انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** امام لیث بن سعد امام لیث بن سعد ان ممتاز تبع تابعین میں ہیں، جن کی مجلس درس میں بڑے بڑے ائمہ نے زانوے تلمذ تہ کیا تھا، امام شافعی رحمہ اللہ نے ان کا زمانہ پایا تھا؛ مگرکسی وجہ سے اکتساب فیض نہ کرسکے، جس کا ان کوزندگی بھرافسوس رہا، ان کے مجتہدات اور مسائل فقہ مدون کئے گئے ہوتے توان کا شمار ائمہ مجتہدین میں ہوتا؛ اسی بناپر امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ ان کے تلامذہ نے ان کوضائع کردیا، یعنی ان کے افادات کوانہوں نے مدون نہیں کیا کہ ان کی امامت وجلالت کا صحیح اندازہ بعد کے لوگوں کوہوسکے۔ علم وفضل، تفقہ فی الدین، فیاضی وسیرچشمی اور تواضع ومدارات ان کے سوانح حیات کی جلی سرخیاں ہیں۔ خاندان آبائی وطن اصفہان تھا؛ مگران کا خانوادہ کسی جنگ میں قبیلہ قیس کی ایک شاخ فہم کا غلام ہوگیا تھا (بعض تذکروں میں ان کوکنانہ کا غَام لکھا ہے؛ مگران دونوں باتوں میں کوئی تضاد نہیں ہے، بنوکنانہ کا تعلق بھی بنوقیس ہی سے تھا) غالباً اسی وجہ سے آبائی وطن چھوڑ کران کومصر میں متوطن ہونا پڑا، ان کے خاندان کے بزرگوں نے ان کی پیدائش سے پہلے اصفہان کوچھوڑ دیا تھا؛ مگرلیث بن سعد کے دل میں اصفہان کی محبت ہمیشہ باقی رہی لوگوں سے کہا کرتے تھے کہ اصفہان کے رہنے والوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا کرو۔ (الرحمۃ الغیثیۃ:۳) نام ونسب لیث نام، ابوالحرث کنیت تھی، والد کا نام سعد اور دادا کا نام عبدالرحمن تھا، ان کے والد اور دادا کے نام سے پتہ چلتا ہے کہ یہ غلام خاندان قدیم الاسلام تھا، مصر کے قریب ایک بستی قرقشندہ میں ان کا خانوادہ اس وقت آباد تھا اور یہیں ان کی ولادت ہوئی یہ بستی مصر کے اس سرسبز وشاداب مقام پرواقع تھی، جس کوریف مصر (ریف عربی میں سرسبزوشاداب مقام کوکہتے ہیں، اس مقام کوریف مصر اس وجہ سے کہتے تھے کہ یہ اپنی سرسبزی وشادابی میں پورے ملک میں ممتاز تھی) کہا جاتا ہے۔ یاقوت نے لکھا ہے کہ اس بستی میں حضرت لیث کا ایک مکان تھا، جس کوان کے چچازاد بھائی ابن رفاعہ نے دشمنی کی وجہ سے دبارہ گرادیا تھا؛ مگرامام نے تیسری بار پھراسے تعمیر کرایا، یہ ابن رفاعہ اس وقت مصر کا امیر تھا، ابن رفاعہ کوامام سے کیوں اس قدر عناد تھا کہ اس نے آپ کا مکان تک گروادیا، اس کی کوئی وجہ ارباب تذکرہ نہیں لکھتے؛ مگرقرائن سے جوبات معلوم ہوتی ہے کہ وہ یہ ہے کہ ان کے بعض سوانح نگار لکھتے ہیں کہ غلہ کی پیدا وار سے لیث بن سعد کو۲۵/ہزار سے ۴۰،۵۰/ہزار درہم سالانہ تک آمدنی ہوجایا کرتی تھی۔ (تاریخ بغداد:۳/۱۱۔ صفوۃ الصفوہ:۴/۲۸۵) اگرچہ اس کی تصریح نہیں ملتی کہ یہ جائداد جس سے اتنی کثیر آمدنی ہوتی تھی، کہاں پرتھی؛ مگرغالب گمان یہ ہے کہ یہ قرقشندہ ہی میں ہوگی اس لیے کہ مصر کی بہترین اور کثیر پیداوار یہیں ہوتی تھی، اس لیے ممکن ہے کہ اس لالچ کی وجہ سے ابن رفاعہ نے یہ کوشش کی کہ اگران کی بودوباش یہاں نہ رہے گی تواس جائداد پراس کوتصرف کا حل مل جائےگا۔ دوسری وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ منصور نے لیث بن سعد کے سامنے مصر کی امارت (گورنری) پیش کی تھی؛ مگرانہوں نے انکار کردیا ممکن ہے ابن رفاعہ نے اسی وجہ سے ان کوپریشان کیا ہو کہ منصور کی ناراضگی کا اثر اس کے اقتدار پرنہ پڑے، اس آبائی مکان اور جائداد کے علاوہ بھی لیث بن سعد نے ایک مکان اور مسجد مصر میں تعمیر کرائی تھی، یہ مکان ومسجد جس جگہ پرواقع تھے اس کوزقاق لیث (کوچہ لیث) کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ (معجم البلدان:۷/۵۸) سنہ ولادت لیث بن سعد کے سنہ ولادت میں تھوڑا سا اختلاف ہے؛ مگرصحیح یہ ہے کہ ان کی ولادت سنہ۱۸۴ھ میں ہوئی، خود فرماتے تھے کہ میرے خاندان کے بعض لوگوں کا بیان ہے کہ میں سنہ۱۸۲ھ میں پیدا ہوا؛ لیکن صحیح یہ ہے کہ میری ولادت سنہ۱۸۴ھ میں ہوئی اس لیے کہ جس وقت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا میں ۷/برس کا تھا اور یہ معلوم ہے کہ عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کا انتقال سنہ۱۰۱ھ میں ہوا۔ (الرحمۃ الغشیۃ:۳) تعلیم وتربیت ان کی ابتدائی تعلیم اور تربیت کے بارے میں کچھ زیادہ تفصیلات نہیں ملتیں مگران کونحووادب اور شعروسخن سے بھی دلچسپی تھی، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت کے عام دستور کے مطابق ان کی ابتدائی تعلیم ان ہی علوم سے شروع ہوئی؛ مگربعد میں ان پرفقہ وحدیث کا اتنا غلبہ ہوا کہ ان کے صحیفہ زندگی کے اصل عنوان یہی علوم بن گئے اور دوسرے علوم ان میں گم ہوگئے۔ سن شعور کوپہنچتے ہی انہوں نے حدیث وفقہ کی طرف توجہ کی، سب سے پہلے اپنے وطن مصر کے مشائخ فقہ وحدیث سے استفادہ کیا؛ پھراسلامی ممالک کے دوسرے مقامات کا سفر کرکے تمام معروف ومشہور اساتذہ سے مستفیض ہوئے، ان کے اساتذہ میں پچاس سے زیادہ کبارِتابعین ہیں۔ نفع کی خدمت میں مشہور تابعی نافع جوحضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کے خاص تربیت یافتہ تھے، لیث بن سعد کے زمانہ میں مرجع خلائق تھے، یہ ان کی خدمت میں بھی پہنچے، حضرت نافع نے ان کا نام ونسب اور وطن پوچھا، جب یہ بتاچکے توعمردریافت کی، کہا:بیس برس فرمایا مگرداڑھی سے تومعلوم ہوتا ہے کہ تمہاری عمر چالیس سال سے کم نہ ہوگی۔ (الرحمۃ الغیشیۃ:۳) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ میں نے لیث بن سعد کا ایک مرتب کردہ حدیث کا ایک مجموعہ دیکھا تھا، جس میں انہوں نے سو کے قریب حدیثیں صرف نافع کی روایت سے جمع کی تھیں، نافع مولی ابن عمر کے علاوہ ان کے چند تابعی شیوخ کے نام یہ ہیں: امام زہری، سعید المقبری، عبداللہ بن ابی ملیکہ، یحییٰ الانصاری رحمہم اللہ وغیرہ ان کے علاوہ بے شمار اتباع تابعین سے بھی انہوں نے فیض حاصل کیا، امام نووی رحمہ اللہ ان کے چند ممتاز شیوح کا ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں: وَخَلَائِقِ لَايَحْصُوْنَ مِنَ الْأَئِمَّةِ۔ (تہذیب الأسماء:۱/۵۹۷، شاملہ، مصدرالكتاب: ملف وورد أهداه بعض الأخوة للبرنامج۔ دیگرمطبوعہ:۱/۷۴) ترجمہ:ان کے علاوہ اتنے ائمہ سے انہوں نے استفادہ کیا ہے کہ ان کا صحیح اندازہ لگانا مشکل ہے۔ امام زہری رحمہ اللہ سے سماع بعض تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ ان کوامام زہری رحمہ اللہ سے بھی سماع حدیث حاصل ہے (بغدادی نے لکھا ہے کہ یہ سنہ۱۱۳ھ میں حج کے لیے گئے تھے؛ اسی سال مکہ میں امام زہری رحمہ اللہ سے انہوں نے سماع کیا تھا، حافظ ابنِ حجرعسقلانی رحمہ اللہ نے بھی تہذیب میں یہی لکھا ہے؛ مگرالرحمۃ الغیثیۃ میں اس کے خلاف کوئی ایک روایت نقل کی ہے، ابن خلکان نے ان سے استفادہ کا توذکر کیا ہے؛ مگرسماع کا نہیں) مگریہ صحیح نہیں ہے، امام زہری رحمہ اللہ کے علم وفضل سے انہوں نے فائدہ ضرور حاصل کیا تھا؛ لیکن یہ استفادہ بالواسطہ تھا، بالمشافہ نہیں تھا، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ لیث امام زہری کی روایتیں کبھی ایک، کبھی دواور تین اور اس سے زائد واسطوں سے روایت کرتے ہیں، خود لیث کا یہ قول متعدد تذکروں میں منقول ہے: کتبت من علم الزھری کثیراً (یعنی عن غیرہ) فاردت ان ارکب البرید الیہ الی الرصافۃ فخفت ان لایکون ذالک اللہ فترکت ذالک (یعنی فصار یروی عنہ بالواسطۃ)۔ (الرحمۃ الغیشیۃ:۴) ترجمہ:میں نے زہری کی روایتوں کی ایک کثیر مقدار لکھ لی تھی (یعنی غیروں کے واسطے سے) پھرمیں نے اراداہ کیا (ابن خلکان نے اردت کے بجاے طلب کا لفظ لکھا ہے جس کا مفہوم بھی یہی ہے) کہ رصافہ جاکر ان سے بالمشافہ روایت کروں مگراس خوف سے باز آیا کہ ممکن ہے کہ میرا یہ عمل اللہ کی رضا کے لیے نہ ہو (مقصد یہ ہے کہ پھروہ بالواسطہ ہی روایت کرتے رہے)۔ فضل وکمال لیث بن سعد اپنی فطری صلاحیت اور غیرمعمولی ذہانت کی وجہ سے آغازِ شباب میں تابعین اور تبع تابعین دونوں کے علوم کے جامع بن گئے اور ہرطرف ان کے علم وفضل کا چرچا شروع ہوگیا، خود ان کے شیوخ تک ان کے فضل وکمال کا اعتراف کرتے تھے، شرجیل بن یزید کا بیان ہے کہ میں نے ممتاز اور معمرائمہ حدیث کودیکھا ہے کہ وہ لیث کے علم وفضل کا اعتراف کرتے تھے اور اُن کوآگے بڑھاتے تھے؛ حالانکہ ابھی بالکل نوجوان تھے، یحییٰ بن سعید ان کے شیوخ میں ہیں؛ انہوں نے کسی بات سے ان کوٹوکا اور پھرفرمایا کہ تم امام وقت ہو جس کی طرف نظریں اُٹھتی ہیں۔ (الرحمۃ الغیشیۃ:۵) امام شافعی نے ان کا زمانہ پایا تھا؛ مگران سے استفادہ نہ کرسکے تھے، جس کا ان کوزندگی بھرافسوس رہا، فرماتے تھے مجھے لیث بن سعد اور ابن ابی ذھب کے علاوہ کسی سے نہ ملنے کا افسوس نہیں ہے۔ (الرحمۃ الغیشیۃ:۲) مشہور محدث عبداللہ بن وہب فرماتے تھے کہ اگرلیث اور امام مالک رحمہ اللہ نہ ہوتے تومیں گمراہ ہوجاتا، ابواسحاق شیرازی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ مصر میں تابعین کا علم لیث پرختم ہوگیا، امام ابن حبان کا قول ہے کہ علم وفضل، تفقہ اور قوتِ حافظہ میں اپنے زمانہ کے ممتاز لوگوں میں تھے۔ (الرحمۃ الغیشیۃ:۲) امام نووی نے لکھا ہے کہ ان کی امامت وجلالتِ شان اور حدیث وفقہ میں ان کی بلندی مرتبت پرسب کا اتفاق ہے، وہ اپنے زمانہ میں مصر کے امام تھے۔ (تہذیب الاسماء:۲/۷۴) یعقوب بن داؤد مہدی کا وزیر تھا اس کا بیان ہے کہ جب لیث بن سعد عراق آئے تومہدی نے کہا کہ اس شیخِ وقت کی صحبت اختیار کرو، اس وقت ان سے بڑا کوئی عالم نہیں ہے، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ میں نے اختلاف ائمہ پرنظرڈالی توبجز ایک مسئلہ کے لیث بن سعد کوکسی دوسرے مسئلہ میں صحابہ وتابعین سے الگ نہیں پایا، وہ مسئلہ جس میں وہ منفرد تھے وہ یہ ہے کہ وہ مری ہوئی ٹڈی کھانا حلال نہیں سمجھتے؛ حالانکہ اس کی تحریم کا کوئی قائل نہیں ہے۔ (الرحمۃ الغیشیۃ:۹) حدیث علم حدیث میں ان کی حیثیت مسلم ہے، حدیث کی کوئی متداول کتاب نہیں ملے گی جس میں لیث بن سعد کی مرویات نہ موجود ہوں، ان سے سماع حدیث کوبڑے بڑے ائمہ اپنے لیے باعثِ فخر سمجھتے تھے؛ مگراس کے باوجود وہ روایتِ حدیث میں حددرجہ محتاط تھے ابوالزبیر ان کے مشائخ حدیث میں تھے؛ مگروہ جن روایتوں میں تدلیس (تدلیس فن حدیث کی ایک اصطلاح ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ راوی بیچ کے آدمی کا تذکرہ چھوڑ دے اور اُوپر کے راوی کا نام لے اس سے یہ غلط فہمی ہوتی ہے کہ اس نے اوپر کے راوی سے براہِ راست روایت کی ہے) کرتے تھے، اُن روایتوں کی تحدیث کولیث ترک کردیتے تھے، اس وجہ سے محدثین نے لکھا ہے کہ ابوالزبیر کی وہ مرویات جولیث سے مروی ہیں بہت زیادہ قابل اعتماد ہیں، غیرمعمولی ذہانت اور قوتِ حافظہ کے باوجود وہ تحدیث روایت میں کسی پراعتماد نہیں کرتے تھے؛ حتی کہ جوروایتیں ان کے یہاں لکھی ہوتی تھیں انہیں بھی خود اپنی زبان سے روایت کرتے تھے۔ (الرحمۃ الغیشیۃ:۴) بہت سے محدثین کا یہ طریقہ تھا کہ وہ اپنی مرویات کی دوسروں کے ذریعہ تحدیث کراتے تھے، ان کے صاحبزادے شعیب کا بیان ہے کہ ایک بارتلامذہ نے ان سے پوچھا کہ آپ بسااوقات ایسی روایتیں بھی کردیتے ہیں جوآپ کے مرتب کردہ مجموعوں میں نہیں ہیں، فرمایا کہ جوکچھ میرے سینے میں محفوظ ہے وہ سب اگرسفینوں میں منتقل کردیا جاتا توایک سواری کا بوجھ ہوجاتا۔ (تہذیب التہذیب:۸/۴۶۳) حدیث کی روایت اور اس کی حفاظت میں جوورک ان کوحاصل تھا، اس کا اعتراف تمام ممتاز اہلِ علم اور ائمہ جرح وتعدیل نے کیا ہے، امام احمد ابن حنبل فرماتے تھے کہ لیث کثیرالعلم اور صحیح الحدیث تھے، ابوداؤد کا بیان ہے کہ میں نے امام احمد سے سنا ہے، وہ فرماتے تھے کہ مصر میں صحیح احادیث کی روایت اور ان کے حفظ واتقان میں ان کا کوئی ہمسر نہیں تھا، اس مرتبہ میں عمروبن حارث ان سے کچھ قریب تھے، کسی نے ان سے کہا کہ فلاں نے ان کی تضعیف کی ہے، فرمایا کہ میں نہیں جانتا، جرح وتعدیل کے امام یحییٰ بن معین ان کوثقہ کہتے تھے، کسی نے ان سے پوچھا کہ آپ لیث اور ابن ابی ذہب میں کس کوحدیث کا محافظ پاتے ہیں، فرمایا: دونوں کو؛پھرکہا کہ یزید بن حبیب کی مرویات میں ان کا درجہ محمد بن اسحاق سے بلند ہے، ایک شخص نے ابن معین سے پوچھا کہ حضرت نافع رضی اللہ عنہ سے جواحادیث انہوں نے روایت کی ہیں ان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے، فرمایا نہایت ہی صالح اور قابل وثوق ہیں، ابن المدینی کا قول ہے کہ لیث ثقہ اور قابل اعتماد تھے؛ اسی طرح عجلی، نسائی، ابوزرعہ، یعقوب بن ابی شیبہ جیسے ائمہ حدیث نے ان کی توثیق کی ہے، المہ جرح وتعدیل جب کسی محدث یاامام کی توثیق یاتجریح کرتے ہیں تواس وقت عموماً ان کے پیشِ نظر نہ ان کی امامت وجلالت ہوتی ہے اور نہ کوئی اور جذبہ بلکہ ان کے سامنے روایت ودرایت کے وہ حالات ہوتے ہیں جن کوانہوں نے کتاب وسنت سے اخذ کرکے تحدیث وروایت کی اساس قرار دیا ہے؛ یہی وجہ ہے کہ بسااوقات بڑے بڑے ائمہ کی مرویات پران کوجرح کرنا اور ان کورد کردینا پڑتا ہے اور بہت سے کم درجہ محدث کی روایتوں کوقبول کرلینا اور ان کی توثیق کرنی پڑتی ہے، اس لیے علمِ حدیث میں کسی امام ومحدث کے درجہ کی تعین کرنے میں ان کے اقوال وآراء سے بڑی مدد ملتی ہے اور اُن کی روشنی میں ان کے علم وفضل کے خط وخال بھی بخوبی نمایاں ہوجاتے ہیں؛ اسی وجہ سے جن ائمہ نے حدیث کی تدوین وترتیب اور اس کی حفاظت میں حصہ لیا ہے ان کے سوانح حیات میں ائمہ جرح وتعدیل کے اقوال کوبڑی اہمیت حاصل ہے؛ اسی ضرورت کے پیشِ نظر یہ نقل کیے گئے ہیں۔ فقہ علم فقہ اب ایک مخصوص فن بن گیا ہے، مگر دوسری صدی کے نصف تک یہ کوئی مرتب ومدون فن نہیں تھا اور نہ تومختلف حلقے اور مدارسِ فقہ قائم ہوئے تھے؛ بلکہ جن ارباب علم میں ملکہ اجتہاد تھا وہ ضرورت کے مطابق کتاب وسنت سے اجتہاد کرتے تھے، قریب قریب ہراسلامی ملک میں دوچار ایسے ائمہ مجتہدین موجود تھے، جوحالات وضرورت کے مطابق پیش آمدہ مسائل کا جواب دیا کرتے تھے، جس شخص کوجس امام پراعتماد تھا، وہ ان کے مجتہدات پرعمل کرتا تھا، لیث ابن سعد کے زمانہ میں ایک طرف عراق اور شام میں امام اوزاعی اور امام ابوحنیفہ کے مجتہدات کا چرچا تھا تودوسری طرف حجاز میں امام مالک کے تفقہ واجتہاد کا غلغلہ تھا، ابھی مصر کی سرزمین میں کوئی ممتاز مجتہد نہیں پیدا ہوا تھا؛ لیث بن سعد کے وجود سے یہ کمی پوری ہوگئی، ان میں پورا ملکہ اجتہاد موجود تھا اور انہوں نے نہ جانے کتنے مسائل قرآن وسنت سے مستنبط بھی کئے؛ مگرافسوس ہے کہ دوسرے ائمہ کی طرح ان کے استنباطات اور مجتہدات مدون ومرتب نہیں ہوسکے، جس کی وجہ سے نہ توان کوشہرت ہی ہوسکی اور نہ ان کے فقہ واجتہاد کا عام چرچا ہی ہوسکا تفقہ واجتہاد میں ان کا جومرتبہ تا، اس کا اندازہ ائمہ محدثین ومجتہدین کے اقوال سے بخوبی ہوسکتا ہے، امام شافعی فرمایا کرتے تھے کہ لیث بن سعد امام مالک سے زیادہ آثار واحادیث کے لیے (تفقہ کے اعتبار سے) نافع تھے، ان ہی کا قول ہے کہ: اَللَّیْثُ أَفْقَهَ مِنْ مَالِكٍ إلَّاأَنَّ أَصْحَابَهُ ضَيَّعُهُ۔ ترجمہ:لیث امام مالک سے زیادہ فقیہ تھے؛ لیکن ان کے تلامذہ نے ان کوضائع کردیا۔ اس جملہ کی تشریح کرتے ہوئے حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یعنی لم یدولوفقہہ کما دونوافقہ مالک۔ (الرحمۃ الغیشیہ:۹) ترجمہ:جس طرح امام مالک کی فقہ کی تدوین کی گئی؛ اس طرح لیث کے شاگردوں نے ان کے فقہ کی نہیں کی۔ یحییٰ بن بکیر کہا کرتے تھے کہ لیث امام مالک سے افقہ تھے (مگرشہرت وعظمت) ان کے حصہ میں آئی، مشہور محدث ابن وہب کا بیان ہے کہ لیث کے مستنبط مسائل ان کی مجلس میں پیش کئے گئے توایک دن ایک مسئلہ پرحاضرین نے بڑی تحسین کی اور کہا کہ اسیا معلوم ہوتا ہے کہ لیث امام مالک سے سن کرجواب دے دیتے ہیں، اس پرابن وہب بولے یہ نہ کہو؛ بلکہ یہ کہو کہ امام مالک لیث سے سن کرجواب دے دیتے ہیں، میں بخدا کہتا ہوں کہ میں نے لیث سے زیادہ فقہ نہیں دیکھا۔ یہ ابن وہب امام مالک کے خاص تلامذہ میں ہیں، اس لیے ان کا بیان بڑی اہمیت رکھتا ہے؛ اسی تفقہ واجتہاد کی وجہ سے منصور خلیفہ عباسی ان کا بڑا احترام کرتا تھا، مصر میں قضاہ کا تقرر بغیر ان کی مرضی کے نہیں ہوتا تھا، منصور نے یہ بھی خواہش ظاہر کی تھی کہ وہ مصر کی امارت قبول کرلیں؛ مگرانہوں نے اس سے انکار کیا، بعض تذکروں میں ہے کہ یہ مصر کے قاضی بنادئے گئے تھے؛ مگربعض قرائن کی بناپریہ بیان صحیح نہیں معلوم ہوتا، کمالِ تفقہ کے باوجود جب اُن کوکوئی مسئلہ نہیں معلوم ہوتا تھا وہ دوسرے اہلِ علم سے دریافت کرنے میں تکلف محسوس نہیں کرتے تھے، ایک بار آپ ایک مسجد سے نکلے تویحییٰ بن ایوب ادھر سے گذررہے تھے، ان کوروکا اور کسی مسئلہ کے بارے میں ان سے دریافت کیا وہ جواب دے کرواپس چلے گئے، گھرپہنچ کرانہوں نے اس احسان کابدلہ یہ چکایا کہ ایک ہزار دینار ان کوہدیۃً بھیج دیئے۔ (الرحمۃ الغیشیہ:۵) دوسرے علوم حدیث وفقہ کے علاوہ دوسرے علوم میں بھی انہیں دستگاہ تھی، یحییٰ بن بکیر کا قول ہے کہ میں نے لیث سے زیادہ جامع اادمی نہیں دیکھا وہ مجسم فقیہ تھے، ان کی زبان خالص عربی تھی، قرآن نہایت ہی اچھا پڑھتے تھے، نحو میں بھی درک تھا اور اشعار عرب اور حدیث کے حافظ تھے، بات چیت بھی بہت عمدہ کرتے تھے۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۰۴) یہی قول امام نووی نے امام احمد بن حنبل کی طرف بھی منسوب کیا ہے، ان کی یہ جامعیت صرف علم وفن ہی تک محدود نہیں تھی؛ بلکہ دوسرے اوصاف کے بھی وہ جامع تھے۔ روزمرہ کے عام معمولات ان کی اسی جامعیت کی وجہ سے ہرطبقہ اور ہرزمرہ کے لوگ ان کی خدمت میں آتے اور اپنی ضرورت پوری کرتے تھے، حکومت کے ذمہ دار اور اہلِ علم سے لے کرعوام تک اس میں شامل تھے؛ روزانہ ان کی چارمجلسیں ہوتی تھیں ایک مجلس حکومت وارکانِ حکومت کی ضروریات کے لیے مخصوص ہوتی تھی، دوسری مجلس میں وہ تشنگانِ حدیث نبوی کی پیاس بجھاتے تھے اور تیسری مجلس ان لوگوں کے لیے ہوتی تھی جوفقہ ومسائلِ فقہ دریافت کرنے آتے تھے اور چوتھی مجلس عام لوگوں کے لیے مخصوص ہوتی تھی، ان مجلسوں میں ان کا سلوک نہایت ہی فیاضانہ ہوتا تھا، نہ توافادہ وتعلیم میں کسی کی دل شکنی کرتے تھے اور نہ اہلِ حاجت روائی میں دلگیر ہوتے تھے؛ بلکہ راوی کا بیان ہے کہ : لایسئلہ احد فیردہ صغرت حاجۃ اوکبرت۔ (الرحمۃ الغیشیہ:۹) ترجمہ:یہ نہیں ہوسکتا تھا کہ کوئی شخص سوال کرے اور وہ اسے ردکردیں؛ خواہ اس کی ضرورت چھوٹی ہویابڑی تلامذہ اوپرذکرآچکا ہے کہ وہ عنفوانِ شباب ہی میں اہلِ علم کی توجہ کا مرکز بن گئے تھے اس وقت سے لےکروفات تک وہ مصر ہی میں رہے، پوری عمر میں مشکل سے دوتین بار وہ مصر سے باہر گئے تھے، اس پوری مدت میں جوکم ازکم ۵۰،۶۰/برس ہوتی ہے وہ اپنے اوقات کا نصف حصہ تعلیم وافادہ تحدیث روایت اور تفریع مسائل میں صرف کرتے رہے؛ ظاہر ہے کہ اتنی لمبی مدت میں ان سے ہزاروں آدمیوں نے اکتساب فیض کیا ہوگا، ان تمام مستفیدین اور تلامذہ کا استقصا توناممکن ہے، چند ممتاز فیض یافتگانِ درس کے نام یہاں درج کیے جاتے ہیں: شعیب، محمد بن عجلان، ہشام بن سعد (یہ دونوں بزرگ ان کے شیوخ میں تھے) ابن لیعہ ہشیم بن بشیر، قیس بن الربیع، عبداللہ بن مبارک، عبداللہ بن وہب، ابوالولید بن مسلم، ابوسلمۃ الخزاعی، عبداللہ ابن الحکم، سعید بن سلیمان، آدم بن ایاس، عبداللہ بن یزید المقری، عمروبن خالد، عیسیٰ بن حماد رحمہم اللہ وغیرہ، حافظ ابن حجر نے تقریباً ۵۰/ثقہ تلامذہ کا تذکرہ کیا ہے؛ مگرطوالت کے خیال سے ان کا نام یہاں درج نہیں کیا گیا ہے۔ سیرت وکردار ان کے صحیفہ زندگی کا یہ باب نہایت ہی روشن ہے وہ اپنے اخلاق واوصاف اور سیرت وکردار میں اسلامی زندگی کا نمونہ تھے، ابن مریم فرماتے ہیں کہ میں نے ان سے زیادہ جامع اوصاف آدمی نہیں دیکھا، ہروہ عادت وخوبی جس سے خدا کا قرب حاصل ہوسکتا ہو وہ ان میں موجود تھی۔ (الرحمۃ الغیشیہ:۷) ابن وہب کا بیان ہے کہ جوکچھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ان سب کووہ اپنی زندیگ میں برتتے تھے۔ (تاریخ بغداد:۱۳/۷) ایک بار مصر کا ایک قافلہ امام مالک کی خدمت میں گیا؛ انہوں نے ملنے سے کچھ تاخیر کی، یہ لوگ آپس میں چہ مے گوئیاں کرنے لگے کسی نے کہا کہ یہ اخلاق میں ہمارے امام کی طرح نہیں ہیں، امام مالک نے یہ بات سنی توان کوفوراً اندر بلالیا اور پوچھا تمہارے امام کون ہیں، لوگوں نے کہا کہ لیث بن سعد، فرمایا مجھے ان کے ساتھ تشبیہ نہ دو؛ پھران کے کچھ اخلاقی اوصاف بیان کیئے۔ (صفوۃ الصفوۃ:۴/۲۸۲) ایک بار بعض تاجروں نے ان سے کچھ پھل خریدے، خریداری کے بعد ان کوپھل گراں محسوس ہوئے اس لیے آپ سے پھل واپس کرلینے کی خواہش کی، آپ نے پھل واپس کرلیے، جب معاملہ ختم ہوگیا توروپیے کی تھیلی مانگی اور اس میں سے پچاس دینار نکال کرتاجروں کوہدیۃً دیئے، ان کے صاحبزادے بھی اس موقع پرموجود تھے، ان کویہ برامعلوم ہوا اور انہوں نے حضرت لیث سے اس کا ظہار بھی کیا؛ مگرآپ نے فرمایا کہ خدا تمھیں معاف کرے، یہ پھل انہوں نے فائدے ہی کی اُمید اور غرض سے توخریدا تھا؛ مگرجب ان کوفائدہ محسوس نہیں ہوا توانہوں نے واپس کردیا اور واپس کرنے کے بعد ان کے فائدے کی اُمید بھی ختم ہوگئی تومیں نے یہ مناسب سمجھا کہ ان کی اس اُمید وتوقع کا کچھ توبدلہ دے دوں۔ (صفوۃ الصفوۃ:۴/۲۸۲) سخاوت سخاوت وفیاضی گویا ان کی طبیعت ثانیہ بن گئی تھی، وہ اپنی دولت مستحقین پربے دریغ صرف کرتے تھے، لوگوں کوپیسہ جمع کرنے میں لطف آتا ہے اور ان کواس کے خرچ کرنے میں لذت محسوس ہوتی تھی، اس کے علاوہ تجارت کا کاروبار بھی تھا، ان کے تمام سوانح نگار لکھتے ہیں ان کی سالانہ آمدنی ۷۰،۸۰/ہزار دینار تھی؛ مگراس پوری آمدنی پرکبھی زکاۃ دینے کی نوبت نہیں آتی تھی، یہ پوری آمدنی فقراء ومساکین اور مستحق اہلِ علم پرخرچ ہوجاتی تھی، خود فرماتے تھے کہ میں جب سے بالغ ہوا ہوں، مجھ پرایک درہم بھی زکاۃ واجب نہیں ہوئی۔ (تاریخ بغداد:۱۳/۱۱۔ صفوۃ الصفوہ۔ والرحمۃ الغیشیہ وغیرہ) کسی سال آمدنی کم ہوتی تھی توقرض کی نوبت آجاتی تھی، جب تک زندہ رہے سودینار سالانہ مستقل طور سے امام مالک رحمہ اللہ کے پاس بھیجتے تھے، ایک بار امام مالک نے انہیں لکھا کہ مجھ پرکچھ قرض ہوگیا ہے فوراً پانچ سودینار ان کے یہاں بھجوادیئے، ایک بار امام مالک نے ان سے تھوڑی سی عصفر (پیلے رنگ کی گھاس) لڑکوں کے کپڑے رنگنے کے لیے مانگی (غالباً یہ مصر کی خاص پیداوار تھی) انہوں نے اتنی مقدار میں بھیجی کہ امام مالک رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ ہم نے اپنے گھرکے بچوں کے کپڑے رنگے، پڑوسیوں نے استعمال کیا؛ پھربھی اتنی بچ گئی کہ ایک ہزار دینار میں اُسے فروخت کیا گیا (خطیب نے اس واقعہ کے بیان میں بہت زیادہ مبالغہ سے کام لیا ہے)۔ (الرحمۃ الغیشیۃ:۵) امام لیث بن سعد سنہ۱۱۳ھ میں حج کوگئے تھے، حج سے فارغ ہوکر زیارتِ نبوی کی غرض سے مدینہ منورہ تشریف لے گئے وہاں پہنچے توامام مالک نے عمدہ کھجوروں کا ایک طشت ان کے پاس ہدیہ بھیجا؛ انہوں نے اس طشت میں ایک ہزار دینار رکھ کرواپس کیا۔ (تہذیب الاسماء:۲/۷۴) ابن لہیعہ مشہور محدث ہیں، اتفاقاً ان کے گھر میں آگ لگ گئی اور سارا اثاثہ جل گیا، حضرت لیث بن سعد کواطلاع ہوئی توایک ہزار دینار بطورِ اعانت ان کے پاس بھیج دیئے، بسااوقات وہ اپنی اس دادودہش کواپنے لڑکوں سے بھی پوشیدہ رکھتے تھے؛ تاکہ پانے والے کویہ ذلیل نہ سمجھیں، ایک بار منصور بن عمار کوانہوں نے ایک رقم دی اور کہا کہ دیکھو میرے لڑکے کونہ معلوم ہو؛ ورنہ تم اس کی نگاہ میں حقیر ہوجاؤگے، جب ان کے صاحبزادے شعیب کومعلوم ہوتا تواس کی تلافی میں انہوں نے بھی اپنے والد کی رقم سے ایک دینار کم رقم منصور کودی اور کہا کہ میں نے ایک دینار کم اس لیے کردیا ہے کہ عطیہ میں والد کے برابر نہ ہوسکوں۔ (صفوۃ الصفوہ:۴/۲۸۴) اسدبن موسیٰ کا بیان ہے کہ جب عراق میں عباسیوں نے بنوامیہ کوقتل کرنا شروع کیا تومیں بھاگ کرمصر چلا گیا، مصر میں بڑی بے سروسامانی اور پریشانی کی حالت میں پہنچا تھا، اتفاق سے اسی حالت میں لیث بن سعد کی مجلس درس میں گیا جب مجلس برخاست ہوگئی توان کا خادم میرے پاس آیا اور کہا کہ میں جب تک واپس نہ آجاؤں یہیں ٹھہرے، تھوڑی دیر بعد وہ آیا اور اس نے مجھے سودینار کی ایک تھیلی دی اور کہا کہ امام نے فرمایا کہ اس سے اپنا سامان درست کرلیجئے، اسد کا بیان ہے کہ اس وقت میری کمر میں ایک ہزار دینار بندھے ہوئے تھے، میں نے اس کونکالا اور خادم سے کہا کہ میں شیخ سے ملنا چاہتا ہتوں، تم جاکر اجازت لاؤ چنانچہ میں ان کے پاس گیا اپنا نام ونسب بتایا؛ پھراس رقم کوواپس کرنا چاہا؛ انہوں نے کہا کہ یہ ہدیہ ہے، صدقہ نہیں ہے، اس لیے قبول کرنے میں تامل نہ ہونا چاہیے؛ مگرمیں نے معذرت کی اور کہا کہ جس چیز سے میں مستغنی ہوں نفس کواس کا عادی بنانا نہیں چاہتا، شیخ نے فرمایا کہ اچھا اگرتم لینا پسند نہیں کرتے تومستحق اصحاب حدیث میں یہ رقم تقسیم کردینا اسد کہتے ہیں کہ میں نے مجبور ہوکر یہی کیا۔ (الرحمۃ الغیشیہ:۵) ایک عورت ایک پیالہ لے کرآئی اور اس نے کہا کہ میرا شوہر بیمار ہے (بعض تذکروں میں لڑکے کا ذکر ہے اور بعض تذکروں میں مطلق یہ واقعہ مذکور ہے) معلوم ہوا ہے کہ آپ کے یہاں شہد ہے، اس پیالہ بھر شہد دے دیجئے، فرمایا وکیل (ناظم اُمورِ خانہ داری یاپرائیوٹ سکریٹری کووکیل کہتے تھے) کے پاس جاؤ اور اس سے کہو کہ وہ تمھیں ایک مطر شہد دے دے، عورت جب وکیل کے پاس پہنچی تووکیل امام کے پاس آیا اور غالباً شہد کی اتنی بڑی مقدار دینے پرکچھ کہا سنا؛ مگرآپ نے فرمایا کہ جاؤ اس کودے دو، اس نے اپنے ظرف کے بقدر مانگا تھا، ہم اس کواپنے ظرف کے بقدر دیتے ہیں، ایک مطر کا ایک سوبیس رطل ہوتا ہے۔ مہمان نوازی سخاوت وفیاضی کا ایک مظہر مہمان نوازی بھی ہے، بخل کے ساتھ یہ صفت شاذ ونادر ہی جمع ہوتی ہے، لیث بن سعد جس درجہ کے فیاض تھے اسی درجہ کے مہمان نواز بھی تھے، عبداللہ ابن صالح ان کے خاص شاگرد اور کاتب تھے، ان کا بیان ہے کہ میں تقریباً بیس برس ان کی خدمت میں رہا مگرکبھی ان کوتنہا کھانا کھاتے ہوئے نہیں دیکھا، ابوحاتم کا بیان ہے کہ لیث کے پاس جب کوئی مہمان باہر سے آجاتا تھا تووہ جب تک رہتا تھا، اس کووہ اپنے اہل وعیال کی طرفح اپنی کفالت میں لے لیتے تھے، جب وہ جانا چاہتا تھا پورازادِ سفر دے کرواپس کرتے تھے۔ (الرحمۃ الغیشیہ:۵) یہ مہمان نوازی صرف حضر ہی تک محدود نہیں تھی؛ بلکہ سفر میں بھی مہمانوں کا ہجوم ان کے یہ ساتھ ہوتا تھا، ان کے شاگرد قتیبہ بن سعید بیان کرتے ہیں کہ ایک بار امام لیث بن سعد کے ساتھ اسکندریہ سے سفر کرنے کا اتفاق ہوا تواس سفر میں تین کشتیاں تھیں، ایک کشتی میں کھانے کا سامان تھا، دوسری میں اہل وعیال اور تیسری کشتی مہمانوں کے لیے مخصوص تھی۔ اشہب کا بیان ہے کہ لیث بن سعد کبھی کسی سائل کوواپس نہیں کرتے تھے اور ان کے یہاں ایک لنگر خانہ جاری رہتا تھا، عموماً جاڑوں میں ان کے یہاں ہریسہ (یہ گیہوں کوکوٹ کراس میں گوشت کی آمیزش کرکے بناتے تھے) شہدوگائے کے گوشت کے ساتھ مہمانوں کوملتا تھا اور گرمی میں اخروٹ کا ستوشکر کے ساتھ، ان کا معمول تھا کہ ہرنماز کے بعد مساکین پرکچھ رقم صدقہ ضرور کرتے تھے۔ ذاتی زندگی نہایت سادہ تھی مگریہ ساری فیاضی اور سیرچشمی دوسروں کے لیے تھی، ان کی ذاتی زندگی نہایت سادہ تھی، محمد بن معاویہ کا بیان ہے کہ ایک بار اپنے گدھے پرسوار ہوکر جارہے تھے تومیں نے ان کی سواری اور سامان وغیرہ کا اندازہ کیا توسب کی قیمت ۱۸،۲۰/درھم سے زیادہ نہ تھی، یعنی زیادہ سے زیادہ چار روپئے ۔ ایوانِ حکومت سے بے نیازی خلافت راشدہ کے بعد اموی حکومت جب ملوکیت کا شکار ہوئی اور حق وناحق کا فیصلہ ایک شخص کی رائے کے تحت ہونے لگا اس وقت سے ممتاز صحابہ رضی اللہ عنہم اور محتاط تابعین نے حکومت سے تعلق رکھنا پسند نہیں کیا، تبع تابعین کے زمانہ میں گویہ احتیحاط کم ہوگئی تھی مگرپھربھی ممتاز اور خداترس تبع تابعین کی اکثریت نے حکومت کے ساتھ تاعون وتعلق میں صحابہ وتابعین ہی کی روش اختیار کی، لیث بن سعد کا رویہ اس بارے میں ذرامعتدل تھا؛ انہوں نے نہ تواتنا تعلق پیدا کیا کہ وہ درباری عالم ہوکر رہ گئے اور نہ اتنے بے تعلق رہے کہ اس شجرممنوعہ کے قریب جانا بھی پسند نہ کرتے؛ انہوں نے نہ توحکومت کی کوئی ذمہ داری قبول کی اور نہ اس کے سامنے اپنی کوئی غرض لے گئے کہ اظہارِ حق میں یہ مانع ہو؛ مگراسی کے ساتھ وہ خلفاوامراء سے ملتے اور ان کی بہت سی ملکی وانتظامی مشکلات میں ان کا ہاتھ بھی بٹاتے رہے اوپرذکر آچکا ہے کہ ان کی ایک مجلس خاص طور سے ارکانِ حکومت کی حاجت روائی کے لیے ہوتی تھی۔ ان کی اسی اعتدال پسندی کی وجہ سے عوام اور حکومت دونوں پران کا اثر تھا ان کے حکم پرمصر کے امراء وقضاۃ کا عزل ونصب ہوتا تھا، ایک بار قاضی اسماعیل بن الیسع نے ایک مسئلہ میں ایسا فتویٰ دے دیا جسے اہلِ مصر پسند نہیں کرتے تھے، ان کے خلاف ایک ہنگامہ ہوگیا، جب امام لیث کواطلاع ہوئی تووہ ان کے پاس گئے اور کہا کہ آپ نے یہ فتویٰ کیسے دے دیا، جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کا عمل اس کے خلاف موجود ہے، غالباً قاضی صاحب نے رُجوع نہیں کیا اس لیے انہوں نے ان کے معزول کرنے کے لیے لکھا (یہ بات بھی یہاں قابل ذکر ہے کہ پہلے مصر میں قضاۃ کا تقرر مصر کے اُمراء کے ہاتھ میں تھا؛ مگربعد میں یعنی سنہ۱۵۵ھ سے براہِ راست خلفائے ان کا تقرر کرتے تھے، اسماعیل دوسرے قاضی تھے، جن کومہدی نے خود مقرر کیا تھا، کندی نے کتاب القذاۃ میں اس کی تفصیل دی ہے) چنانچہ ان کے معزول کیئے جانے کا شاہی فرمان آگیا؛ چونکہ اس معزولی میں قاضی اسماعیل کی ہرطرح کی بدنامی تھی، اس لیے خط میں خاص طور سے یہ بات امام نے لکھ دی تھی کہ ہم کونہ توان کی دیانت داری میں کوئی شبہ ہے اور نہ انہوں نے درہم ودینار میں کوئی خیانت کی ہے؛ مگران سے شکایت یہ ہے کہ انہوں نے ایک سنت جاریہ کے خلاف فتویٰ دیا اور فیصلہ کیا ہے۔ (الرحمۃ الغیشیہ:۸) کندی نے کتاب القضاۃ میں ان کے معزول کئے جانے کی ایک وجہ اور بھی لکھی ہے، ممکن ہے کہ دونوں وجہیں جمع ہوگئی ہوں، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ مصر کے امراء ان کے مشورہ کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کرپاتے تھے۔ (الرحمۃ الغیشیہ:۸) خلیفہ منصور نے ان سے خواہش کی تھی کہ وہ پورے ملک میں اس کی نیابت قبول کرلیں، بعض روایتوں میں ہے کہ پورے ملک کی نیابت نہیں بلکہ مصر کی امارت پیش کی تھی؛ مگرانہوں نے انکار کیا، اس نے پھراصرار کیا تواپنی کمزوری کا اظہار کیا، اس پرمنصور نے بڑے زور دار الفاظ بلکہ شاہانہ انداز میں کہا کہ میری موجودگی میں آپ کوکسی کمزوری کا احساس نہ کرنا چاہیے؛ مگراس شدید اصرار کے باوجود وہ اپنے فیصلہ پرجمے رہے اوور یہ ذمہ داری قبول کرنے سے صاف انکار کردیا؛ اگرپہلا بیان صحیح ہے (یہ بیان حافظ ابن حجر اور امام ذہبی کا ہے) تومنصور ان کے سامنے پوری مملکتِ اسلام کی وزیر اعظمی پیش کررہا تھا اور اگردوسرا بیان صحیح ہے تواسلامی سلطنت کے سب سے بڑے اور مالدار صوبہ کی گورنرمی پیش کی جارہی تھی؛ مگرانہوں نے اس سے گریز کیا، اس کی وجہ یہ تھی کہ گواس وقت سارا نظام اسلامی ہی تھا؛ مگراقتدار اعلیٰ جمہوری نہیں، شخصی تھا، اس لیے حکومت میں منسلک ہونے کے بعد کسی معاملہ میں اظہارِ حق کی گنجائش نہیں تھی؛ یہی وجہ تھی کہ محتاط بزرگوں نے دربار سے بالکل بے تعلقی رکھی، یاکم ازکم اس کی کسی ذمہ داری کے قبول کرنے سے گریز کیا اور جن بزرگوں نے قبول کیا وہ بڑی آزمائش میں رہے اس آزمائش میں پڑنے کے بعد دوچار ہی بزرگ ایسے تھے جواپنی حق گوئی اور جرأت سے سلامت بچ گئے؛ ورنہ زیادہ ترلوگوں کا دامن اس آزمائش میں داغدار ہوکر رہا۔ کیا عہدۂ قضا قبول کرلیا تھا ابنِ خلکان اور صاحب شذرات الذہب نے لکھا ہے کہ انہوں نے عہدۂ قضا قبول کرلیا تھا؛ مگریہ صحیح نہیں ہے، اس کی متعدد وجہیں ہیں ایک یہ کہ اوپرذکر آچکا ہے کہ انہوں نے امارت کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کیا، ظاہر ہے کہ جب انہوں نے امارت کی ذمہ داری تک قبول نہیں کی توپھر اس سے کم درجہ کا عہدہ یعنی عہدہ قضا قبول کرنے کے کیا معنی، دوسرے یہ کہ جیسا کہ اوپر ذکر ہوا ہے کہ جب ان کے حکم سے مصر کے امراء اورقضاۃ کا عزل ونصب تک ہوتا تھا توپھران کواس عہدۂ کے قبول کرنے کے کی کیا ضرورت تھی جوخود ان کے اثر واختیار کے تحت ہو۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ کندی نے مصر کے دلاۃ وقضاۃ کی مکمل تاریخ لکھ دی ہے، جو ہرکتب خانہ میں مل سکتی ہے، اس میں ولاۃ یاقضاۃ کی جوفہرست دی ہے اس میں کہیں لیث بن سعد کا نام نہیں ملتا، بخلاف اس کے کتاب میں ایسے واقعات ملتے ہیں جن سے ان کی تردید ہوتی ہے؛ مگراس بے تعلقی کے باوجود وہ دربار میں جاتے اور موقع آجاتا توخلفاء کونصیحت وموعظت بھی کرتے، ایک بار ہارون رشید سے ملنے گئے اس نے ان سے پوچھا کہ مصر کی خوش حالی اور فارغ البالی کا دارومدار کس چیز پر ہے، نہایت صفائی سے فرمایا کہ: ترجمہ:نیل کے جاری رہنے اور مصر کے امیر کے صلاح وتقویٰ پر پھرفرمایا کہ نیل کے منبع کی طرف سے گندگی آتی ہے جس کی وجہ سے پوری نہرپٹ جاتی ہے، اس کی صفائی کی ضرورت ہے، یہ باتیں سننے کے بعد ہارون نے کہا کہ آپ نے بہت صحیح فرمایا۔ (الرحمۃ الغیشیہ:) اس زمانہ میں خلفاء وامراء کی مدح سرائی اور قصیدہ خوانی کا عام رواج تھا، بسااوقات یہ بدعت مسجدوں تک میں کی جاتی تھی، ایک بار معروف شاعر عمار بن منصور مصرآیا اور اس نے مسجد میں خلیفہ وقت کی مدح میں ایک قصیدہ پڑھا، ابھی اس نے اپنا قصیدہ ختم ہی کیا تھا کہ دوآدمی اس کے پاس آئے اور کہا کہ تم کوامام لیث ابن سعد بلارہے ہیں جب یہ ان کے پاس آیا توآپ نے اس سے کہا کہ تم مسجد میں کیا پڑھ رہے تھے، قصیدہ دہرایا، سننے کے بعد ان پرافسوس اور رقت کی کیفیت طاری ہوئی، کچھ دیر کے بعد جب یہ کیفیت دور ہوئی تونام پوچھا؛ پھراس کوروپیے کی ایک تھیلی دی اور اس سے کہا کہ اپنے کلام کوسلاطین کے دربار سے بچائے رکھو اور (سلاطین ہی پرکیا ہے) کسی مخلوق کی مدح نہ کرو، بس خدا کی حمدوثنا تمہارے لیے کافی ہے، انشاءاللہ میں ہرسال تم کواتنی ہی رقم بھیجتا رہوں گا۔ (الرحمۃ الغیشیہ:۷) غالباً اس کے بعد سے اس نے کسی کی مدح نہیں کی اور امام کے حلقہ تلامذہ میں داخل ہوگیا۔ اہلِ مصر کوحضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی تنقیص سے روکا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد جہاں اور بہت سے فتنے پیدا ہوئے، وہاں ایک فنتہ بزرگوں پرطعن وتشنیع اور سب وشتم کا بھی تھا، جولوگ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے حامی تھے وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تنقیص کرنا ضروری سمجھتے تھے اور جولوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مددگار تھے وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پرچھینٹے ڈالنا اپنا فرض سمجھتے تھے، مصر کے باشندے عام طور پرحضرت علی رضی اللہ عنہ کے حمایتی تھے، اس لیے وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی مذمت وتنقیص کیا کرتے تھے، مصر میں جب امام لیث بن سعد کا اثرورسوخ بڑھا توانہوں نے اس کے خلاف آواز اُٹھائی اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے فضائل عام طور پربیان کرنے شروع کردیئے، یہاں تک کہ تنقیص عثمان رضی اللہ عنہ کی بدعت سیئہ مصر سے ختم ہوگئی۔ (تاریخ بغداد:۱۳/۷) وفات اس مجسمہ حسن وخوبی اور مجموعہ فضل وکمال نے نصف شعبان بروز جمعہ سنہ۱۷۵ھ کوفات پائی اور جمعہ کی نماز إے بعد مصر کے ممتاز قبرستان قرافۂ صغریٰ میں جس میں نہ جانے کتنے گنجائے گراں مایہ مدفون تھے، سپردِخاک کیے گئے، موسیٰ بن عیسیٰ ہاشمی نے نمازِ جنازہ پڑھائی، جنازۃ میں بے شمار مجمع تھا؛ مگرپورا مجمع اس طرح پیکرغم بناہوا تھا کہ گویا یہ ہرشخص کے گھر کی میت ہے، خالد بن عبدالسلام صدقی کا بیان ہے کہ میں اپنے والد عبدالسلام کے ساتھ جنازہ میں شریک تھا، میں نے ایسا عظیم الشلان جنازہ نہیں دیکھا، پورا مجمع پیکرغم بنا ہوا تھا، ہرایک دوسرے سے اظہارِ تعزیت کررہا تھاغم کا یہ عالم دیکھ کر میں نے اپنے والد سے کہا کہ مجمع کا ہرشخص ایسا غم زدہ معلوم ہوتا ہے کہ گویا یہ جنازہ اسی کے گھر کا ہے، والد نے کہا کہ بیٹا! یہ ایسے جامع فضل وکمال عالم تھے کہ شاید تمہاری آنکھیں پھرایسا عالم نہ دیکھیں۔ (الرحمۃ الغیشیہ:۹) اولاد ان کے دوصاحبزادوں کے نام تذکروں میں ملتے ہیں، ایک شعیب، دوسرے حرث، آپ کی کنیت ابوالحرث ان ہی صاحبزادہ کے نام پرتھی، ان صاحبزادگان کے حالات تذکروں میں نہیں ملتے؛ مگرجستہ جستہ جوواقعات ملتے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ یہ صاحب علم تھے، شعیب کے صاحب علم ہونے کا پتہ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ امام لیث بن سعد انہی کی اقتداء میں نماز پڑھا کرتے تھے۔ (تاریخ بغداد:۱۳/۱۰) تصانیف افسوس ہے کہ ان کی مرویات اور ان کے فتاوے مجتہدات باقاعدہ مدون نہیں کئے گئے؛ ورنہ ان کے علم وفضل کا ایک اچھا خاصا ذخیرہ ہمارے سامنے موجود ہوتا، اب بھی اگراحادیث وفقہ کی کتابوں سے ان کی مرویات اور ان کے اقوال وفتاوے کوالگ کرلیا جائے توحدیث وفقہ کا ایک اچھا خاصہ گل دستہ اس سے تیار کیا جاسکتا ہے؛ مگراب اس طرح کام کون کرے اور اگرکربھی لیا جائے تواس کی قدر کون کرے، تذکروں میں ان کی جن تحریری یادگاروں کا ذکر ملتا ہے وہ یہ ہیں: امام ذہبی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ یہ کثیر التصانیف تھے۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۰۷) لیکن انہوں نے ان کی کسی تصنیف کا ذکر نہیں کیا ہے اور یہ عموماً تصانیف کا تذکرہ کم کرتے بھی ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تہذیب میں توان کی کسی تصنیف کا ذکر نہیں کیا ہے؛ مگرالرحمۃ الغیشیہ میں لکھا ہے کہ میں نے ان کی مرویات کا وہ مجموعہ دیکھا ہے جوحضرت نافع کے واسطہ سے مروی ہیں؛ انہوں نے اس کتاب میں لیث بن سعد کی روایات کردہ چالیس ایسی احادیث بھی نقل کی ہیں جوان تک صرف آٹھ واسطوں سے پہنچی ہیں، ایسی روایات جوکم سے کم راویوں کے ذریعہ مروی ہوں ان کومحدثین کی اصطلاح میں عوالی حدیث کہا جاتا ہے؛ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آٹھویں صدی تک ان کی مرویات کے بعض مجموعے متداول تھے، کسی شاگرد نے ان سے پوچھا کہ آپ بسااوقات ایسی روایتیں کرتے ہیں جوآپ کی کتابوں میں نہیں ملتیں، بولے: أَوَكُلَّمَا فِي صَدْرِي فِي كُتُبِي؟۔ (تہذیب التہذیب:۸/۴۱۵، شاملہ، المؤلف: ابن حجر العسقلاني،مصدر الكتاب: موقع يعسوب۔ دیگرمطبوعہ:۸/۴۶۳) ترجمہ: کیا جوکچھ سینہ میں ہے وہ سب میری تمام کتابوں میں آگیا ہے؟۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خود لیث بن سعد نے اپنی مرویات اور ممکن ہے کہ بعض فتاوے وغیرہ بھی مرتب کرلیے تھے، جوان کے تلامذہ کی عام توجہی کی وجہ سے ضائع ہوگئے، جیسا کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ ضیعہ اصحابہ ان کے تلامذہ نے ان کو (یعنی ان کے علم وفضل کو) ضائع کردیا۔ ابنِ ندیم نے ان کی دوکتابوں کا خاص طور سے ذکر کیا ہے، ایک کتاب التاریخ وغیرہ کتاب مسائل فی الفقہ، صفحہ نمبر:۲۸۱۔