت علی ؓ نےجب اپنے مونس وجانثار کی شہادت کی خبر سنی تو آہ سرد کھینچ کر فرمایا، "خدانے عمارؓ پر رحم کیا، جس دن اسلام لائے،خدانے رحم کیا، جس دن شہید ہوئے، اورخداان پر رحم کرے گاجس دن زندہ اٹھائے جائیں گے،میں نے ان کو اس وقت رسول اللہ ﷺ کے ساتھ دیکھا تھا جب کہ صرف چاریا پانچ صحابہ ؓ کو اعلانِ ایمان کی توفیق عطا ہوئی تھی،قدیم صحابہ ؓ میں سے کوئی بھی ان کی مغفرت میں شک نہیں کرسکتا،عمارؓ اورحق لازم و ملزوم تھے،اس لیے ان کا قاتل یقیناً جہنمی ہوگا، اس کے بعد تجہیز و تکفین کا حکم دیا، خود جنازہ کی نماز پڑھائی اورخون آلود پیراہن کے ساتھ ۹۱ برس کی عمر میں اس حامیِ حق کو زیر زمین نہاں کردیا۔ (طبقات ابن سعد قسم اول جزوثالث:۱۸۷) اخلاق حضرت عمارؓ کا معدنِ اخلاق گراں مایہ جواہر سے لبریز تھا،جفاکشی،استقامت،استقلال اورحقانیت کے واقعات پہلے گذرچکے ہیں،ورع وتقویٰ کے باعث سکوت وکم سخنی ان کا خاص شعار تھا،فتنہ وفساد سے ہمیشہ پناہ مانگا کرتے تھے، لیکن خدانے سب سے بڑے فتنہ میں ان کا امتحان لیا اورکامیابی کے ساتھ حق کا طرف دار بنادیا۔ (طبقات ابن سعد قسم اول جزء ثالث:۱۸۳) سادگی، تواضع اورخاکساری کا یہ حال تھا کہ فرشِ خاک ان کے لیے سب سے زیادہ راحت بخش بستر تھا، غزوۂ ذات العشیرہ کے موقع میں بنی مدلج کے چند آدمی ایک نخلستان سے نہر نکال رہے تھے، حضرت علی ؓ نے ان سے فرمایا "ابوالیقظان چلودیکھیں یہ لوگ کیا کررہے ہیں" غرض وہاں پہنچ کر گھنٹوں تماشادیکھتے رہے، یہاں تک کہ نیند کا غلبہ ہوا اوردونوں اسی جگہ ایک درخت کے نیچے فرش خاک پر بے تکلفی کے ساتھ سورہے ۔ (مسند احمد بن حنبل :۴/۲۶۳) عہدِ فاروقی میں کوفہ کے والی تھے، لیکن ایک گورنر کی سادگی و بے تکلفی یہ تھی کہ خود بازار جاکر سودا سلف خرید تے،حضرت مطرف ؓ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ کوفہ میں، میں اپنے ایک دوست سے ملنے گیا،اثنائے گفتگو میں حضرت علی ؓ کی بعض بے اعتدالیوں کا تذکرہ آیا تو ایک شخص نے جو وہاں بیٹھا ہوااپنے چرمی پیراہن میں پیوندٹانک رہا تھا، برہم ہوکر کہا، اے فاسق کیا تو امیر المومنین کی مذمت کررہا ہے؟ میرے دوست نے عفو خواہی کرکے کہا ابوالیقظان !جانے دو یہ میرے مہمان ہیں ، اس وقت میں نے پہچانا کہ عمار ؓ بن یاسر ؓ یہی ہیں۔ (طبقات ابن سعد قسم اول جزوثالث :۱۸۲) حضرت عمارؓ کا ہر ایک قدم صرف خدائے پاک کی خوشنودی ورضامندی کی راہ میں اٹھتا تھا، جنگ جمل اورغزوۂ صفین میں بھی درحقیقت اسی مطمحِ نظرنے حضرت علی ؓ کے زیر علم لاکر کھڑا کیا،صفین کی فوج کشی میں ساحلِ فرات کی راہ سے میدانِ جنگ کی طرف بڑھ رہے تھے، اوربار بار کہتے جاتے تھے، اے خدا! اگر میں جانتا کہ پہاڑ سے کود کر آگ میں جل کر یاپانی میں ڈوب کر جان دینا تیری خوشنودی کا باعث ہوگا تو ضرور تجھے خوش کرتا میں لڑنے جاتا ہوں، لیکن اس میں بھی تیری رضا جوئی مقصود ہے،امید ہے کہ اس مقصد میں تو مجھے ناکام نہ رکھے گا۔(طبقات ابن سعد قسم اول جزوثالث : ۱۸۴) آپ کی اخلاقی عظمت اورقوتِ ایمانی کا ضامن خود آنحضرت ﷺ کا یہ قول کہ"عمار ؓ کے رگ وپے میں ایمان سرایت کئے ہوئے ہے" اورشیطان سے مامون رہنے کی دعا ہے۔ (مستدرک حاکم:۳/۳۹۳) مذہبی زندگی حضرت عمارؓ کو خدائے واحد کی عبادت وپرستش میں خاص لطف حاصل ہوتا تھا رات رات بھر نماز اوروظائف میں مشغول رہتے تھے، حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ یہ آیت : أَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ آنَاءَ اللَّيْلِ سَاجِدًا وَقَائِمًا يَحْذَرُ الْآخِرَةَ وَيَرْجُو رَحْمَةَ رَبِّهِ کیا وہ شخص جو رات کو بندگی کرتا ہے سجدہ کرکے اورکھڑا ہوکر آخرت سے خوف کھاتا ہے اوراپنے خدا کی رحمت کا امیدوار رہتا ہے( کہیں نافرمان بندوں کے برابر ہوسکتا ہے) حضرت عمارؓ ہی کی نسبت نازل ہوئی ہے،(مستدرک حاکم :۳/۳۹۳)خشوع وخضوع اورتوجہ الی اللہ کو نماز کی اصل روح سمجھتے تھے،ایک دفعہ نماز پڑھنے کھڑے ہوئے تو جلدی جلدی دوگانہ اداکرکے بیٹھ رہے ،لوگوں نے پوچھا کہ آپ نے اس قدر عجلت کیوں کی؟ بولے اس وقت مجھے شیطان سے مسابقت کرنا پڑی،(مسند احمد بن حنبل :۴/۲۶۳) معذوری کی حالت میں نماز قضا نہیں ہوتی تھی، ایک مرتبہ سفر کے موقع پر غسل کی حاجت پیش آئی اورباوجود سعی وکوشش پانی دستیاب نہ ہوا،چونکہ جانتے تھے کہ مٹی پانی کا نعم البدل ہے، اس لیے تمام جسم پر خاک مل کر نماز پڑھ لی، جب سفر سے واپس آئے اورآنحضرت ﷺ سے اس کا تذکرہ کیا تو ارشاد ہوا،" ایسی حالت میں بھی صرف تیمم کافی ہے"۔ (مسند احمد بن حنبل :۴/۲۶۳) جمعہ کے روز خطبہ سے پہلے منبر پر بیٹھ کر عموماً سورۂ یٰسین تلاوت فرماتے تھے،(طبقات ابن سعد قسم اول جزء ثالث :۱۸۲) خطبہ نہایت فصیح و بلیغ ہوتا تھا اوراس میں ایجاز واختصار خاص طورپر ملحوظ رکھتے تھے،ایک دفعہ کسی نے اس اختصار پر اعتراض کیا تو بولے کہ "رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ نماز کو طول دینا اورخطبہ مختصر کرنا انسان کی سمجھ کی علامت ہے۔ (مسند احمد بن حنبل :۴/۲۶۳) حلیہ حلیہ یہ تھا،قد بلند وبالا، نرگس آنکھیں،سینہ چوڑا اوربدن خوب بھرا ہوا،شہادت کے وقت گوان کی عمر نوے اکانوے برس کی تھی تاہم بظاہر پیری کے آثار بہت کم طاری ہوئے تھے۔ (طبقات ابن سعد قسم اول جز ثالث :۱۸۹)